ghazi52
PDF THINK TANK: ANALYST
- Joined
- Mar 21, 2007
- Messages
- 102,858
- Reaction score
- 106
- Country
- Location
Valley Brogher and Crumber Lake: The eye is just the spectacle right now
Last look back at the turning lake. The only glowing glance that a man sees is a naked eye that he cannot keep forever.
Syed Mehdi Bukhari
'John! Sunshine on the mountains, drifting on the lake, I am shocked at Gadreya, I have gone too far. Don't give me a voice anymore. ”(Translation of a vocal song)
It was a cool sunny afternoon at Blue Lake. I began to absorb the sunshine in my body as I found my eyes amidst the meadows and wild flowers on the shores of the lake feverishly. It was the month of September. Morning and trembling evenings began to set in the highlands on the mountains.
September is the month of change. The breeze of autumn is the measure of the arrival of autumn. My porter approached Saifullah and said, 'Sir, the tea has cooled a second time. If you drink tea, nature will be refreshed. You have a cold I warm up again, sir, 'I'm lying down' I replied.
The intensity of the sunshine was increasing along the lake. Eyes opened, rays of light began to dazzle the eyes as they danced on the blue waters. I got up. The blue water was the water to the front. Saifullah approached and said, 'sir tea.'
When the vehicle entered the tunnel, the night had passed. The light was shining on the horizon. The Lavadi Tunnel connects Khyber Pakhtunkhwa District Dir with Chitral District. It is the longest tunnel in Pakistan 10 km long. Chitral residents used Lavadi pass only to visit other parts of Pakistan.
The narrow valley was suspended for five months in winter due to the snow, making it difficult for the local population to suffer. Chitral's ground connection would have been disconnected from the country and Afghanistan would have supplied food and supplies. Bhutto announced the Lavari tunnel project in the 70s but work on the project was not started for three decades, then Pervez Musharraf started working on the project. The car ran into the lawn tunnel. It was dawn till the exit of the tunnel. As the dusk approached, the sun came down on the mountains. The valley was in the shadows and half in the sun. When the bridegroom broke into the market, a Pashtun kid took a kettle and cup in his hand and came close to the glass in my car and spread his blue eyes, and said, 'sir tea'.
I was sitting idol on the blue lake. The hot tea of Saifullah's hand was soothing to my sore throat. The water in the lake began to cool slightly. The flow in the valley had stopped. The image of the snow-covered mountains surrounding the lake was beginning to shine on the water. Saifullah approached and said, 'Sir! You look good in nature right now, won't you do photography? ' Porter didn't understand the answer so he just smiled. Well I put the camera on and when the lake started to sail, the voice of Saifullah said, 'Sir, I will have hot tea ready till you return.' In the Chitral river, the passenger continued to travel. On the arrival of Chitral, the pause on the top of Tirchir Mir was shining through the sun. The same ice water was flowing near me, joining the flowing river Chitral. The hand stayed on the steering wheel of the car and the eye stayed on the top of the tar trap. When he entered the city, the city was awakened.
Crowds of people crowded the streets. Everywhere you see people going to their offices and shops, kids going to school and young people going to college. The vehicle turned towards Chitral's Royal Mosque. The same prostration that saves a man from a thousand prostrations. Chhatral Shuja-ul-Mulk was built by the former Mahtar Chitral. Its architecture is similar to the Golden Mosque in Peshawar. The warm cold forehead on white-marble marble was affecting the soul.
Chitral hill range is situated in the foothills of the Hindu Kush and settled in the Ganjanabad Valley. The highest peak in the Hindu Kush is Tiruch Mer. Chitral State used to be a state and it has the honor of being the first to announce its affiliation with Pakistan at the time of establishment of Pakistan. The ruler of this state was known as Khwhar in Chitrali and Mahtar in Urdu.
In the British Raj, Chitral was in present-day Ghazar district in Gilgit-Baltistan, which was controlled by a British political agent. Chitral has a population of around 5 lakh. Chitral district has 7 districts. Chambers, Darkot and Boghul are famous terraces of Chitral. Shandur, Qazida, Chan-wire, Yarkhon and Boghul are famous valleys here. Arakari, Laspur, Torkho are the main glaciers, while Laspore, Mollekhu, Bombarith, Little Kahu are famous rivers of Chitral and all these rivers fall into Chitral.
