Maarkhoor
ELITE MEMBER
- Joined
- Aug 24, 2015
- Messages
- 17,051
- Reaction score
- 36
- Country
- Location
پاکستان کے مشہور زمانہ لیگ سپنر عبدالقادر انتقال کر گئے
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق لیگ سپنر عبدالقادر جمعے کو لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ہیں۔
ان کی عمر 63 سال تھی۔ ان کے خاندانی ذرائع نے ان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔
عبدالقادر کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد کبھی بھی دل کے عارضے میں مبتلا نہیں رہے۔
عبدالقادر کا شمار پاکستان ہی نہیں دنیا کے چند بہترین لیگ سپنرز میں ہوتا تھا۔ آسٹریلوی شہرہ آفاق لیگ اسپنر شین وارن بھی عبدالقادر کے زبردست مداح تھے اور 1994 میں پاکستان کے دورے میں انھوں نے عبدالقادر کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی تھی اور ان سے لیگ سپن کے گُر سیکھے تھے۔
عبدالقادر نے 67 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 236 وکٹیں حاصل کیں۔
کپتان عمران خان کو عبدالقادر پر ہمیشہ اعتماد رہا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے انھیں ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی موقع دیا۔ عبدالقادر نے بھی انھیں مایوس نہیں کیا اور 104 ون ڈے میچوں میں وہ 132 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انھوں نے 1983 اور 1987 کے عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
عبدالقادر کے دو بیٹے سلمان قادر اور عثمان قادر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ہیں۔
’سچ بات کہنے کے لیے مشہور‘
سابق لیگ سپنر اقبال قاسم کا عبدالقادر سے تعلق چار عشروں پر محیط رہا ہے۔
اقبال قاسم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم دونوں اگرچہ پہلے سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے تھے لیکن صحیح معنوں میں یہ تعلق 1978 میں انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے دوران قائم ہوا جو عبدالقادر کی پہلی ٹیسٹ سیریز تھی۔ یہ تعلق بعد میں دوستی میں تبدیل ہوگیا اور ہم دونوں نے ایک ساتھ کئی دورے کیے۔‘
تصویر کے کاپی رائٹARIF ALI
Image captionمئی 2012 کی اس تصویر میں عبدالقادر جنوبی افریقہ کے پاکستانی نژاد لیگ سپنر عمران طاہر کو گُر سکھا رہے ہیں
اقبال قاسم کا کہنا ہے کہ عبدالقادر کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جو ان کے دل میں ہوتا تھا وہ بے دھڑک کہہ دیا کرتے تھے اور کرکٹ بورڈ کے کسی بھی بڑے سے بڑے آفیشل کے سامنے سچ بات کہنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ ’
درحقیقت وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن سے کرکٹ بورڈ کو یہ خوف رہتا تھا کہ کسی بھی غلط اقدام کی اگر کوئی کھل کر تنقید کرسکتا ہے تو وہ عبدالقادر ہی ہیں۔‘
اقبال قاسم کا کہنا ہے کہ عبدالقادر نے رائٹ آرم لیگ سپن کے دم توڑتے فن کو دوبارہ زندہ کردیا۔ ’میں نے انھیں بہت کم لیگ سپن کرتے دیکھا، وہ حریف بیٹسمینوں کو اپنی گگلی اور فلیپر سے چکمہ دیا کرتے تھے۔‘
’عبدالقادر نے لیگ سپن کو آرٹ کا درجہ دیا‘
عبدالقادر کو اپنی لیگ سپن پر بہت فخر تھا اور وہ بہت جوشیلے انداز میں سب کو یہ بتایا کرتے تھے کہ وہ کیسے اپنے ایک ہی اوور میں چھ مختلف انداز کی گیندیں کراتے تھے، مطلب ان کی بولنگ میں کتنی ورائٹی تھی۔
عبدالقادر نے رائٹ آرم لیگ سپن کو ایک فن کا درجہ دے دیا تھا جو ستر کے عشرے میں معدوم ہوچکی تھی۔ وہ لیگ سپن میں ایک ایسی جارحیت لے آئے تھے جو بیٹسمینوں کو حواس باختگی پر مجبور کردیتی تھی۔
ان سے قبل کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ کسی سپنر نے بیٹسمین کے قریب فیلڈرز کا جال بچھا کر اسے آؤٹ کیا ہو لیکن عبدالقادر اپنے کپتان سے کہہ کر اٹیکنگ فیلڈ سیٹ کیا کرتے تھے اور اسی دباؤ اور اپنی بولنگ کے جادو سے بیٹسمینوں کو آؤٹ کرتے تھے۔
عبدالقادر کا بولنگ ایکشن بھی دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا تھا۔
ان کی بولنگ پر دنیا کے تمام ہی بڑے تجزیہ کاروں اور بڑے بڑے کرکٹرز نے تجزیے اور تبصرے کیے اور انھیں جدید کرکٹ کا بہترین لیگ سپنر قرار دیا۔
انگلینڈ کے سابق اوپنر گراہم گوچ کے خیال میں عبدالقادر آسٹریلیا کے شین وارن سے زیادہ خطرناک بولر تھے۔
عبدالقادر کو انگلینڈ کی متعدد کاؤنٹی ٹیموں نے کھیلنے کی پیشکش کی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر کوئی بھی پیشکش قبول نہیں کیا کہ وہ اپنا فن فروخت کرنا نہیں چاہتے۔
سابق کرکٹرز کا خراج تحسین
پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز فاسٹ بولر وسیم اکرم نے عبدالقادر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ' انھیں بہت سی وجوہات کے باعث جادوگر کہا جاتا تھا، لیکن جب انھوں نے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا کہ میں اگلے 20 برس کے لیے پاکستان کے لیے کھیلوں گا تو میں نے ان کا یقین کر لیا۔ وہ اصل میں ایک جادوگر تھے۔ اپنے دور کے لیگ سپنر اور موجد۔ عبدالقادر آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔'
تصویر کے کاپی رائٹس @wasimakramlive@WASIMAKRAMLIVE
اسی طرح راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے ان کی وفات پر افسوس کرتے ہوئے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام کے ساتھ ساتھ ٹویٹ کیا کہ 'مایہ ناز لیگ سپنر عبدالقادر کی وفات کی افسوسناک خبر ابھی ملی ہے۔ کرکٹ میں لیگ سپن کی بحالی کا تمام تر سہرا ان کو جاتا ہے۔ انھوں نے بولرز کی ایک نسل کو لیگ سپن بولرز بننے کے لیے متاثر کیا ہے۔'
تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@SHOAIB100MPH
پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ عبدالقادر اب نہیں رہے۔ ایک عظیم لیگ سپنر اور نہایت اچھے انسان تھے۔ وہ ہمیشہ توانائی اور زندگی سے بھرپور تھے۔ میں ان کے چہرے کی مسکراہٹ کبھی نہیں بھولوں گا۔ ان کے خاندان اور ہمارے لیے بہت دکھ کا دن ہے۔ اللہ انھیں جنت میں اعلیٰ مقام دے۔'
تصویر کے کاپی رائٹس @captainmisbahpk@CAPTAINMISBAHPK
عبدالقادر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بہترین انفرادی بولنگ کے ریکارڈ کے مالک ہیں۔ نومبر 1987 میں انھوں نے انگلینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ کی ایک اننگز میں صرف 56 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
عبدالقادرنے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ سے اپنا تعلق نہیں توڑا۔ وہ قومی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ ویٹرنز کرکٹ بھی کھیلی اور لاہور میں نوجوانوں کے لیے اپنی ذاتی کرکٹ اکیڈمی بھی قائم کی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق لیگ سپنر عبدالقادر جمعے کو لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے ہیں۔
ان کی عمر 63 سال تھی۔ ان کے خاندانی ذرائع نے ان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔
عبدالقادر کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد کبھی بھی دل کے عارضے میں مبتلا نہیں رہے۔
عبدالقادر کا شمار پاکستان ہی نہیں دنیا کے چند بہترین لیگ سپنرز میں ہوتا تھا۔ آسٹریلوی شہرہ آفاق لیگ اسپنر شین وارن بھی عبدالقادر کے زبردست مداح تھے اور 1994 میں پاکستان کے دورے میں انھوں نے عبدالقادر کے گھر جاکر ان سے ملاقات کی تھی اور ان سے لیگ سپن کے گُر سیکھے تھے۔
عبدالقادر نے 67 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 236 وکٹیں حاصل کیں۔
کپتان عمران خان کو عبدالقادر پر ہمیشہ اعتماد رہا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے انھیں ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی موقع دیا۔ عبدالقادر نے بھی انھیں مایوس نہیں کیا اور 104 ون ڈے میچوں میں وہ 132 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انھوں نے 1983 اور 1987 کے عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
عبدالقادر کے دو بیٹے سلمان قادر اور عثمان قادر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ہیں۔
’سچ بات کہنے کے لیے مشہور‘
سابق لیگ سپنر اقبال قاسم کا عبدالقادر سے تعلق چار عشروں پر محیط رہا ہے۔
اقبال قاسم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم دونوں اگرچہ پہلے سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے تھے لیکن صحیح معنوں میں یہ تعلق 1978 میں انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے دوران قائم ہوا جو عبدالقادر کی پہلی ٹیسٹ سیریز تھی۔ یہ تعلق بعد میں دوستی میں تبدیل ہوگیا اور ہم دونوں نے ایک ساتھ کئی دورے کیے۔‘
Image captionمئی 2012 کی اس تصویر میں عبدالقادر جنوبی افریقہ کے پاکستانی نژاد لیگ سپنر عمران طاہر کو گُر سکھا رہے ہیں
اقبال قاسم کا کہنا ہے کہ عبدالقادر کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جو ان کے دل میں ہوتا تھا وہ بے دھڑک کہہ دیا کرتے تھے اور کرکٹ بورڈ کے کسی بھی بڑے سے بڑے آفیشل کے سامنے سچ بات کہنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ ’
درحقیقت وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن سے کرکٹ بورڈ کو یہ خوف رہتا تھا کہ کسی بھی غلط اقدام کی اگر کوئی کھل کر تنقید کرسکتا ہے تو وہ عبدالقادر ہی ہیں۔‘
اقبال قاسم کا کہنا ہے کہ عبدالقادر نے رائٹ آرم لیگ سپن کے دم توڑتے فن کو دوبارہ زندہ کردیا۔ ’میں نے انھیں بہت کم لیگ سپن کرتے دیکھا، وہ حریف بیٹسمینوں کو اپنی گگلی اور فلیپر سے چکمہ دیا کرتے تھے۔‘
’عبدالقادر نے لیگ سپن کو آرٹ کا درجہ دیا‘
عبدالقادر کو اپنی لیگ سپن پر بہت فخر تھا اور وہ بہت جوشیلے انداز میں سب کو یہ بتایا کرتے تھے کہ وہ کیسے اپنے ایک ہی اوور میں چھ مختلف انداز کی گیندیں کراتے تھے، مطلب ان کی بولنگ میں کتنی ورائٹی تھی۔
عبدالقادر نے رائٹ آرم لیگ سپن کو ایک فن کا درجہ دے دیا تھا جو ستر کے عشرے میں معدوم ہوچکی تھی۔ وہ لیگ سپن میں ایک ایسی جارحیت لے آئے تھے جو بیٹسمینوں کو حواس باختگی پر مجبور کردیتی تھی۔
ان سے قبل کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ کسی سپنر نے بیٹسمین کے قریب فیلڈرز کا جال بچھا کر اسے آؤٹ کیا ہو لیکن عبدالقادر اپنے کپتان سے کہہ کر اٹیکنگ فیلڈ سیٹ کیا کرتے تھے اور اسی دباؤ اور اپنی بولنگ کے جادو سے بیٹسمینوں کو آؤٹ کرتے تھے۔
عبدالقادر کا بولنگ ایکشن بھی دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا تھا۔
ان کی بولنگ پر دنیا کے تمام ہی بڑے تجزیہ کاروں اور بڑے بڑے کرکٹرز نے تجزیے اور تبصرے کیے اور انھیں جدید کرکٹ کا بہترین لیگ سپنر قرار دیا۔
انگلینڈ کے سابق اوپنر گراہم گوچ کے خیال میں عبدالقادر آسٹریلیا کے شین وارن سے زیادہ خطرناک بولر تھے۔
عبدالقادر کو انگلینڈ کی متعدد کاؤنٹی ٹیموں نے کھیلنے کی پیشکش کی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر کوئی بھی پیشکش قبول نہیں کیا کہ وہ اپنا فن فروخت کرنا نہیں چاہتے۔
سابق کرکٹرز کا خراج تحسین
پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز فاسٹ بولر وسیم اکرم نے عبدالقادر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ' انھیں بہت سی وجوہات کے باعث جادوگر کہا جاتا تھا، لیکن جب انھوں نے میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا کہ میں اگلے 20 برس کے لیے پاکستان کے لیے کھیلوں گا تو میں نے ان کا یقین کر لیا۔ وہ اصل میں ایک جادوگر تھے۔ اپنے دور کے لیگ سپنر اور موجد۔ عبدالقادر آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔'
تصویر کے کاپی رائٹس @wasimakramlive@WASIMAKRAMLIVE
اسی طرح راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے ان کی وفات پر افسوس کرتے ہوئے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پیغام کے ساتھ ساتھ ٹویٹ کیا کہ 'مایہ ناز لیگ سپنر عبدالقادر کی وفات کی افسوسناک خبر ابھی ملی ہے۔ کرکٹ میں لیگ سپن کی بحالی کا تمام تر سہرا ان کو جاتا ہے۔ انھوں نے بولرز کی ایک نسل کو لیگ سپن بولرز بننے کے لیے متاثر کیا ہے۔'
پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ عبدالقادر اب نہیں رہے۔ ایک عظیم لیگ سپنر اور نہایت اچھے انسان تھے۔ وہ ہمیشہ توانائی اور زندگی سے بھرپور تھے۔ میں ان کے چہرے کی مسکراہٹ کبھی نہیں بھولوں گا۔ ان کے خاندان اور ہمارے لیے بہت دکھ کا دن ہے۔ اللہ انھیں جنت میں اعلیٰ مقام دے۔'
تصویر کے کاپی رائٹس @captainmisbahpk@CAPTAINMISBAHPK
عبدالقادر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بہترین انفرادی بولنگ کے ریکارڈ کے مالک ہیں۔ نومبر 1987 میں انھوں نے انگلینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ کی ایک اننگز میں صرف 56 رنز دے کر 9 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
عبدالقادرنے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ سے اپنا تعلق نہیں توڑا۔ وہ قومی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ ویٹرنز کرکٹ بھی کھیلی اور لاہور میں نوجوانوں کے لیے اپنی ذاتی کرکٹ اکیڈمی بھی قائم کی۔