What's new

China Pakistan Economic Corridor (CPEC) | Updates & Discussions

Everything is fine , what about when Terrorist blown the china's Shipment in PAK , like they blow US oil tankers .... who will bear the loss?

PAK has to invest huge man power to save them which added more cost. Insurance will go up.

Terrorists won't just come in and blow stuff up just because they feel like it. This isn't India where anyone can walk in anywhere and no one cares
 
. .
India thinks it is a great threat to india
Allah knows what the think
We think its none of India's business!

While its purely Pakistan business, an watchful eye and contingency against indian nefarious plan should be in place.
Indian propaganda and action to label Pakistan is shattered, now india is fishing for new game plan against Pakistan, specially with US. It is important to note, preventing China get access to Arabian Sea is common agenda of india and US.

With that threat looming over, it is imperative Pakistan uses its leverage over US in Afghanistan and elsewhere to make sure yanks are on line and india never get connectivity and foothold in Afghanistan and Central Asia.
 
.
PM performs groundbreaking ceremony of Hazara Motorway

This important road link is part of Pakistan China Economic Corridor agreement.


Prime Minister Muhammad Nawaz Sharif performed the ground breaking ceremony of the Hazara Motorway in Havelian today.

This important road link is part of Pakistan China Economic Corridor agreement.

The 60-km long 4-lane fenced expressway will cost thirty-three billion rupees. Hazara Motorway will reduce the drive time from Islamabad to Havelian to just 30 minutes in addition to providing road to the Havelian Dry Port project.

Kohistan, Batagram, Mansehra, Abbottabad and Haripur will be linked to Motorway.

The project is a translation of Prime Minister's commitment to expand the networks of motorways to build a progressive Pakistan. The project will create hundreds of thousands of employment opportunities, possibilities of new business ideas, and socio-economic uplift of the whole region.

Earlier, the Prime Minister was briefed on the project by National Highway Authority Chairman Shahid Ashraf Tarar.

On arrival, the Prime Minister was welcomed by the PML(N) leadership including Religious Affairs Minister Sardar Muhammad Yousuf, Governor KPK Mehtab Ahmad Khan, Deputy Speaker National Assembly Murtaza Javed Abbasi and Retd Capt Safdar.

Radio Pakistan
 
. .
اسلام آباد: گذشتہ دنوں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خیبر پختون خواہ میں ساٹھ کلومیٹر طویل نئی شاہ راہ ہزارہ موٹر وے کی تعمیر کا افتتاح کیا، اس کو ’’پاک چائنا اکنامک کاریڈور‘‘ کا پہلا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔

وزیر اعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ خطے میں گیم بدل دے گا۔کاشغرگوادر پراجیکٹ سے دنیا کے تین ارب لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق اس کاریڈور نے پاکستانی کشمیر سے بھی گزرنا ہے، اس لیے بھارت نے اس منصوبے پر ناپسندیدی کا اظہار کیا ہے۔ کشمیر سے گزرے بغیر یہ شاہ راہ چین اور پاکستان کو ملا نہیں سکتی، اس لیے بھارت کو خوف پیدا ہو رہا ہے کہ اس شاہ راہ کی تعمیر کے بعد پاکستان کی اس علاقے میں عمل داری مزید مضبوط ہو جائے گی۔ یہ شاہ راہ چین کے شہر کاشغر کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے ملائے گی۔

سڑک کے علاوہ اس کاریڈور میں ریلوے لائن، تیل اور گیس کی پائپ لائنیں اور فائبر آپٹکس کیبلز بچھائے جانے کی تجویز بھی منظور کی جاچکی ہے۔ یہ شاہ راہ چین کی’’گرینڈ ویسٹرین ڈیولپمنٹ اسٹریٹجی‘‘ کے نام سے شروع کیے جانے والے اُن منصوبوں میں سے ایک ہے جن کا آغاز1978 میں چینی رہ نما ڈنگ ژیاؤپنگ نے کیا تھا۔

