Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
پاکستان: فحاشی کے5ء11 لاکھ صارف
ریبا شاہد
کراچی
حکومت نے ایسی سائٹس کو بلاک کرنے کی کوششیں کی ہیں جو فحش مواد پھیلانے کے زمرے میں آتی ہیں
سرکاری اعداد کے مطابق پاکستان میں انیس لاکھ افراد انٹرنیٹ باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کےموجودہ دور میں ذاتی کمپیوٹر یا ٹیلیفون لائن سے محروم افراد انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے ملک بھر میں موجود چھوٹے بڑے انٹرنیٹ کیفوں کا رخ کرتے ہیں۔
مگر کیا انٹرنیٹ کیفے محض انٹرنیٹ تک فوری اور سستی رسائی کا ذریعہ ہیں؟
کراچی کےایک چھوٹےسےانٹرنیٹ کیفے کی مدھم روشنی میں ایک چھوٹے سےخانے میں نصب کمپیوٹر پر، نصراللہ بیک وقت چیٹ اورکمپوٹر گیم کھیلتے ہوئے، انٹرنیٹ پر اپنی مصروفیات کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
’میں نے چار سال قبل انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا تھا اور اب روزانہ دوگھنٹے انٹرنیٹ کیفے میں گزارتا ہوں۔ میں شاعری، موسیقی اور اردو کی ویب سائٹس پر جاتا ہوں۔ان کے علاوہ میں نے(فحش پورنوگرافی کی ویب سائٹس بھی وزٹ کی ہیں- ان ویب سائٹ کی طرف مجھے شروع میں کچھ دوستوں نے متوجہ کیا تھا پھرمیں خود ان پر ایک دو سال تک جاتا رہا‘۔
نفسانی خواہش کو مورود الزام ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا ’اب بھی کبھی کبھار شیطان بہکا دیتا ہے تو ایسی ویب سائٹ کھول لیتا ہوں- کیا کریں کرنا پڑتا ہے۔۔۔نوجران ہوں‘۔
نصراللہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں اور کہتے ہیں ’میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق بیس سال سے زیادہ عمر کےجتنے بھی افراد انٹرنیٹ کیفے میں آتے ہیں، ان میں سے اسّی فیصد لوگ یہی کام کرتے ہیں یعنی فحش ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارے لیے یہ چیز نئی ہے اور تجسس پیدا کرتی ہے- جب کہ مغرب میں ایسا مواد اب عام دستیاب ہے‘۔
گزشتہ سال پاکستاں ٹیلی کمیونیکیش لمیٹیڈ (پی ٹی سی ایل نے پاکستان کے سائبر نظام کو فحش اور غیر اخلاقی ویب سائٹس سے پاک کرنے کے غرض سے ایسی ویب سائٹس کو اپنے انٹرنیٹ ایکسچینج پر بلاک کرنا شروع کیا تھا مگر اس مہم کے باوجود پاکستان کے سائبر نظام پر ایسی ویب سائٹس تک رسائی ممکن ہے۔
گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ انٹر نیٹ کیفوں کا رخ کرتے ہیں
عرفان گزشتہ چار سال سے کراچی میں ’بڈی سیٹیلایٹ‘ کے نام سے ایک انٹرنیٹ کیفے چلا رہے ہیں۔ کیفے میں آنے والے صارفین کا فحش ویب سائٹوں کی طرف رجحان کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’یہ تو حقیقت ہے کہ لوگ پورن یا فحش ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ ہم اسے روک یا کنٹرول نہیں کر سکتے۔ ایک مرتبہ ہم نے کوشش کی کیفے کے نیٹ ورک پرانٹرنیٹ فلٹر لگا کر ان فحش ویب سائٹس تک رسائی کو روکیں مگر ہمیں کچھ خاص کامیابی نہیں ہوئی- پتہ ہی نہیں چلتا تھا اور صارفین دوسری سائٹ کے ذریعے ان ویب سائٹس پر پہنچ جاتے تھے۔ بہتر یہی ہوگا کہ پی ٹی سی ایل ہی ان غیر اخلاقی اور فحش سائٹوں کو بلاک کرے تبھی یہ سب جگہ سے ختم ہوں گی۔ مگر وہ کہاں تک روکیں گے۔ انٹرنیٹ پر روزانہ سیکڑوں نئی پورن ویب سائٹس آجاتی ہیں‘۔