وادی بروغل و کرومبر جھیل: آنکھ محوِ حُسنِ تماشا ہے ابھی
واپس مڑتے جھیل پر آخری نگاہ ڈالی۔ وہی حسرت بھری نگاہ جس سے انسان اس نگینے کو دیکھتا ہے جس کو وہ ہمیشہ کیلئے نہ پاسکتا ہو
سید مہدی بخاریشائع دن پہلے
’جانان! پہاڑوں پر ڈھلتی دھوپ ہوں، جھیل پر بہتی ہوا ہوں، میں گڈریے کی صدا ہوں، بہت دور جا چکا ہوں۔ اب آواز مجھے نہ دو۔‘ (ایک واخی گیت کا ترجمہ)
نیلی جھیل پر پہلے پہر کی ٹھنڈی دھوپ اُتر آئی تھی۔ میں ہلکے بخار و تھکن میں مبتلا جھیل کنارے اُگی گھاس و جنگلی پھولوں کے بیچ آنکھیں موندے بے سُدھ پڑا دھوپ کی تمازت کو اپنے جسم میں جذب کرتا رہا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ پہاڑوں پر بُلندی پر واقع جھیلوں پر ٹھٹھرتی صبحوں اور کپکپاتی شاموں کے موسم کا آغاز ہوچکا تھا۔
ستمبر تبدیلی کا مہینہ۔ خزاں کی آمد کا پیام دیتی تیز ہواؤں کی رُت۔ میرا پورٹر سیف اللہ قریب آ کر بولا، ’صاحب، چائے دوسری بار بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ چائے پیو گے تو طبیعت فریش ہوجائے گا۔ تم کو سردی لگ گیا ہے۔ میں پھر سے گرم کرکے لاتا ہوں صاحب،‘ اوندھے پڑے میں نے اسے ’ہوں‘ میں جواب دیا۔
کرومبر جھیل کا دیدار ہوا—سید مہدی بخاری
جھیل کنارے دھوپ کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو روشنی کی کرنیں نیلے پانیوں پر رقص کرتے آنکھوں کو چُندھیانے لگیں۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ سامنے حدِ نگاہ تک نیلگوں پانی ہی پانی تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بولا ’صاحب چائے۔‘
کرومبر جھیل کنارے اور فطرت کا حُسن — سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل اور تاروں بھری رات—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل کا فضائی نظارہ—سید مہدی بخاری
گاڑی لواڑی ٹنل میں داخل ہوئی تو رات سفر میں بیت چکی تھی۔ اُفق پر روشنی پھوٹ رہی تھی۔ لواڑی ٹنل خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کو ضلع چترال سے ملاتی ہے۔ یہ پاکستان کی 10 کلومیٹر طویل سب سے لمبی سرنگ ہے۔ چترال کے باسی پاکستان کے دیگر علاقوں کا رخ کرنے کے لیے لواڑی پاس کا ہی استعمال کرتے تھے۔
کرومبر وادی کا درشن—سید مہدی بخاری
یہ تنگ درہ موسمِ سرما کے 5 ماہ برف کی وجہ سے آمد و رفت کے لیے معطل رہتا جس بنا پر مقامی آبادی شدید مشکلات کا شکار رہتی۔ چترال کا زمینی رابطہ ملک سے منقطع ہوجایا کرتا اور کھانے پینے کی اشیا کی رسد براستہ افغانستان ہوا کرتی۔ بھٹو صاحب نے 70ء کی دہائی میں لواڑی ٹنل منصوبے کا اعلان کیا مگر 3 دہائیوں تک اس منصوبے پر کام کا آغاز نہ ہو پایا، پھر پرویز مشرف صاحب نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ گاڑی لواڑی ٹنل میں بھاگتی رہی۔ سرنگ سے باہر نکلنے تک صبح پھیل رہی تھی۔ دروش کے آتے آتے دھوپ پہاڑوں پر اُتر آئی تھی۔ وادی آدھی سائے میں تھی اور آدھی دھوپ میں۔ دروش بازار میں بریک لگی تو ایک پختون بچہ ہاتھ میں کیتلی و کپ اٹھائے میری گاڑی کے شیشے کے قریب آکر نیلی آنکھیں پھیلاتے، کیتلی چھنکاتے ہوئے بولا، ’صاحب چائے‘۔
