جستجو / حالاتِ حاضرہ
مشرف مخمصہ!
The Musharraf Paradox
محمد بن قاسم
غم سے مرتا ہوں، کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہرووفا میرے بعد
آئے ہے بے کسی ءعشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد؟
پیارے قارئین، سلام۔ امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے، اور خوش بھی ہوں گے کہ ایک طویل عرصہ سے ہماری تحریروں سے واسطہ نہیں پڑا، اور اس طرح آپ اپنا وقت اپنی تنقیدی صلاحیتوں میں ضائع کرنے کے بجائے کسی مفیدزمرہ میں خرچ کرتے رہے۔ تاہم ہمیں تو اب آپ کی یاد ستانے لگی تھی، چنانچہ آپ کو اب ہم پھر نوکیلی، کڑوی، کسیلی تنقیدوں کا موقع دینے آگئے ہیں۔ دراصل اتنے عرصہ سے کوئی بڑا سیاسی دھماکہ ہوا ہی نہیں ، جس سے متاءثر ہوکر ہم اپنے قلم، اور کمپیوٹر کی بورڈ کو بھی زحمت دیتے۔ مگر اب ہمارے موقع پرست سیاستدانوں نے آخر کار ہمیں اس نیند سے بیدار کر ہی دیا۔ اور پاکستانی صدر، جناب ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف صاحب، کی خدمت میں مواخذہ کا ڈراوا پیش کر دیا۔ یہ ڈراوا کچھ اسی طرح کا ہے، جو کھیتوں میں پرندوں کو ڈرانے کی خاطر کھڑا کردیا جاتاہے۔ تاہم، اس ڈراوے کی حیثیت ایک کھلونے کی بھی ہے، جس سے کچھ مخصوص سیاستدان خوش ہوکر اسے کسی گڑیا کی طرح گلے لگا کرکچھ دیر کے لیے رونا گانا بند کرکے ہنس مسکرا لیتے ہیں۔ ہم آپ کو یہ سب بتاکر تو بور کریں گے نہیں کہ اسمبلی (342) اور سینیٹ (100) کے کل 442 ممبران مل جل کر یہ مواخذہ، مواخذہ، کا کھیل کھل کرکھیلیں گے، جس میں ان کا ہدف سیاسی شکنجہ میں جکڑے جناب صدرِ محترم ہوں گے، اور ان میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو کہ جنابِ صدر کی ایک فاش غلطی، قومی مفاہمتی آرڈی ننس، کا جادوئی عبایہ اوڑھے ہوں گے، جس کی مدد سے ان کے تمام کرتوت نیب، پولیس، اور عدلیہ کی نظروں سے غائب، مگر عوام الناس کی یادداشتوں کے نہاں خانوں میں کسی آرائشی بجلی کی جھالر کی طرح جلتے بجھتے رہیں گے۔
صدر صاحب کے دوست اور دشمن، دونوںیہ نہیں چاہتے کہ وہ کسی عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہوں، اور وہاں وہ کچھ ایسی باتیں کریں، اپنے دفاع میں، جس سے ہمارے چیدہ، چیدہ سیاستدانوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے کھل کر آجائے۔ چنانچہ، وہ اس بات پر جوا کھیل رہے ہیں کہ جنابِ صدر خود ہی اپنی تنہائی کا احساس کرکے میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں۔ مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ہمارے صدر صاحب ایک بہادر شخص ہیں۔ انہوں نے ملک کی قیادت ایک ایسے وقت میں کی ہے جب کہ ہمارا ملک ہر طرف سے ہمارے دشمنوں کی سازشوں میں گھر چکا تھا، اور کوئی ہی لمحہ جاتا تھا کہ ستمبر 2001 کے بعد بھارت ، امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہم سے کھلے عام لڑنا جھگڑنا شروع کردیتا، یا بقول کسے، پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی۔ کم از کم، پاکستانی قوم کو 7 برس کا ایسا عرصہ میسر آیا، جس میں ایسے ہی خطرات کا مستقبل قریب میں مقابلہ کرنے کی تیاری کا وقت مل گیا۔ آج کی نوزائیدہ جمہوریت بھی جناب مشرف صاحب کی پروردہ ہے، اور یہ وقت سے پہلے پر،پُرزے نکالتی،جوان ہوتی نظر آرہی ہے۔ تاہم یہ ڈر ہے کہ یہ وقت سے پہلے جوانی کا جوش ، در حقیقت نادانی کا ابال نہ ثابت ہو۔
نہ جانے کیوں اس وقت ہمیں اپنے پڑوسی ملک میں بنی ایک دل چسپ فلم، گائیڈ، یاد آرہی ہے۔ یہ فلم 1965 میں بنی، اور اس میں سدا بہار ہیرو دیو آنند نے جو آج بھی 84ناٹ آﺅٹ ہیں، پرکشش معصوم چہرہ والی خوب صورت اداکارہ وحیدہ رحمان کے ساتھ ایک لازوال کردار ادا کیا تھا۔ آج تک بھارت میں بننے والی 25 بہترین فلموں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان قارئین، جو اس کے بارے میں نہیں جانتے، وہ سن لیں کہ یہ فلم آر کے نرائن کے ایک ناول پر بنائی گئی تھی، اور اس کا انگریزی ورژن مشہور امریکی ناول نگارخاتون پرل ایس بک (1973-1892) نے تحریر کیا، اور یہ پہلی بھارتی فلم تھی جو کہ ہالی وڈ میں Survival کے نام سے بنائی گئی۔ یہ امریکہ میں تو ناکام ہوئی، مگر بھارت میں اس نے کونہ، کونہ میں اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اب آپ یہ سوال کریں گے، کہ آخر اس فلم کا پاکستان کی اس موجودہ صورتِ حال سے کیا تعلّق بنتا ہے؟ پہلے تو ہم آپ سے یہ درخواست کریں گے، کہ، یہ فلم دیکھیں اور لطف اٹھائیں۔ پھر ہماری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ چلیں، ہم فرض کرلیتے ہیں کہ آپ اس فلم کے بارے میں اب کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ اس فلم میں ہمارا ہیرو، جو کہ خود بھی ایک عام شہری ہے، عوام کی فرمائشوں کی خاطر، ان کا دل رکھنے کو، ایک سوامی (آپ صوفی کہہ لیں کا روپ دھارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور ایک دن قحط سالی سے بچنے کے لیے وہ مرن برت رکھنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ یہاں تک کہ موسمی تغیرات کی بناءپر آخر کار بارش ہو ہی جاتی ہے، مگر اس مرحلہ پر تمام عوام اور مرید، بارش سے خوش ہوکر اسے عبادت گاہ(ایوانِ صدر!) میں اکیلا چھوڑ کر مزے اڑانے چلے جاتے ہیں، اور وہ بھوک و پیاس و تنہائی سے اپنی جاں، جان آفرین کے سپر د کردیتا ہے۔ اب آپ کسی حد تک سمجھ رہے ہیں، کہ ہمارے صدر صاحب بھی اب راجو گائیڈ سے راجو سوامی کے کردار کی جانب جاتے نظر آتے ہیں۔
شاید آپ کو یاد ہوگا کہ جب نومبر 2007 میں جناب صدر صاحب نے اپنی چھڑی جناب جنرل اشفاق کیانی صاحب کے حوالہ کرکے فوجی وردی اتار دی تھی، تو ہم نے آپ سے کیا کہا تھا! چونکہ آپ میں سے اکثر سادہ لوح افراد کی یادداشت ایسی نہیں کہ چند دن گزرے شائع ہونے والی ہماری تحریر آپ کو یاد رہے تو ہم آپ کو یاد دلادیتے ہیں۔ ہم نے آپ سے کہا تھا: "اب یہ سوال ہے کہ ہمارے جناب صدر پرویز مُشرّف صاحب فوج سے ریٹائر ہونے کے بعدملکی معاملات کو چلانے کے لیے کن طاقتوں پر انحصار کریں گے۔ جادوئی چھڑی تو اب ان کے پیش رو کے ہاتھوں میں جاچکی ہے، وہ نہتّے کھڑے ہیں۔ اور جناب صدر صاحب کی معاون پارلیمان بھی اب موجود نہیں رہی۔ دوسری جانب پارلیمان سے خارج ہونے والے ممبران، اور دیگر بھوت پریت بھی۔۔ اگر وہ اس جادوئی دنیا میں موجود تھے، اب آزاد پنچھیوں کی طرح دانہ دنکاکے لیے پھدُکتے پھر رہے ہیں۔ کبھی اِس ڈال پر، کبھی اُس ڈال پر۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ کس کے پاس مضبوط جال ہے، اور وہ کس کے دام میں آئیں گے۔ جہاں تک ہمارے پیارے جنابِ صدر صاحب کا تعلّق ہے تو ان کی کیفیت اِس وقت اُس مہم جو کوہِ پیما جیسی ہے جو ما ئونٹ ایورسٹ، اور کے ٹو مائونٹ گڈون جیسی اعلیٰ ترین اور خطرناک ترین برفانی چوٹیوں کو فتح کرنے کے بعد تنہا ہی کھڑاہو۔۔ اور اب اسے اپنے ان ساتھیوں اور معاونین کی تلاش ہو جو اس کا ساتھ بیس کیمپ پر ہی چھوڑ کرہمّت ہار بیٹھے ہوں۔ اب جب کہ نہ تو رسمی طور پر ان کا روایتی پلیٹ فارم فوجی کورکمانڈرز پاوں تلے رہا، اور نہ ہی مفاد پرست سیاستدانوں کی ٹولیاں رہیں، تو اب وہ اپنی فتوحات کے بعدایک اور منزل طے کرنے کے لیے ایک ایسے میدان میں داخل ہورہے ہیں ، جو زمینی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے، اور اس پر ہر قدم پھوُنک، پھوُنک کر رکھنا ہے۔ یہاں ایک تنہا کمانڈو کی صلاحیّتوں کا آخری اور اصلی امتحان ہے۔ کیا وہ لُٹیروں کو گرفتار کرسکے گا، کیا وہ ان کی بھری ہوئی جیبوں کو خالی کراکر عوام کو خوش حال کردے گا، کیا وہ ٹیڑھی نیتوں کو سیدھا کرادے گا؟؟"
اب صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ تمام تجزیہ نگار کچھ بھی کہتے رہیں، آپ تو سچ جانتے ہی ہیں۔ کوئی بھی شخص، حضرت آدم سے لے کر آج تک غلطیوں سے مبرّا نہیں۔ ساتھ، ساتھ، ہر کمزور ملک کی حکومت کو عالمی قوتوں کے عزائم کے سامنے یا تو سر جھکانا پڑتاہے، یا پھر ان کا حشر فلسطنیوں ، افغانیوں، اور عراقیوں جیسا ہوتاہے۔ صرف ایران ایک ایسا مسلم ملک ہے جس نے اپنی قومی یک جہتی کی بناءپر اپنے وقار اور عزم کو ڈھال بناکر عالمی فوجی قوتوں کو ناکوں چنے چبوادیے ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں وہ یک جہتی نہیں پائی جاتی۔ اور نہ ہی ہماری سیاسی لیڈرشپ دوربین اور ذکاوت کی حامل ہے۔ آج ہماری سیاسی پارٹیوںمیں شریف، شریک، اور شریر چیئرمین بھی پائے جارہے ہیں۔ تو اس وقت ملک میں صدر کے مواخذہ کا ڈول ڈالنا ایک شرارت ہے یا ایک سوچا سمجھا، جمہوریت کو عوامی طاقت کا انجیکشن لگانا ہے، یہ جلد ہی عیاں ہوجائے گا۔فی الوقت یہ ظاہر ہے کہ جس اعتماد، اور پرنخوت لہجہ میں ہمارے سیاستدان جناب صدرِ پاکستان کو للکار رہے ہیں، اس کے پیچھے صرف عوامی طاقت ہی نہیں، پردے کے پیچھے کچھ اور بھی ہے۔ جناب صدر کو اکتوبر 1999 میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے والا طاقت ور ادارہ آج ان کی پشت پناہی چھوڑکرکسی غیرجانب داری نہیں، بلکہ، ایک ایسی جانب داری کا مظاہرہ کررہا ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک نہیں دیکھی گئی۔ شاید پاکستانی فوج یہ سمجھتی ہے کہ اپنے سابق چیف کی یہ قربانی دے کر ان کے آج تک سیاسی مداخلتوں کے تمام گناہ دھل جائیں گے۔ دوسری جانب جناب صدرِ پاکستان اپنے اوپر عائد کردہ سیاسی و ذاتی انتقامی محرکات پر مبنی الزامات سے اتفاق نہیں کرتے، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ خاموشی سے ایوان صدارت خالی کردیں تو اس طرح وہ ان جھوٹے سچے غیر آئینی الزامات کو قبول کرلیں گے، اور انہیں تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ چنانچہ، پیارے دوستو، عزیز ہم وطنوں، یہ بہادر شخص مرن برت پر مجبور ہے۔ کیا کوئی انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے یہ برت ختم کرنے پر مجبور کردیں گی! یہ منظر ہم بھی دیکھنا چاہیں گے، فی الحال ہمارا جوا ان کے مواخذہ کی مخالفت میں لگا ہوا ہے۔ جہاں تک قومی مفاہمتی آرڈی ننس کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا انوکھا جرم ہے، جس کی پاداش میں ان کا مواخذہ درست ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر یہ ایک ایسا الزام ہوگا جو کہ ان کی جان کے دشمن بھی ان پر لگانا نہیں چاہیں گے۔ اس مخمصہ سے ان کی جان اب سعودی دوست ہی چھڑاسکتے ہیں جو گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی سیاست میں ایک پراسرار وفعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہمارے کچھ جذباتی دوست ، بالخصوص محترمہ روانتی صاحبہ یہ کہہ رہی ہیں کہ انہیں ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی آہ لگ گئی ہے، جب کہ ام حسان بھی شریف برادران کے چٹپٹے سری پائے، نہاری، نان و لسی کے ساتھ، ساتھ، لذیذ حلوہ بانٹنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔۔۔۔ جتنے منہ ہیں، اتنی ہی باتیں ہیں۔۔۔۔ یعنی 16 کروڑ الزامات اور جوابات ہیں۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے، یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ صرف اعداد و شمار کے بل بوتہ پر صدرصاحب کو گھر بھیجاجاسکتا ہے۔ اس بارے میں جناب ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ، 4 بنیادی الزامات کا شافی جواب دے چکے ہیں، کہ 12 اکتوبر 1999، 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو سپریم کورٹ تحفظ فراہم کرچکی ہے، معیشت کی خرابی یا اصلاح جو بھی رہی، اس کا ذمہ دار وزیراعظم ہوتا ہے، اعتماد کا ووٹ لینا آئینی اور قانونی طور پر ضروری نہیں، اگرچہ اس بارے میں کوئی بیان وکلاءنے دیا تھا، اور پارلیمنٹ سے خطاب نہ کرنا بھی کوئی قابلِ مواخذہ جرم نہیں۔ دیگر الزامات (لال مسجد، بلوچستان، کارگل،سرحد میں طالبانائزیشن، افغانستان میں مزاحمت برائے آزادی، عدلیہ پر شب خون، پاکستانیوں کی خرید وفروخت کا تعلق ملکی اور عالمی سیاست سے ہے، اور ان تمام اقدامات کا پس منظر بھی ہے، اور اس میں دیگر کھلاڑی بھی ہیں، جن کے کردار پر پارلیمنٹ میں بحث ضرور ہونی چاہیے، اور مستقبل کی عملی پالیسیوں کا تعین کردیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر عدلیہ میں تبدیلی نہ لائی جاتی تو آج اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان، این آر او سے دھلے ، سجے بنے سیاستدان کس طرح اس قابل ہوتے! تاہم، آپ کی خاطر ہم چلتے چلتے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ اسمبلی اور سینیٹ سب سے پہلے قومی مفاہمتی آرڈیننس کو ختم کریں، پھر عدلیہ کو بحال کریں، اپنے تمام اثاثہ جات کے گوشواروں کو قوم کے سامنے پیش کریں (امریکہ کے پاس تو تمام ریکارڈ، بشمول فون کالوں کے ٹیپ موجود ہی ہیں ۔۔۔ صرف پاکستانی ہی بے خبر ہیں،اور پھر دیگر کھیل کھیلنے کی کوششیں کریں۔
٭
اتوار، 10 اگست 2008
(c) 2008 Justuju Publishers - All Rights Reserved
The Intellectual Property Rights are asserted under the Pakistani and International Copyright Laws -- The writer and the syndicating agency, Justuju Publishers, hereby grant a permission for printing and reproduction of this article under a "Fair usage" universal license
Last edited: