آزادی مارچ: کنٹینر کھڑے کرنے سے صنعت و تجارت متاثر
کنٹینروں کو قبضے میں لیے جانے کی وجہ سے خام مال کی آمد اور تیار مال کی ایکسپورٹ میں تاخیر ہو رہی ہے: مینو فیچکرز اینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں حکومت نے کنٹینروں کی صورت میں آہنی دیواریں کھڑی کردی ہیں تاکہ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت اسلام آباد کی جانب گامزن مارچ کے شرکا کو مخصوص علاقوں تک محدود کیا جا سکے۔
یہ آہنی دیواریں وہ کنٹینرز ہیں جو ٹرانسپورٹروں سے مبینہ طور پر جبراً لیے گئے ہیں۔
سپریم کونسل آف آل پاکستان ٹرانسپورٹرز کے چیئرمین کیپٹن ریٹائرڈ آصف محمود نے الزام عائد کیا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں اشیاء ٹرانسپورٹ جزوی طور پر معطل ہے جس کی وجہ کنٹینروں کی ضبطگی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پہلی بار نہیں ہوا لیکن اس بار اس کی شدت کچھ زیادہ ہے۔ بڑی تعداد میں گاڑیاں روکی ہوئی ہیں کیونکہ پہلے جو دھرنے ہوتے تھے وہ اسلام آباد یا کسی ایک شہر تک محدود تھے اب چونکہ یہ پورے پاکستان سے بذریعہ سڑک جا رہے ہیں تو جہاں جہاں رکاوٹیں کھڑی کرنی تھیں وہاں وہاں کنٹینر لگا دیے گئے ہیں۔‘
پاکستان میں اس وقت تین بندرگاہیں موجود ہیں جن میں کراچی کی دونوں بندرگاہیں کے پی ٹی اور پورٹ قاسم فعال ہیں جہاں سے درآمدات اور برآمدات ہوتی ہیں۔
درآمدی اشیا سمیت دیگر سامان کی اندرون ملک ترسیل کنٹینروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ سامان فیصل آباد، لاہور، ملتان، راولپنڈی، سیالکوٹ اور واہگہ بارڈر پر قائم خشک گودیوں یا ڈرائی پورٹس میں بھی منتقل ہوتا ہے۔
سپریم کونسل آف آل پاکستان ٹرانسپورٹرز کا دعویٰ ہے کہ 8 سے 10 ہزار گاڑیاں قبضے میں ہیں جن پر لدے ہوئے کنٹینروں میں خام مال اور ادویات ہیں، جبکہ کنٹینر ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا ان کنٹینروں کی تعداد 3000 بتاتی ہے۔
متحدہ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اسرار شنواری کا کہنا ہے کہ کنٹینروں میں کیمیکلز بھی ہیں جو خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اس کے علاوہ ایسی اشیا بھی ہیں جن کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption حکومت ایسے کنٹینروں کو قبضے میں لیتی ہے جو سامان سے بھرے ہوئے تاکہ انھیں باآسانی ہٹایا نہ جا سکے
ان کنٹینروں کی منزل ملتان، لاہور، شیخوپورہ، فیصل آباد، گجرات، گجرانوالا، سیالکوٹ اور اسلام آباد تھی جہاں صنعتی علاقوں میں انھیں آف لوڈ اور لوڈ ہونا تھا۔
سپریم کونسل آف آل پاکستان ٹرانسپورٹرز کے چیئرمین کیپٹن ریٹائرڈ آصف محمود کا الزام ہے کہ بعض کنٹینروں میں سے لوٹ مار بھی کئی گئی ہے۔ ’اگر گاڑی سیدھے راستے سے اسلام آباد جائے گی تو پکڑی جائے گی لہذا کچھ ڈرائیوروں نے ترنڈہ کا روٹ اختیار کیا ہے، یہ تین سو کلومیٹر لمبی سڑک ہے جس پر چاندنی چوک، سرائے مہاجر وغیرہ آتے ہیں، انھوں نے شہر سے باہر ویرانوں میں گاڑیاں روکیں جہاں لوگوں نے ان سے لوٹ مار بھی کی ہے‘۔
سپریم کونسل آف آل پاکستان ٹرانسپورٹرز کے چیئرمین کیپٹن ریٹائرڈ آصف محمود کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکام سے رابطہ کیا تھا جن کا موقف ہے کہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