کرومبر جھیل کا بلندی سے نظارہ—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل اور ملکی وے کہکشاں—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل کنارے—سید مہدی بخاری
میں نیلی جھیل کنارے بت بنا بیٹھا رہا۔ سیف اللہ کے ہاتھ کی گرم چائے میرے دکھتے گلے کو راحت پہنچا رہی تھی۔ جھیل کا پانی قدرے ساکت ہونے لگا۔ وادی میں بہتی ہوا رُک چکی تھی۔ جھیل کو گھیرے ہوئے برف پوش پہاڑوں کا عکس پانیوں پر جھلکنے لگا تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بیٹھا اور بولا ’صاحب! ابھی آپ کا طبیعت اچھا لگ رہا ہے، فوٹوگرافی نہیں کرو گے کیا؟‘ میں نے اسے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’تم چاہتے ہو کہ گوتم کی روح اینسل ایڈمز سے ملاقات کرے (یعنی مناظر پر دھیان لگانا چھوڑ کر کیمرے میں مشغول ہوجاؤں)؟‘ پورٹر کو جواب سمجھ نہ پڑا تو وہ بس مسکرا دیا۔ خیر میں نے کیمرا تھاما اور جب جھیل کنارے اترنے لگا تو سیف اللہ کی آواز آئی ’صاحب آپ کی واپسی تک گرم چائے تیار رکھوں گا۔‘ دروش گزرا۔ دریائے چترال کی ہم سفری میں مسافر چلتا رہا۔ چترال کے آتے آتے ترچ میر کی چوٹی پر ٹھہری برف دھوپ سے چمک رہی تھی۔ اسی برف کا پانی بہتا ہوا دریائے چترال میں شامل ہوکر میرے قریب سے بہہ رہا تھا۔ ہاتھ گاڑی کے اسٹئیرنگ پر اور آنکھ ترچ میر کی چوٹی پر ٹکی رہی۔ شہر میں داخل ہوا تو شہر بیدار ہوچکا تھا۔
کرومبر جھیل کا نظارہ—سید مہدی بخاری
لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر اُمڈ آیا تھا۔ ہر طرف اپنے دفاتر و دکانوں کو جاتے لوگ، اسکول جاتے بچے اور کالج جاتے نوجوان نظر آئے۔ گاڑی چترال کی شاہی مسجد کی جانب مُڑگئی۔ وہی ایک سجدہ جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات دیتا ہے۔ شاہی مسجد سابقہ مہتر چترال شجاع الملک نے تعمیر کروائی۔ اس کا طرزِ تعمیر سنہری مسجد پشاور سے ملتا ہے۔ سفید ٹھنڈے سنگِ مرمر پر گرم پیشانی مَس ہوئی تو روح تک تاثیر آنے لگی۔
چترال کی شاہی مسجد—سید مہدی بخاری
شاہی مسجد اور قرب و جوار—سید مہدی بخاری
چترال پہاڑی سلسلہ ہندوکش کے دامن میں بسی گنجان آباد وادی ہے۔ سلسلہ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر ہے۔ چترال ریاست ہوا کرتی تھی اور اس ریاست کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت اس نے سب سے پہلے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔ اس ریاست کے حکمران کو چترالی زبان میں کھوار اور اردو میں مہتر کہا جاتا تھا۔
برطانوی راج میں ریاست چترال آج کے گلگت بلتستان میں واقع ضلع غذر تک مشتمل تھی جس پر برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نگران ہوا کرتا۔ چترال کی آبادی 5 لاکھ کے قریب ہے۔ ضلع چترال کی 7 تحصیلیں ہیں۔ چمبر کن، دارکوت اور بروغل چترال کے مشہور درے ہیں۔ شندور، قزیدہ، چاں تار، یارخون اور بروغل یہاں کی مشہور وادیاں ہیں۔ ارکاری، لاسپور، تورکھو اہم گلیشیر جبکہ لاسپور، مولکہو، بمبوریت، لٹ کہو چترال کے مشہور دریا ہیں اور یہ تمام دریا دریائے چترال میں جا گرتے ہیں۔
Last look back at the turning lake. The only glowing glance that a man sees is a naked eye that he cannot keep forever.