اسی انٹرنیٹ کیفے میں موجود جاوید، جو کیفے کے ایک چھوٹے سےخانے میں بیٹھ کر اپنی ای میل چیک کررہے تھے۔ انٹرنیٹ کیفوں کے بیشتر صارفین کی طرح جاوید کے گھر میں موجود کمپیوٹر پر بھی انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔
جاوید کے مطابق’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام لوگ فحش ویب سائٹوں یا پورنوگرافی کے لیے انٹرنیٹ کیفے جاتے ہیں۔ ہاں، جو بھی یہاں آئے گا وہ تھوڑا بہت اس نوعیت کی سائٹس کوضرور کھولے گا، کیونکہ جب کوئی سائبر کیفے میں انٹرنیٹ گھنٹے خریدےگا تو کام ختم کرنے کے بعد بچے ہوئے گھنٹوں کو کسی طرح پورا توکرے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف وہ انٹر نیٹ صارفین بھی تو ہیں جو تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کا استعمال جانتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایسے افراد کا انٹرنیٹ پر کیا کام ہو سکتا ہے؟ وہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھیں گے۔ مگر جن انٹرنیٹ کیفوں میں انٹرنیٹ کے علاوہ گیمز وغیرہ بھی موجود ہوں گے وہاں اس قسم کی براوزنگ کم ہوتی ہے‘۔
پی ٹی سی ایل کے ذرائع کے مطابق گذشتہ سال پاکستان کےکل انٹرنیٹ صارفین میں سے ساٹھ فیصد لوگ فحش ویب سائٹس پر جاتے تھے۔ آخر فحش ویب سائٹس کی طرف رجحان کی وجہ کیا ہے ؟
قدرے خوشحال گھروں میں اب بچوں کو بھی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور فحش سائٹس اتنے مختلف طریقوں سے سامنے آتی ہیں کہ ان پر کلک کیے بن رہنا مشکل ہوتا ہے
پاکستان میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی ایک کمپنی جیریز نیٹ کے مارکٹنگ منیجر معین خان کے خیال میں انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس پرآمد ورفت کے بڑھتے ہوئے تناسب کی وجوہات نوجوانوں اور بچّوں کو گھر اور اسکول میں جنسی معاملات کی تعلیم کا نہ دینا اور فحش ویب سائٹس کی مارکٹنگ یا مشتہر کرنے کے طریقے ہیں۔ پورن ویب سائٹس کو مشتہرکرنے کا عام طریقہ سپیم میلز یعنی ای میل اڈریس پر غیر مطلوبہ ای میلز کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ جن میں فحش تصاویر یا ان پورن سائٹس کو مفت آزمانے یا دیکھنے کی دعوت ہوتی ہے۔
معین خان کہتے ہیں'' اس بات سے کوئی فر*ق نہیں پڑھتا کہ کوئی شخص فحش یا پورن ویب سائٹس پر رجسٹر ہے یا نہیں۔ روزانہ ایسی ہزاروں سپیم میلز ای میل باکس میں بھیجی جاتی ہیں اور جب پچاس میں سے ایک انٹرنیٹ استعمال کنندہ جانےانجانے میں ان پر کلک کرے گا تو نتیجتاً پورن ویب سائٹس سامنے آئیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آج کل تیرہ، چودہ سال کے بچّے بھی ای میل اور چیٹ کر رہے ہوتے ہیں- جب بڑے جنسی تعلقات کے بارے میں انہیں نہیں بتائیں گے تو ظاہر سی بات ہے بچوں کے پاس کسی فحش ویب سائٹ لنک یا کوئی ایسی ای میل آئے گی تو ان میں اسے کھولنے کا تجسس ضرور پیدا ہو گا‘۔