’ہم نے انھیں کہا تھا کہ آپ ہمیں پیشگی اطلاع دیا کریں۔ ہر شہر کی ایسوسی ایشن کو مطلوبہ تعداد بتا دیں اور ان سے چارجز طے کرلیں وہ آپ کو خالی کنٹینر دے دیں گے لیکن خالی کنٹینروں سے ان کا مقصد حل نہیں ہوتا کیونکہ اس کو تو چار آدمی اٹھا کر پھینک دیں گے۔ لوڈڈ کنٹینر جس میں 20 ٹن وزن ہوگا انھیں ہلانا جلانا یا دھکا لگانا مشکل ہوگا‘۔
آصف محمود کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹرز اور صنعت کار پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ مولانا یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ہم ان کنٹینروں کو ماچس کی ڈبیا کی طرح اٹھا کر پھینک دیں گے۔‘
کنٹینر شپنگ کمپنیوں کی ملکیت ہوتے ہیں جو سامان آف لوڈ کرنے کے لیے پانچ روز کا وقت دیتی ہیں جس کے بعد سو ڈالر یومیہ کرایہ چارج کیا جاتا ہے۔ امپورٹرز یا ٹرانسپورٹرز ان شپنگ کمپنیوں کے پاس ایڈوانس میں سکیورٹی ڈیپازٹ کراتے ہیں اور یہ کٹوتی اس میں سے کی جاتی ہے۔
سپریم کونسل آف آل پاکستان ٹرانسپورٹرز کے چیئرمین کیپٹن ریٹائرڈ آصف محمود کا کہنا ہے کہ ’جیسے گاڑیاں فارغ ہوتی ہیں ٹرانسپورٹر اپنی منزل کی طرف دوڑتے ہیں۔ اب کون چار پانچ ہزار کے لیے انتظامیہ کے دفاتر کے چکر لگائے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کو کرایہ بھی نہیں ملتا‘۔
پاکستان ٹیکسٹائل کی صنعت ایکسپورٹ میں سب سے آگے ہے، ہوزری مینو فیچکرز اینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن بھی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرچکی ہے۔ تنظیم کے نائب صدر شفیق بٹ کا کہنا ہے کہ خام مال کی آمد اور تیار مال کی ایکسپورٹ میں حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔
’ٹیکسٹائل صنعت کا ایک بڑا حصہ پنجاب کے صنعتی مراکز سے جاتا ہے۔ کنٹینر بڑی تعداد میں قبضے میں لینے کی وجہ سے ایکسپورٹ متاثر ہو رہی ہے۔‘
دوسری جانب کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی اسلام آباد کو جمعرات دس بجے طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نجی کاروباری کمپنی کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ ان کا ’چین سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد کا کاروبار ہے مگر پولیس والے کنٹینرز پکڑ رہے ہیں‘۔
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption اسلام آباد ہائی کورٹ جمعرات کے روز کنیٹنروں کو قبضے میں لینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرے گی
درخواست گزار کا موقف تھا کہ ’اس سے قبل گزشتہ حکومت میں احتجاج روکنے کے لیے کنٹینرز روک کر لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور موجود حکومت بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کنٹینرز کو غیر قانونی طور پر روکنے سے سبزیاں اور پھل گل سڑ جاتے ہیں اور لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے لہذا ذمہ داروں کا تعین کر کے انتظامیہ اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کے احکامات جاری کیے جائیں‘۔
درخواست میں وزارت داخلہ سمیت سندھ اور پنجاب کے محکمہ داخلہ اور پولیس آئی جیز کو فریق بنایا گیا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
دوسری جانب لاہور کے ڈپٹی کمشنر دانش افضل نے کنٹینروں کی پکڑ دہکڑ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا بھی کہنا ہے کہ یہ ان کا کام نہیں۔ اس بارے میں آئی جی اسلام آباد سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50222555