Syed Mehdi Bukhari
'John! Sunshine on the mountains, drifting on the lake, I am shocked at Gadreya, I have gone too far. Don't give me a voice anymore. ”(Translation of a vocal song)
It was a cool sunny afternoon at Blue Lake. I began to absorb the sunshine in my body as I found my eyes amidst the meadows and wild flowers on the shores of the lake feverishly. It was the month of September. Morning and trembling evenings began to set in the highlands on the mountains.
September is the month of change. The breeze of autumn is the measure of the arrival of autumn. My porter approached Saifullah and said, 'Sir, the tea has cooled a second time. If you drink tea, nature will be refreshed. You have a cold I warm up again, sir, 'I'm lying down' I replied.
The intensity of the sunshine was increasing along the lake. Eyes opened, rays of light began to dazzle the eyes as they danced on the blue waters. I got up. The blue water was the water to the front. Saifullah approached and said, 'sir tea.'
When the vehicle entered the tunnel, the night had passed. The light was shining on the horizon. The Lavadi Tunnel connects Khyber Pakhtunkhwa District Dir with Chitral District. It is the longest tunnel in Pakistan 10 km long. Chitral residents used Lavadi pass only to visit other parts of Pakistan.
The narrow valley was suspended for five months in winter due to the snow, making it difficult for the local population to suffer. Chitral's ground connection would have been disconnected from the country and Afghanistan would have supplied food and supplies. Bhutto announced the Lavari tunnel project in the 70s but work on the project was not started for three decades, then Pervez Musharraf started working on the project. The car ran into the lawn tunnel. It was dawn till the exit of the tunnel. As the dusk approached, the sun came down on the mountains. The valley was in the shadows and half in the sun. When the bridegroom broke into the market, a Pashtun kid took a kettle and cup in his hand and came close to the glass in my car and spread his blue eyes, and said, 'sir tea'.
I was sitting idol on the blue lake. The hot tea of Saifullah's hand was soothing to my sore throat. The water in the lake began to cool slightly. The flow in the valley had stopped. The image of the snow-covered mountains surrounding the lake was beginning to shine on the water. Saifullah approached and said, 'Sir! You look good in nature right now, won't you do photography? ' Porter didn't understand the answer so he just smiled. Well I put the camera on and when the lake started to sail, the voice of Saifullah said, 'Sir, I will have hot tea ready till you return.' In the Chitral river, the passenger continued to travel. On the arrival of Chitral, the pause on the top of Tirchir Mir was shining through the sun. The same ice water was flowing near me, joining the flowing river Chitral. The hand stayed on the steering wheel of the car and the eye stayed on the top of the tar trap. When he entered the city, the city was awakened.
Crowds of people crowded the streets. Everywhere you see people going to their offices and shops, kids going to school and young people going to college. The vehicle turned towards Chitral's Royal Mosque. The same prostration that saves a man from a thousand prostrations. Chhatral Shuja-ul-Mulk was built by the former Mahtar Chitral. Its architecture is similar to the Golden Mosque in Peshawar. The warm cold forehead on white-marble marble was affecting the soul.
Chitral hill range is situated in the foothills of the Hindu Kush and settled in the Ganjanabad Valley. The highest peak in the Hindu Kush is Tiruch Mer. Chitral State used to be a state and it has the honor of being the first to announce its affiliation with Pakistan at the time of establishment of Pakistan. The ruler of this state was known as Khwhar in Chitrali and Mahtar in Urdu.
In the British Raj, Chitral was in present-day Ghazar district in Gilgit-Baltistan, which was controlled by a British political agent. Chitral has a population of around 5 lakh. Chitral district has 7 districts. Chambers, Darkot and Boghul are famous terraces of Chitral. Shandur, Qazida, Chan-wire, Yarkhon and Boghul are famous valleys here. Arakari, Laspur, Torkho are the main glaciers, while Laspore, Mollekhu, Bombarith, Little Kahu are famous rivers of Chitral and all these rivers fall into Chitral.
وادی بروغل و کرومبر جھیل: آنکھ محوِ حُسنِ تماشا ہے ابھی
واپس مڑتے جھیل پر آخری نگاہ ڈالی۔ وہی حسرت بھری نگاہ جس سے انسان اس نگینے کو دیکھتا ہے جس کو وہ ہمیشہ کیلئے نہ پاسکتا ہو
سید مہدی بخاریشائع دن پہلے
’جانان! پہاڑوں پر ڈھلتی دھوپ ہوں، جھیل پر بہتی ہوا ہوں، میں گڈریے کی صدا ہوں، بہت دور جا چکا ہوں۔ اب آواز مجھے نہ دو۔‘ (ایک واخی گیت کا ترجمہ)
نیلی جھیل پر پہلے پہر کی ٹھنڈی دھوپ اُتر آئی تھی۔ میں ہلکے بخار و تھکن میں مبتلا جھیل کنارے اُگی گھاس و جنگلی پھولوں کے بیچ آنکھیں موندے بے سُدھ پڑا دھوپ کی تمازت کو اپنے جسم میں جذب کرتا رہا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ پہاڑوں پر بُلندی پر واقع جھیلوں پر ٹھٹھرتی صبحوں اور کپکپاتی شاموں کے موسم کا آغاز ہوچکا تھا۔
ستمبر تبدیلی کا مہینہ۔ خزاں کی آمد کا پیام دیتی تیز ہواؤں کی رُت۔ میرا پورٹر سیف اللہ قریب آ کر بولا، ’صاحب، چائے دوسری بار بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ چائے پیو گے تو طبیعت فریش ہوجائے گا۔ تم کو سردی لگ گیا ہے۔ میں پھر سے گرم کرکے لاتا ہوں صاحب،‘ اوندھے پڑے میں نے اسے ’ہوں‘ میں جواب دیا۔
کرومبر جھیل کا دیدار ہوا—سید مہدی بخاری
جھیل کنارے دھوپ کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو روشنی کی کرنیں نیلے پانیوں پر رقص کرتے آنکھوں کو چُندھیانے لگیں۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ سامنے حدِ نگاہ تک نیلگوں پانی ہی پانی تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بولا ’صاحب چائے۔‘
کرومبر جھیل کنارے اور فطرت کا حُسن — سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل اور تاروں بھری رات—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل کا فضائی نظارہ—سید مہدی بخاری
گاڑی لواڑی ٹنل میں داخل ہوئی تو رات سفر میں بیت چکی تھی۔ اُفق پر روشنی پھوٹ رہی تھی۔ لواڑی ٹنل خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کو ضلع چترال سے ملاتی ہے۔ یہ پاکستان کی 10 کلومیٹر طویل سب سے لمبی سرنگ ہے۔ چترال کے باسی پاکستان کے دیگر علاقوں کا رخ کرنے کے لیے لواڑی پاس کا ہی استعمال کرتے تھے۔
کرومبر وادی کا درشن—سید مہدی بخاری
یہ تنگ درہ موسمِ سرما کے 5 ماہ برف کی وجہ سے آمد و رفت کے لیے معطل رہتا جس بنا پر مقامی آبادی شدید مشکلات کا شکار رہتی۔ چترال کا زمینی رابطہ ملک سے منقطع ہوجایا کرتا اور کھانے پینے کی اشیا کی رسد براستہ افغانستان ہوا کرتی۔ بھٹو صاحب نے 70ء کی دہائی میں لواڑی ٹنل منصوبے کا اعلان کیا مگر 3 دہائیوں تک اس منصوبے پر کام کا آغاز نہ ہو پایا، پھر پرویز مشرف صاحب نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ گاڑی لواڑی ٹنل میں بھاگتی رہی۔ سرنگ سے باہر نکلنے تک صبح پھیل رہی تھی۔ دروش کے آتے آتے دھوپ پہاڑوں پر اُتر آئی تھی۔ وادی آدھی سائے میں تھی اور آدھی دھوپ میں۔ دروش بازار میں بریک لگی تو ایک پختون بچہ ہاتھ میں کیتلی و کپ اٹھائے میری گاڑی کے شیشے کے قریب آکر نیلی آنکھیں پھیلاتے، کیتلی چھنکاتے ہوئے بولا، ’صاحب چائے‘۔
کرومبر جھیل کا بلندی سے نظارہ—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل اور ملکی وے کہکشاں—سید مہدی بخاری
کرومبر جھیل کنارے—سید مہدی بخاری
میں نیلی جھیل کنارے بت بنا بیٹھا رہا۔ سیف اللہ کے ہاتھ کی گرم چائے میرے دکھتے گلے کو راحت پہنچا رہی تھی۔ جھیل کا پانی قدرے ساکت ہونے لگا۔ وادی میں بہتی ہوا رُک چکی تھی۔ جھیل کو گھیرے ہوئے برف پوش پہاڑوں کا عکس پانیوں پر جھلکنے لگا تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بیٹھا اور بولا ’صاحب! ابھی آپ کا طبیعت اچھا لگ رہا ہے، فوٹوگرافی نہیں کرو گے کیا؟‘ میں نے اسے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’تم چاہتے ہو کہ گوتم کی روح اینسل ایڈمز سے ملاقات کرے (یعنی مناظر پر دھیان لگانا چھوڑ کر کیمرے میں مشغول ہوجاؤں)؟‘ پورٹر کو جواب سمجھ نہ پڑا تو وہ بس مسکرا دیا۔ خیر میں نے کیمرا تھاما اور جب جھیل کنارے اترنے لگا تو سیف اللہ کی آواز آئی ’صاحب آپ کی واپسی تک گرم چائے تیار رکھوں گا۔‘ دروش گزرا۔ دریائے چترال کی ہم سفری میں مسافر چلتا رہا۔ چترال کے آتے آتے ترچ میر کی چوٹی پر ٹھہری برف دھوپ سے چمک رہی تھی۔ اسی برف کا پانی بہتا ہوا دریائے چترال میں شامل ہوکر میرے قریب سے بہہ رہا تھا۔ ہاتھ گاڑی کے اسٹئیرنگ پر اور آنکھ ترچ میر کی چوٹی پر ٹکی رہی۔ شہر میں داخل ہوا تو شہر بیدار ہوچکا تھا۔
کرومبر جھیل کا نظارہ—سید مہدی بخاری
لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر اُمڈ آیا تھا۔ ہر طرف اپنے دفاتر و دکانوں کو جاتے لوگ، اسکول جاتے بچے اور کالج جاتے نوجوان نظر آئے۔ گاڑی چترال کی شاہی مسجد کی جانب مُڑگئی۔ وہی ایک سجدہ جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات دیتا ہے۔ شاہی مسجد سابقہ مہتر چترال شجاع الملک نے تعمیر کروائی۔ اس کا طرزِ تعمیر سنہری مسجد پشاور سے ملتا ہے۔ سفید ٹھنڈے سنگِ مرمر پر گرم پیشانی مَس ہوئی تو روح تک تاثیر آنے لگی۔
چترال کی شاہی مسجد—سید مہدی بخاری
شاہی مسجد اور قرب و جوار—سید مہدی بخاری
چترال پہاڑی سلسلہ ہندوکش کے دامن میں بسی گنجان آباد وادی ہے۔ سلسلہ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر ہے۔ چترال ریاست ہوا کرتی تھی اور اس ریاست کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت اس نے سب سے پہلے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔ اس ریاست کے حکمران کو چترالی زبان میں کھوار اور اردو میں مہتر کہا جاتا تھا۔
برطانوی راج میں ریاست چترال آج کے گلگت بلتستان میں واقع ضلع غذر تک مشتمل تھی جس پر برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نگران ہوا کرتا۔ چترال کی آبادی 5 لاکھ کے قریب ہے۔ ضلع چترال کی 7 تحصیلیں ہیں۔ چمبر کن، دارکوت اور بروغل چترال کے مشہور درے ہیں۔ شندور، قزیدہ، چاں تار، یارخون اور بروغل یہاں کی مشہور وادیاں ہیں۔ ارکاری، لاسپور، تورکھو اہم گلیشیر جبکہ لاسپور، مولکہو، بمبوریت، لٹ کہو چترال کے مشہور دریا ہیں اور یہ تمام دریا دریائے چترال میں جا گرتے ہیں۔