اس منصوبے کے تحت اوئغور سنکیانگ کے علاقوں کو مشرقی چین سے جوڑنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر لمبے ہائی ویز تعمیر کیے گئے،ریلوے لائنیں بچھائی گئیں،ٹیکس میں غیرمعمولی چھوٹ دی گئی اور اس کے علاوہ شنگھائی ‘ بیجنگ کے ساتھ مشرقی یا وسطی چین سے آنے والے صنعت کاروں کو صنعتیں لگانے میںہر طرح کی مراعات دی گئیں۔ چینی حکومت نے ہر سال بجٹ میں اس علاقے کو اربوں روپے کے خصوصی فنڈ فراہم کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے چین کا یہ پس ماندہ علاقہ ترقی یافتہ مشرقی یا وسطی چین کے برابر آ گیا لیکن اس خطے کو مکمل فعال بنانے کے لیے ضروری تھا کہ اس علاقے میں تیار ہونے والی مصنوعات کو عالمی منڈی تک کم سے کم فاصلے کے ساتھ رسائی فراہم کی جائے۔

کاشغر سے شنگھائی تک کا فاصلہ پانچ ہزار کلو میٹر بنتا ہے اس لیے چینی قیادت نے بہت سوچ بچار کے بعد کاشغر کو پاکستان کی نئی بندرگاہ گوادر سے ملانے کے لیے اس تجارتی کاریڈور کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، جس میں پاکستان نے بھی بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کاریڈور کو تعمیر کرنے سے متعلق بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور اس شاہ راہ کے لیے دوہزار کلو میٹر روٹ فائنل کیا گیا۔ منصوبے کے مطابق اس روٹ نے ایبٹ آباد‘ حسن ابدال‘ میاں والی‘ ڈی آئی خان ‘ ژوب اورکوئٹہ سے گزرتے ہوئے گوادر تک جانا ہے اور اس شاہ راہ کو موٹر وے کی بجائے ٹریڈ کاریڈور طرز پر تعمیر کیا جانا ہے، جس پر مخصوص فاصلوں پر صنعتی زون قائم کیے جانے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبہ اُسی طرح تیار ہو، جس طرح ڈیزائن گیا تو اس سے پورے پاکستان اور بالخصوص فاٹا‘ خیبرپختون خوا اور بلوچستان، تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بنتے ہیں، اس سے ان علاقوں سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔

گوادر بندرگاہ سے خلیج فارس محض200 میل دور ہے،جو دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر چین کے لیے خوش کن بات ہے کہ گوادر کا روٹ کھلنے سے اُسے 12 ہزار کلو میٹر طویل سمندری مسافت کے دوران امریکا کی ممکنہ بلیک میلنگ اورسمندری مسافت کے اخراجات سے چھٹکارہ ملنے کے علاوہ تیل کو آف لوڈ کرنے کے بعد پائپ لائنوں سے گزارنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور یوں بیجنگ مسلسل دباؤ سے آزاد ہو جائے گا۔ اس بات کو امریکا بھی اچھی طرح سمجھتا ہے، اس لیے یہ منصوبہ چین سے زیادہ پاکستانی قیادت کا امتحان بن سکتا ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کا یہ ہی وہ پہلو ہے جس سے فریقین فی الوقت جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں جب کہ صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی کے برعکس بھی کچھ ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کی نسبت چین کو کم نقصان ہو گا کیوں کہ چین کے لیے دیگر راستے بدستور کھلے ہیں۔

چین کی وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں ترقی کے لیے طویل شاہ راہوں کا سلسلہ پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا ہے اور بڑے دہانوں والی پائپ لائنیں بھی بچھ چکی ہیں۔ برما سے لے کر چین تک پائپ لائن پراجیکٹ پر کام ختم ہوچکاہے۔ خدانخواستہ گوادر پورٹ آپریشنل نہیں ہوپاتی تو بھی چین اپنے آئل ٹینکروں کو برما کے ساحل پر خالی پائپ لائن میں ڈال سکتا ہے، اس سے بارہ ہزار نہیں تو چین کو کم از کم چھ ہزار کلومیٹر سفر کی بچت تو ہوگی۔