سلمان احمد پاکستان کی ایک براڈ بينڈ کمپنی ملٹی نیٹ میں پروڈکٹ کوالٹی منیجر ہیں، وہ کہتےہیں:
’فحش ویب سائٹس کی طرف صرف پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کا ہی رجحان نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہے- مغربی ممالک میں تو باقاعدہ پورنوگرافی کی ایک صنعت موجود ہے اور اس نوعیت کی زیادہ تر ویب سائٹس وہیں سے شروع کی جاتی ہیں۔ ہمارے معا شرے ميں جنسی تعلقات کو شادی تک محدود رکھنے کی اجازت ہے اور عام طور پر مردوں اور عورتوں کے مابین تعلقات کو محدود رکھا جاتا ہے اور یوں جنسی تعلقات کے بارے میں کافی تجسس رہتا ہے اور لوگ پورنوگرافی یا جنسی مواد کی تلاش میں انٹرنیٹ کا رخ کریں گے‘۔
دوسری جانب ایک ماہر نفسیات روبینہ فیروز کہتی ہیں:
’محض معاشرتی پابندیوں کو پاکستان میں فحش ویب سائٹس کی طرف متوجہ ہونے کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جنسی جذ بات یا جنسی خواہشات کاہونا ایک قدرتی بات ہے۔ انٹرنیٹ پر پورنوگرافی یا فحش ویب سائٹس کی معاشرتی پابندیاں
محض معاشرتی پابندیوں کو پاکستان میں فحش ویب سائٹس کی طرف متوجہ ہونے کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا
روبینہ فیروز
طرف رجحان کی ایک وجہ ایسے مواد کی آسانی سے دستیابی بھی ہے- انٹرنیٹ سے پہلے لوگ فحش رسائل اور فلموں پر پیسہ خرچ کرتےتھے اور اب یہ مواد انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہے۔ جب جسمانی یا جنسی خواہشات کی تسکیں نہ ہو تو متبادل تلاش کيے جاتے ہیں۔ ان متبادل کے لیے کوئی کس حد تک جا سکتا ہے، اس کا تعین معاشرتی قدریں کرتی ہیں‘۔
ریبا شاہد
کراچی
حکومت نے ایسی سائٹس کو بلاک کرنے کی کوششیں کی ہیں جو فحش مواد پھیلانے کے زمرے میں آتی ہیں
سرکاری اعداد کے مطابق پاکستان میں انیس لاکھ افراد انٹرنیٹ باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کےموجودہ دور میں ذاتی کمپیوٹر یا ٹیلیفون لائن سے محروم افراد انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے ملک بھر میں موجود چھوٹے بڑے انٹرنیٹ کیفوں کا رخ کرتے ہیں۔
مگر کیا انٹرنیٹ کیفے محض انٹرنیٹ تک فوری اور سستی رسائی کا ذریعہ ہیں؟
کراچی کےایک چھوٹےسےانٹرنیٹ کیفے کی مدھم روشنی میں ایک چھوٹے سےخانے میں نصب کمپیوٹر پر، نصراللہ بیک وقت چیٹ اورکمپوٹر گیم کھیلتے ہوئے، انٹرنیٹ پر اپنی مصروفیات کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
’میں نے چار سال قبل انٹرنیٹ کا استعمال شروع کیا تھا اور اب روزانہ دوگھنٹے انٹرنیٹ کیفے میں گزارتا ہوں۔ میں شاعری، موسیقی اور اردو کی ویب سائٹس پر جاتا ہوں۔ان کے علاوہ میں نے(فحش پورنوگرافی کی ویب سائٹس بھی وزٹ کی ہیں- ان ویب سائٹ کی طرف مجھے شروع میں کچھ دوستوں نے متوجہ کیا تھا پھرمیں خود ان پر ایک دو سال تک جاتا رہا‘۔
نفسانی خواہش کو مورود الزام ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا ’اب بھی کبھی کبھار شیطان بہکا دیتا ہے تو ایسی ویب سائٹ کھول لیتا ہوں- کیا کریں کرنا پڑتا ہے۔۔۔نوجران ہوں‘۔
نصراللہ کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں اور کہتے ہیں ’میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق بیس سال سے زیادہ عمر کےجتنے بھی افراد انٹرنیٹ کیفے میں آتے ہیں، ان میں سے اسّی فیصد لوگ یہی کام کرتے ہیں یعنی فحش ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارے لیے یہ چیز نئی ہے اور تجسس پیدا کرتی ہے- جب کہ مغرب میں ایسا مواد اب عام دستیاب ہے‘۔
گزشتہ سال پاکستاں ٹیلی کمیونیکیش لمیٹیڈ (پی ٹی سی ایل نے پاکستان کے سائبر نظام کو فحش اور غیر اخلاقی ویب سائٹس سے پاک کرنے کے غرض سے ایسی ویب سائٹس کو اپنے انٹرنیٹ ایکسچینج پر بلاک کرنا شروع کیا تھا مگر اس مہم کے باوجود پاکستان کے سائبر نظام پر ایسی ویب سائٹس تک رسائی ممکن ہے۔
گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ انٹر نیٹ کیفوں کا رخ کرتے ہیں
عرفان گزشتہ چار سال سے کراچی میں ’بڈی سیٹیلایٹ‘ کے نام سے ایک انٹرنیٹ کیفے چلا رہے ہیں۔ کیفے میں آنے والے صارفین کا فحش ویب سائٹوں کی طرف رجحان کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’یہ تو حقیقت ہے کہ لوگ پورن یا فحش ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ ہم اسے روک یا کنٹرول نہیں کر سکتے۔ ایک مرتبہ ہم نے کوشش کی کیفے کے نیٹ ورک پرانٹرنیٹ فلٹر لگا کر ان فحش ویب سائٹس تک رسائی کو روکیں مگر ہمیں کچھ خاص کامیابی نہیں ہوئی- پتہ ہی نہیں چلتا تھا اور صارفین دوسری سائٹ کے ذریعے ان ویب سائٹس پر پہنچ جاتے تھے۔ بہتر یہی ہوگا کہ پی ٹی سی ایل ہی ان غیر اخلاقی اور فحش سائٹوں کو بلاک کرے تبھی یہ سب جگہ سے ختم ہوں گی۔ مگر وہ کہاں تک روکیں گے۔ انٹرنیٹ پر روزانہ سیکڑوں نئی پورن ویب سائٹس آجاتی ہیں‘۔
اسی انٹرنیٹ کیفے میں موجود جاوید، جو کیفے کے ایک چھوٹے سےخانے میں بیٹھ کر اپنی ای میل چیک کررہے تھے۔ انٹرنیٹ کیفوں کے بیشتر صارفین کی طرح جاوید کے گھر میں موجود کمپیوٹر پر بھی انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔
جاوید کے مطابق’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام لوگ فحش ویب سائٹوں یا پورنوگرافی کے لیے انٹرنیٹ کیفے جاتے ہیں۔ ہاں، جو بھی یہاں آئے گا وہ تھوڑا بہت اس نوعیت کی سائٹس کوضرور کھولے گا، کیونکہ جب کوئی سائبر کیفے میں انٹرنیٹ گھنٹے خریدےگا تو کام ختم کرنے کے بعد بچے ہوئے گھنٹوں کو کسی طرح پورا توکرے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف وہ انٹر نیٹ صارفین بھی تو ہیں جو تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کا استعمال جانتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایسے افراد کا انٹرنیٹ پر کیا کام ہو سکتا ہے؟ وہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھیں گے۔ مگر جن انٹرنیٹ کیفوں میں انٹرنیٹ کے علاوہ گیمز وغیرہ بھی موجود ہوں گے وہاں اس قسم کی براوزنگ کم ہوتی ہے‘۔
پی ٹی سی ایل کے ذرائع کے مطابق گذشتہ سال پاکستان کےکل انٹرنیٹ صارفین میں سے ساٹھ فیصد لوگ فحش ویب سائٹس پر جاتے تھے۔ آخر فحش ویب سائٹس کی طرف رجحان کی وجہ کیا ہے ؟
قدرے خوشحال گھروں میں اب بچوں کو بھی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور فحش سائٹس اتنے مختلف طریقوں سے سامنے آتی ہیں کہ ان پر کلک کیے بن رہنا مشکل ہوتا ہے
پاکستان میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی ایک کمپنی جیریز نیٹ کے مارکٹنگ منیجر معین خان کے خیال میں انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس پرآمد ورفت کے بڑھتے ہوئے تناسب کی وجوہات نوجوانوں اور بچّوں کو گھر اور اسکول میں جنسی معاملات کی تعلیم کا نہ دینا اور فحش ویب سائٹس کی مارکٹنگ یا مشتہر کرنے کے طریقے ہیں۔ پورن ویب سائٹس کو مشتہرکرنے کا عام طریقہ سپیم میلز یعنی ای میل اڈریس پر غیر مطلوبہ ای میلز کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ جن میں فحش تصاویر یا ان پورن سائٹس کو مفت آزمانے یا دیکھنے کی دعوت ہوتی ہے۔
معین خان کہتے ہیں'' اس بات سے کوئی فر*ق نہیں پڑھتا کہ کوئی شخص فحش یا پورن ویب سائٹس پر رجسٹر ہے یا نہیں۔ روزانہ ایسی ہزاروں سپیم میلز ای میل باکس میں بھیجی جاتی ہیں اور جب پچاس میں سے ایک انٹرنیٹ استعمال کنندہ جانےانجانے میں ان پر کلک کرے گا تو نتیجتاً پورن ویب سائٹس سامنے آئیں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آج کل تیرہ، چودہ سال کے بچّے بھی ای میل اور چیٹ کر رہے ہوتے ہیں- جب بڑے جنسی تعلقات کے بارے میں انہیں نہیں بتائیں گے تو ظاہر سی بات ہے بچوں کے پاس کسی فحش ویب سائٹ لنک یا کوئی ایسی ای میل آئے گی تو ان میں اسے کھولنے کا تجسس ضرور پیدا ہو گا‘۔
سلمان احمد پاکستان کی ایک براڈ بينڈ کمپنی ملٹی نیٹ میں پروڈکٹ کوالٹی منیجر ہیں، وہ کہتےہیں:
’فحش ویب سائٹس کی طرف صرف پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کا ہی رجحان نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہے- مغربی ممالک میں تو باقاعدہ پورنوگرافی کی ایک صنعت موجود ہے اور اس نوعیت کی زیادہ تر ویب سائٹس وہیں سے شروع کی جاتی ہیں۔ ہمارے معا شرے ميں جنسی تعلقات کو شادی تک محدود رکھنے کی اجازت ہے اور عام طور پر مردوں اور عورتوں کے مابین تعلقات کو محدود رکھا جاتا ہے اور یوں جنسی تعلقات کے بارے میں کافی تجسس رہتا ہے اور لوگ پورنوگرافی یا جنسی مواد کی تلاش میں انٹرنیٹ کا رخ کریں گے‘۔
دوسری جانب ایک ماہر نفسیات روبینہ فیروز کہتی ہیں:
’محض معاشرتی پابندیوں کو پاکستان میں فحش ویب سائٹس کی طرف متوجہ ہونے کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جنسی جذ بات یا جنسی خواہشات کاہونا ایک قدرتی بات ہے۔ انٹرنیٹ پر پورنوگرافی یا فحش ویب سائٹس کی معاشرتی پابندیاں
محض معاشرتی پابندیوں کو پاکستان میں فحش ویب سائٹس کی طرف متوجہ ہونے کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا
روبینہ فیروز
طرف رجحان کی ایک وجہ ایسے مواد کی آسانی سے دستیابی بھی ہے- انٹرنیٹ سے پہلے لوگ فحش رسائل اور فلموں پر پیسہ خرچ کرتےتھے اور اب یہ مواد انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہے۔ جب جسمانی یا جنسی خواہشات کی تسکیں نہ ہو تو متبادل تلاش کيے جاتے ہیں۔ ان متبادل کے لیے کوئی کس حد تک جا سکتا ہے، اس کا تعین معاشرتی قدریں کرتی ہیں‘۔
Last edited by a moderator: