darkinsky
BANNED
- Joined
- Oct 4, 2010
- Messages
- 10,754
- Reaction score
- -2
- Country
- Location
اگر ہم پاکستانی سیاست کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کے پاکستان میں آج تک جتنی بھی سیاسی جماعتیں تشکیل پائیں ہیں ان میں سے اکثر کی تشکیل میں مندرجہ زیل عوامل کارفرما رہے ہیں.
١... اسٹبلشمینٹ کی آشیرواد
٢... پاکستان کی مخصوص سیاسی اشرافیہ
٣... سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کی انتخابی سیاست پر برادری، قبائل اور خاندانی تسلط
پاکستان مسلم لیگ کے الف بے جیم دال ....ے تک کے گروپس ہوں، یا پھر پیپلز پارٹی کے مختلف دھڑے ، یا تبدیلی کے نعرے والی جماعت تحریک انصاف کی تشکیل ان سب میں مندرجہ بالا عوامل ایک کلّی حیثیت رکھتے ہیں کیونکے ان جماعتوں کی تشکیل میں ایک عامل ہمیشہ کامن رہا ہے وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد جس کی وجہ سے ان جماعتوں کی کارکردگی میں ہمیشہ اتارچڑھاؤ کی کیفیت دیکھنے میں نظر آتی ہے . کبھی بھی ان جماعتوں کی انتخابی کارکردگی میں یکسانیت دیکھنے کو نہیں ملتی ان کی کارکردگی ہمیشہ اسٹبلیشمنٹ کے انجیریڈ الیکشن کی مرہوں منت رہی ہے. کیونکے ان جماعتوں کا آنا اسٹیبلشمنٹ کے ایک مخصوص ایجنڈے کےتحت ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ جماعت یا تحریک اپنے مخصوص دیے گئے ایجنڈا سے ہٹنے لگتی ہے تو اس میں ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کے آثار نظر آنے لگتے ہیں. جیسے کے آج کل ہم تحریک انصاف میں دیکھ رہے ہیں جیسے ہی اسٹبلشمنٹ نے سر سے ہاتھ اٹھایا تو فارورڈ بلاک سامنے آ گیا .
اس مخصوص سیاسی ماحول رکھنے والے ملک میں جہاں ہر بونے قد کا سیاسی لیڈر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیاسی جماعت تشکیل دیتا ہو اس ماحول میں نوجوانوں پر مشتمل سیاسی تحریک کا احیاء قاید تحریک جناب الطاف حسین کی قیادت میں ہونا جس کی تشکیل ایک ایسے انداز میں ہوئی ہو جس کی نظیر ملی تاریخ میں نہ ملتی ہو جس کی تشکیل اس ارادے کے تحت ہی ہوئی جس ارادے کے تحت مسلم لیگ کی تشکیل کی گی تھی کے مسلمانان ہند کے لئے ایک آزاد وطن کا حصول اور اسکے حصول کے بعد اسکی تعمیر و ترقی ، اختیار سب کے لئے سیاست کو نام نہاد سیاسی اشرفیہ کے چنگل سے نکال کر ایک عام آدمی کی دسترس میں لانا . ایسے لوگوں کو سیاست میں لانا جو کے سیاست براۓ خدمت پر یقین رکھتے ہوں. ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوے محترم جناب الطاف حسین صاحب نے ایک طلبہ تنظیم کو ١٩٨٤ میں سیاسی جماعت کا روپ دیا اور شبانہ روز محنت کرتے ہوے حق پرستی کی ایسی شمع روشن کی جس کی لو سے کراچی شہر کا ایک ایک گھر صرف ایک سال کے قلیل عرصۂ میں جگمگا اٹھا اس روشنی کو گھر گھر پوھنچانے میں جس طرح سے قائد تحریک نے اپنا دن و رات ایک کیا اس کے ثمرات ١٩٨٥ کے بلدیاتی انتخابات میں نظر آنے شروع ہوے اور یہیں سے اسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی مخصوص سیاسی اشرافیہ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجنی شروع ہو گئی اور پھر اسکے بعد ١٩٨٨ ، ١٩٩٠ کے اقومی و صوبائی انتخابات میں فقید المثال کامیابیوں نے مخالفین کی نیندیں اڑا دیں اور سازشوں کے تانے بانے بنے جانے لگے جبر دھونس دھمکی سے لیکر جان لیوا حملے غرض ہر طرح کا حربہ ایک ذات پر آزمایا گیا کے الطاف حسین کسی بھی طرح سے اپنے پیغام کو عام کرنے سے باز آ جائیں لیکن ہر حربے میں ناکامی کے بعد اسٹبلشمنٹ اور اسکی پالتو جماعتوں اور انکے گرگوں نے پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریے صیہونی طرز پر الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف اس حد تک زہریلا پروپیگنڈا کرا جس کے بارے میں انگریزی لفظ برین ہیمرنگ کی اصطلاح استمعال کی جاتی ہے ایک کہاوت ہے کے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے آہستہ آہستہ اس جھوٹے پروپیگنڈا کا زہر ٹوٹ رہا ہےقائد تحریک الطاف حسین کا تحریکی کارکنوں کو دیا جانے والا صبر کا درس اس زہر کے خلاف تریاق کا کام کر رہا ہے اور دھیرے دھیرے متحدہ قومی موومنٹ اور قائد کا پیغام ملک کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب حق پرستی کی یہ شمع پاکستان کے ایک ایک گھر کو منور کرے گی. اور عنقریب پوری دنیا دیکھے گی کے ایک عام انسان بھی سیاست میں حصہ لے سکتا ہے. اور اس نام نہاد سیاسی اشرفیہ کےلئے تخلیق کے گیے نظام میں شگاف ڈال سکتا ہے،
آخر میں پاکستان کی عوام سے درخواست کروں گا کے وہ متحدہ قومی موومنٹ کے پیغام کو دیکھیں پڑھیں اور اس میں شامل ہونے سے پہلے خود سے تحقیق کریں نہ کے اس سیاسی مخالفین کے پروپگنڈے پر یقین کریں جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ باطل ثابت ہوتا جا رہا ہے .