اسی طرح اس کے ہم سائے میں موجود روس کے انرجی وسائل بھی چین کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ روس سے تیل اور گیس کی درآمد کا ایک زبردست معاہدہ جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔ شاید اسی لیے ایک امریکی تھنک ٹینک فرماتے ہیں’’پاک چین اکنامک کاریڈور بے معنی شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، سنکیانگ میں جاری اسلامی تحریکوں اور علیحدگی پسندی کے ڈانڈے پاکستان کے اندر ہیں جن کو اسلام آباد، بیجنگ کی منشا کے مطابق اگر کچلا نہ گیا تو یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ چین کی خواہش کے باوجود کچھ بھی نہیں ہو پائے گا اور قرآئن بتاتے ہیں کہ مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔

جب کہ روس کے انسٹی ٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے محقق بورس وولہونسکی کے مطابق’’اس منصوبے کی معاشی اہمیت سے انکار نہیں۔ اوّل، یہ چین کی ترقی کے لیے خوش آیند ہوگا اور علاقے سے سرگرم بنیاد پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے پاؤں تلے سے زمین سرکائی جا سکے گی۔

دوئم ،چین کو خلیج فارس سے تیل لانے کا مختصر ترین زمینی راستہ مل جائے گا، اس سے چین کو آبنائے ملاکا سے نہیں گزرنا پڑے گا اور یوں یہ ضمانت بھی مل جائے گی کہ کوئی بھی غیر ملکی قوت خام مال کی آمد میں حارج نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ کاریڈور بننے سے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان پیدا ہو جائے گا اور زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ ساری ترقی پس ماندہ صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں ہوگی‘‘۔ جب کہ چین اور پاکستان بھی کہ چکے ہیں’’اس منصوبے کی تکمیل سے صرف ہمیں ہی نہیں، نزدیکی ہم سایہ ملکوں کو بھی فائدہ ہوگا‘‘۔

انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی معیشت و بین الاقوامی تعلقات کے ایک ماہر اور روس کی وزارت برائے امور خارجہ کی سفارتی اکادمی برائے مشرق تحقیق مرکز کے سربراہ آندرے وولودین کہتے ہیں’’چین نے ایک بار پھر پاکستان کو اپنا سچا اتحادی اور اہم ترین تزویری شریک کار ظاہر کردیا ہے۔ اب چین کی رضامندی کے بغیر پاکستان میں کچھ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کچھ ہوگا۔

اب چین دنیا میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی قوت ہے، وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ افغانستان سے اتحادی دستوں کے انخلا کے بعد پاکستان مستحکم ہو کیوں کہ پاکستان کے حالات بہت ناقابل قیاس ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان ٹوٹ جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہاں سے امریکا کے نکلنے کے بعد افغانستان کے لیے اچھے حالات پیدا ہوجائیں۔ میرے خیال میں اس وقت دوسرے امکان پر شی جن پنگ اور ان کے رفقا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی قیادت بھی یہ سمجھتی ہے کہ ان کے لیے امکانات بہت اچھے نہیں چنانچہ وہ چین کی مدد سے کبھی انکاری نہیں ۔ یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں زیادہ کام اور اثرورسوخ امریکا کا ہے مگر اس نقطہ نظر کو اب درست کیے جانے کی اشد ضرورت ہوگی ‘‘۔

اگر چین پاکستان کاریڈور کو بطور معاشی کاریڈور لیا جائے تو علاقے میں انفراسٹرکچر کے کئی معاملات حل ہونے کے امکانات ہیں جو جنوبی، مرکزی اور وسط ایشیا سے شمالی یوریشیا تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن اس کاریڈور کے روٹ میں جب سے تبدیلی کی باتیں سامنے آنے لگیں ہیں، اُس وقت سے اس منصوبے کے متنازعہ بننے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے حلقۂ انتخاب یعنی لاہور کو اس کاریڈور سے مستفید کرنے کے لیے اس سڑک کا رخ اصل روٹ سے ہٹا کر لاہور کی طرف موڑنے کی منصوبہ بندی کی ہے، جس پر بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے سینیٹرز نے حکومت کو سخت احتجاج کی دھمکی دی تھی، تاحال یہ معاملہ راکھ میں دبا ہواہے لیکن یہ چنگاری کسی وقت بھی جنگل کی آگ بن سکتی ہے ۔ روٹ بدلنے سے متعلق حکومت کی دلیل یہ ہے کہ وسائل کم ہونے کے باعث نئی سڑک تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔

اس لیے حسن ابدال سے گوادر تک نئی سڑک بنانے کی بجائے اس ٹریڈ کاریڈور کے لیے موجودہ موٹروے (ایم ٹو) کو ہی استعمال کیا جائے، بعد ازاں اس کو ملتان سے گوادر کے ساتھ ملا دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس بہانے کی آڑ میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا کو اس نعمت سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟ جب کہ شہر شہر میٹرو منصوبوں کے اعلانات نے سوچنے والوں کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے،حال آں کہ اس کاریڈور پر کئی صنعتی بستیاں تعمیر ہونے والی ہیں، جن کی سب سے زیادہ بلوچستان اور کے پی کے کو ہی ضرورت ہے۔

دوسری جانب چین نے بھی اس منصوبے میں اس تبدیلی کو پسند نہیں کیا، وہ اب بھی برہان سے براستہ میانوالی اور ڈی آئی خان ‘ ژوب اور کوئٹہ سے ہوتے ہوئے گوادر تک رسائی چاہتا ہے۔ لاہور سے ملتان اور پھر کوئٹہ سے گوادر روٹ کے باعث چین کے لیے یہ فاصلہ کئی سوکلومیٹر بڑھ جائے گا۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم نے روٹ میں تبدیلی کے ارادے کو ملتوی کردیا ہے لیکن اس کے باوجود خطرہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اس منصوبے کو تبدیلی کے ساتھ ہی مکمل کیا جائے گاکیوں کہ میاں نوازشریف نے ایبٹ آباد حسن ابدل سیکشن کا افتتاح تو کردیا لیکن حسن ابدال تا گوادر تک شاہ راہ کی تعمیر کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔

اسلام آباد میں پاک چین اکناک کاریڈور سیکریٹریٹ 27 اگست 2013 سے فعال ہوگیا تھا لیکن بعض حلقوں کے نزدیک یہ منصوبہ خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔اس منصوبے کا عرصۂ تکمیل متعین نہیں،منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ 35 بلین ڈالر بتایا جارہا ہے،اس کے علاوہ بھی تخمینے سامنے آرہے ہیں۔ یہ بھی وضاحت نہیں کہ اس میں چین اور پاکستان کا حصہ کتنا ہوگا اور پاکستان کی ذمہ داری کیا ہوگی؟ قیاس یہ بھی ہے کہ انرجی، انفرا اسٹرکچر اور داخلی شاہ راہوں پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ پاکستان کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ چین کی جانب سے تعاون آیا تو قرضے کی شکل میں ہوگا مگر یہ واضح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذبات نہیں چلتے ہر کوئی اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔

ایک وقت تھا جب پاکستان کے دوستوں کی ترتیب یوں ہوا کرتی تھی،سعودی عرب، امریکا، برطانیہ اور اس کے بعد چین آیا کرتا تھا، اس دفعہ اپنے اولین بیرونی دورے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے چین کا انتخاب کرکے اپنی فارن پالیسی کی ترجیحات کا بڑا واضح اظہار کیا تو ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اس فارن پالیسی میں اس تبدیلی کے فیصلے سے خطے میں حقیقی تبدیلی کا نقطۂ آغاز طے ہو جائے گا؟ کیا اس مرتبہ معاملات واقعی مختلف ہوں گے ؟

کاریڈور کے آغاز اور اختتام پر مذہبی انتہاپسندی اور عسکری تنظیموں نے جو غیریقینی صورت حال پیدا کررکھی ہے اور اگر اس کا مکمل سدباب بھی نہیں ہورہا تو ایسے میں یہ سارا منصوبہ دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا؟ گوادر خود بھی محفوظ جگہ نہیں اور علاقے میں تعمیراتی کاموں کے دوران چینی کارکنوں کو اس کا تجربہ ہے اور پائپ لائن اور متعلقہ تنصیبات ہر وقت دہشت گردوں کے نشانہ پر ہوتی ہیں۔ موجودہ قراقرام ہائی وے بھی گوناگوں مسائل سے دوچار رہتی ہے۔ یہ 800 کلومیٹر طویل شاہراہ کبھی قدرتی آفت کی تو کبھی فرقہ واریت کی زد پر ہوتی ہے۔ اس کی شکست و ریخت اور اپ گریڈیشن کا مسلسل عمل ایک الگ کہانی ہے، پھر اس شاہ راہ کی سیکیوریٹی کا مسئلہ اس قدر شدید ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے فورسز کو دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پاکستان فطری طور پر نسبتاً زیادہ پرجوش تو ہے مگر اقتصادی پریشانیوں سے نکلنے کے لیے اس کے آپشنز بہت محدود ہیں۔

مندرجہ بالا امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر اس کاریڈور کا حتمی روٹ، مالی تخمینہ، اس تخمینے میں پاکستان کا حصہ اور
منصوبے کی تکمیل کی مدت کو جاری کردینا چاہیے تاکہ اس منصوبے کو ابہام اور تحفظات سے نکال کر شفافیت کے اُجالے میں لایا جاسکے۔
پاک چائنا اکنامک کاریڈور: 2014 کی نئی پیش رفت – ایکسپریسس اردو
 
.
1102668784-1.gif


1102668762-1.gif
 
.
Look at the mass transit from Gawader
 

Attachments

  • 1423305612103.jpg
    1423305612103.jpg
    29.6 KB · Views: 102
.
Described benefits of this economic corridore
 

Attachments

  • 1423305726418.jpg
    1423305726418.jpg
    60.9 KB · Views: 86
. .
China needs enabling environment for Gwadar port

Islamabad—Beijing has asked Islamabad to ensure the enabling environment for the Chinese companies, its experts and labour for smooth development of Gwadar port making it operational within a stipulated time, a senior official dealing with Pak-China Corridor Project told Pakistan Observer.

“China is trying from pillar to post to make the Gwadar a viable port and to this effect it has asked the government of Pakistan to introduce separate laws for Gwadar which are not applicable in the remaining parts of whole Pakistan.”

Chinese are geared up to first build the display centers at the port wherein Chinese products will be at display along with Pakistani products too. Chinese are going to establish the fisheries industry at Gwadar at the very outset. One Chinese company is also geared up to set up a cement industry at Gwadar that will help develop the special economic zones, free zone, industrial city, and oil city. On top of that Gwadar will be made data connection corridor through project of cross border fiber optic cable that will link port city with China. Fiber cable will be laid down on the distance of 11000 kilometers linking Kashgar reaching up to the West part of China.

The official said that the number of Chinese people will be increased manifold by mid of this year at Gadawar to execute the various projects at port city owing to which Beijing wants Gwadar should be provided enabling environment for which the required law making must be done along with the required infrastructure enabling every inhabitant at the Gwadar to play his role for the unhindered development of new port city of the country.

Some weeks back a Chinese delegation held a series of meetings with top functionaries of the Nawaz government and placed their assertion before them to this effect.

China, that desires to invest mammoth amount of $45.649 in various sectors of economy, will invest $27.362 billion in three years time in energy, transport infrastructure and rail sectors, has stepped up its efforts to complete 9 projects at Gwadar to help develop the port commercially.

The official said that $ 622 million projects at Gwadar include Eastbay Expressway, Gwadar International Airport, Construction of Breakwaters, Dredging of Birthing areas and channels, infrastructure of Free Zones and Export Processing Zones port related industries, Necessary Facilities of Fresh Water Treatment and Supply, Hospital at Gwadar and Technical and Vocational Institute at Gwadar.

The official said that the said projects will be completed in three years time that will help Gwadar emerge as port city. “The Eastbay Expressway will be completed at the cost of $123 million that will improve the road connectivity of Gwadar as Eastbay Expressway will connect Gadawar with coastal highway. Likewise, Gwadar International Airport is being built at the cost of 77 million dollars to ensure the air connectivity.”

The official said that next five years are very challenging to develop Gwadar as commercial port. Chinese are also going to establish hospital at Gwadar at the cost of $10 million where in locals will be provided free of cost medical treatments. In addition, China is also going to set up vocational training centers where locals will be given training for various sectors and then they will be used as human resources in various sectors of economy in the port city.

The water supply will be arranged from two dams close to Pasni one from Shadi dam and other from Swadi dam.

The official said that under early harvest program in energy sector, in next three years time till 2017, 14 projects with capacity to generate 10400 MW of electricity at the cost of $ 15.506 billion will be executed and operational. He said that in road sector, KKH-II from Raikot to Islamabad and Karachi Lahore motorway will be constructed will be constructed at the cost of $5.6 billion.

However, survey for route of KKH-I from RaiKot to Khujrab that will ultimately link up to the Kashgar is underway. And in rail sector under early harvest program in next three years time, the expansion and reconstruction of existing line ML-1 and Havelian Dry Port will be completed at the cost of $3.690 billion. Apart from the said projects, Orange Line project for Lahore will be completed in next three years time under early harvest program at the cost of $1.6 billion. Harb-e-Ruba Economic Zone will be constructed under early harvest program.

China is helping in installation of LNG project at Gwadar to provide LNG pipeline of 800 kilometers from Gwadar to Nawabshah at the cost of $ 3 billion under g-to-g arrangement and when the sanctions on Iran imposed by US and EU for its nuclear ambitions are over, then the same pipeline will be extended to the border of Iran from Gwadar and that pipeline will also be called IP (Iran-Pakistan) gas line.

China’s cooperation in nuclear power generation is also unique and so far it has helped set up Chashma nuclear power plant (C-1) and (C-2) and is in process of completing C-3 and C-4 with each having capacity of 325 MW of electricity. Likewise, the China has also undertaken the initiative to install Karachi Nuclear Power Plant (K-2) and (K-3) with each having capacity to generate 1000 MW electricity.


China needs enabling environs for Gwadar port
 
.
China needs enabling environment for Gwadar port

Islamabad—Beijing has asked Islamabad to ensure the enabling environment for the Chinese companies, its experts and labour for smooth development of Gwadar port making it operational within a stipulated time, a senior official dealing with Pak-China Corridor Project told Pakistan Observer.

“China is trying from pillar to post to make the Gwadar a viable port and to this effect it has asked the government of Pakistan to introduce separate laws for Gwadar which are not applicable in the remaining parts of whole Pakistan.”

Chinese are geared up to first build the display centers at the port wherein Chinese products will be at display along with Pakistani products too. Chinese are going to establish the fisheries industry at Gwadar at the very outset. One Chinese company is also geared up to set up a cement industry at Gwadar that will help develop the special economic zones, free zone, industrial city, and oil city. On top of that Gwadar will be made data connection corridor through project of cross border fiber optic cable that will link port city with China. Fiber cable will be laid down on the distance of 11000 kilometers linking Kashgar reaching up to the West part of China.

The official said that the number of Chinese people will be increased manifold by mid of this year at Gadawar to execute the various projects at port city owing to which Beijing wants Gwadar should be provided enabling environment for which the required law making must be done along with the required infrastructure enabling every inhabitant at the Gwadar to play his role for the unhindered development of new port city of the country.

Some weeks back a Chinese delegation held a series of meetings with top functionaries of the Nawaz government and placed their assertion before them to this effect.

China, that desires to invest mammoth amount of $45.649 in various sectors of economy, will invest $27.362 billion in three years time in energy, transport infrastructure and rail sectors, has stepped up its efforts to complete 9 projects at Gwadar to help develop the port commercially.

The official said that $ 622 million projects at Gwadar include Eastbay Expressway, Gwadar International Airport, Construction of Breakwaters, Dredging of Birthing areas and channels, infrastructure of Free Zones and Export Processing Zones port related industries, Necessary Facilities of Fresh Water Treatment and Supply, Hospital at Gwadar and Technical and Vocational Institute at Gwadar.

The official said that the said projects will be completed in three years time that will help Gwadar emerge as port city. “The Eastbay Expressway will be completed at the cost of $123 million that will improve the road connectivity of Gwadar as Eastbay Expressway will connect Gadawar with coastal highway. Likewise, Gwadar International Airport is being built at the cost of 77 million dollars to ensure the air connectivity.”

The official said that next five years are very challenging to develop Gwadar as commercial port. Chinese are also going to establish hospital at Gwadar at the cost of $10 million where in locals will be provided free of cost medical treatments. In addition, China is also going to set up vocational training centers where locals will be given training for various sectors and then they will be used as human resources in various sectors of economy in the port city.

The water supply will be arranged from two dams close to Pasni one from Shadi dam and other from Swadi dam.

The official said that under early harvest program in energy sector, in next three years time till 2017, 14 projects with capacity to generate 10400 MW of electricity at the cost of $ 15.506 billion will be executed and operational. He said that in road sector, KKH-II from Raikot to Islamabad and Karachi Lahore motorway will be constructed will be constructed at the cost of $5.6 billion.

However, survey for route of KKH-I from RaiKot to Khujrab that will ultimately link up to the Kashgar is underway. And in rail sector under early harvest program in next three years time, the expansion and reconstruction of existing line ML-1 and Havelian Dry Port will be completed at the cost of $3.690 billion. Apart from the said projects, Orange Line project for Lahore will be completed in next three years time under early harvest program at the cost of $1.6 billion. Harb-e-Ruba Economic Zone will be constructed under early harvest program.

China is helping in installation of LNG project at Gwadar to provide LNG pipeline of 800 kilometers from Gwadar to Nawabshah at the cost of $ 3 billion under g-to-g arrangement and when the sanctions on Iran imposed by US and EU for its nuclear ambitions are over, then the same pipeline will be extended to the border of Iran from Gwadar and that pipeline will also be called IP (Iran-Pakistan) gas line.

China’s cooperation in nuclear power generation is also unique and so far it has helped set up Chashma nuclear power plant (C-1) and (C-2) and is in process of completing C-3 and C-4 with each having capacity of 325 MW of electricity. Likewise, the China has also undertaken the initiative to install Karachi Nuclear Power Plant (K-2) and (K-3) with each having capacity to generate 1000 MW electricity.


China needs enabling environs for Gwadar port

Looks like a very comprehensive plan for Gwadar. Lets hope the local govt. department can facilitate the requirements to accelerate the program, strive to make Qwadar the Shenzhen or even Shanghai of Pakistan.
 
Last edited:
.
Funny how this government is playing with the sentiments of the masses.
 
.
Analysis: China-Pakistan corridor or labyrinth?
Khurram Husain
54e3e3cd03c64.jpg

Federal Minister Ahsan Iqbal and Zhang Xiaoqiang, Vice Chairman, National Development and Reforms Commission, inaugurate 'Pak-China Economic Corridor Secretariat' in Planning Commission. - INP/File
IF you’re confused about the controversy around the route of the China-Pakistan Economic Corridor (CPEC), don’t bother going online to clear things up. You won’t find a thing.

For instance, since much of the controversy is about the route of the road link between the deep-water port of Gwadar and the mountain border crossing of Khunjerab, simple common sense would want you to locate a map of this route.

The government is being assailed for having changed the route, which apparently under its original plan ran from Gwadar to Quetta, then up to Zhob before veering east towards D.I. Khan. The government is being criticised for having changed this route to go straight east from Gwadar towards Khuzdar, then slightly northeast to cross the River Indus near Ratodero and connect with the road network in Sindh. The government is strenuously denying that any route changes have been made, arguing that there are two routes being pursued, and on the request of the Chinese, the second route is being built first simply because it is cheaper.

Also read: Corridor furore

A visit to the website of the Planning Commission, which is overseeing much of the project at this stage, shows a link titled Pak-China Economic Corridor under their “About us” tab. You might expect to find some useful information that could clear the air on the route controversy on this link, but all you find is a series of press releases, and photographs.

The news item at the top is headlined “Early finalisation of projects under China-Pakistan economic corridor.” The news item tells you about a “high-level delegation” that visited Beijing on Feb 2 “to hold meetings with Chinese authorities”. The authorities are then listed and a photograph at the top of the release shows the delegation, which includes the minister of state for foreign affairs and the water and power secretary. The release contains statements given by both individuals at the event they attended, but no statements from their Chinese counterparts. Assurances are floated of “high-level interest” in the CPEC in Pakistan and that the government of Pakistan is “taking all the required measures” to see early implementation of the projects.

Other news items appear below but nowhere on the entire site do you find a listing of all the projects under the CPEC, no map of the routes, no tender documents for work currently under way or in the pipeline. In short, all you’ll find on the Planning Commission website is press releases about meetings and photographs of smiling officials shaking hands.

You could try the website of the National Highway Authority next, whose chairman has been appearing before committees in the legislature to explain the route. You would search this site in vain too trying to find out anything about the CPEC.

There’s a tab titled “Projects”, and two links under it, one titled “progress report” and the other titled “project details”. The first link opens up a page with two additional links, which if you click on them bring you back to the first page. The second link, titled “project details”, opens up a list of 100 projects of various types — roads, bridges, interchanges — many of them begun in the early 1990s and concluded more than a decade ago. Nothing on the CPEC.

Another link shows you the tenders floated by the NHA, which consists of images of press ads for tenders and requests for proposals, but nothing identified as being part of the CPEC. There is a tender for work on the N70 highway that runs from Qila Saifullah in Balochistan to Multan. One wonders if this is in connection with the “original route” of the CPEC road network, but there is nothing to indicate.

Next you might turn to the twitter feed of the minister for planning, who tweets under the handle @betterpakistan. You’ll find plenty of detail about all the people the minister has been meeting recently, and even a few tweets about the CPEC on Feb 6 and 10.

In one, he exhorts “vested interests should not come in the way” of the corridor project. In another, we are told that “Gwadar will be linked thru several routes incl Quetta and Ratto Dhero”. Nowhere do we find a map of the routes, any information to substantiate the government’s claim that there is no route change, and that work is being carried out on both routes.

Given the scale of the controversy, you would think the government would have made more of effort to release information that substantiates their claim that the whole controversy is about nothing, that no route changes have been effected, that the two stipulated routes are both being worked.

Given the plethora of platforms through which they could release this information, it is puzzling that it hasn’t been done so thus far. In fact, in a press conference held by the minister for planning specifically to clarify the controversy, no maps were shown nor distributed, and no supporting documentation to establish that work on what they’re calling “the original route” were produced.

So don’t bother to search online if you want to know more about the CPEC. Just sit back and wait to see what happens, because an assurance from the government is all you have to work with.

Published in Dawn February 18th , 2015
 
. .

Country Latest Posts

Back
Top Bottom