Sulman Badshah
STAFF
- Joined
- Feb 22, 2014
- Messages
- 4,282
- Reaction score
- 34
- Country
- Location
سقوطِ ڈھاکہ اور چکوال کے تین فوجیوں کی کہانی
علی خان
میں انڈیا کے شہر رام گڑھ کے کیمپ نمبر 27میں قید تھا جس کا کمانڈر ایک تحمل مزاج سکھ کرنل تھا سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہمیںجیسور سیکٹر سے لا کر یہاں قید کیا گیا تھا اور یہاں میرے سمیت تقریباً1800فوجی قید تھے۔ محمد اشرف چکوال کے اُن ہزار ہا فوجیوں میںسے ایک تھا جو 16دسمبر1971ءکے وقت بنگلہ دیش میں فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ محمد اشرف نے سجاگ کو بتایا کہ" میری عمر اُس وقت بیس سال تھی اور میں سقوطِ ڈھاکہ سے محض پانچ چھ ماہ قبل ہی بنگال کے سرحدی شہرجیسورکے سی ایم ایچ میں تعینات ہوا تھا"۔
"جب میں وہاں پہنچا تو بنگالیوںاور پاکستانی فوجیوں میں معمولی جھڑپیں معمول تھا لیکن مجموعی طور پر حالات قابو میں تھے۔ جیسور میںمیں فوجی پاکستان کے بہت سے لوگ رہتے تھے جنکا وہاں کاروبار اور ملازمتیں تھیں ۔ بنگال سے بنگالی فوجیوں کو مغربی پاکستان تبدیل کر دیا گیا تھا مگر وہ وہاں سے گھر وں کو واپس آگئے اورحالات مزید خراب کرنے کا سبب بننے لگے۔ مکتی باہنی والوں نے جیسور میں پاکستانیوں کے گھروں کو لوٹا اور اُن کی عصمتیں بھی۔ جہاز چلنا بند تھے سو وہ وہاں سے بھاگ نہ سکے۔ بِہاری پاکستانی فوج کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔اکثر بہِاری بعد ازاں مغربی پاکستان آگئے۔ جب جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کے کاغذ پر دستخط کیے تو پاک فوج کے جوانوں کو مشرقی پاکستان کے مختلف کارخانوں میں بند کر دیا گیا "۔
"مجھے پہلے کھُلناکی ایک جیوٹ مل میں بند کیا گیا۔ جہاں سے رام گڑھ کے کیمپ لایا گیا اورمیں وہاں تقریباً دو سال قید رہا۔ قیدیوں کے کیمپ میں عالمی ریڈ کراس سوسائٹی کڑی نگرانی کرائی چنانچہ ہمیں زیادہ تکلیف نہ تھی تاہم بھارتی نگہبانوں سے نوک جھونک چلتی رہتی۔ ہمارے افسران کیمپ نمبر 25میں بند تھے"۔ محمد اشرف قید سے رہائی پا کر پاک فوج میں خدمات سر انجام دینے لگا اور تین عشرے قبل ریٹائرڈ ہوئے۔
چکوال کا محمد امین لیکن محمد اشرف کی طرح خوش قسمت ثابت نہ ہوا۔ 24سالہ محمد امین 3اکتوبر1972ءکو مد ھیہ پردیش کے کیمپ 50میں بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ محمد امین اب بھی وہاں دفن ہے اور اُس کے خاندان کو یہ امید ہے کہ وہ کبھی وہاں جا کر اُسکی قبر دیکھ سکیں گے۔
محمد امین کے بھائی محمد عظیم کے مطابق انہیں یہ خبر ریڈیو پاکستان سے ملی لیکن ریڈیو پاکستا ن محمد امین کا آرمی نمبر غلط بتا رہا تھا۔ جس سے امید باقی تھی کہ یہ کوئی دوسرا فوجی ہو سکتا ہے۔ لیکن آرمی سٹرائیک نے بعد ازاں اس کی تصدیق کر دی ۔ محمد عظیم کا کہنا ہے کہ "محمد امین کوواقع سے تقریبا ً 9ماہ قبل سینکڑوں قیدیوں کے ساتھ اس کیمپ میں لایا گیا تھا۔ جنگی قیدی اکثر کیمپ سے بھاگنے کی کوشش کرتے رہتے ۔تاہم ان کے لئے بڑا مسئلہ یہاں سے بھا گ کر باہر اپنی شناخت چھپانا تھا۔ کیونکہ ان کے ناصرف کپڑوں بلکہ زیر ِ استعمال چیزپر عالمی ریڈکراس کا نشان لگا ہوتا چنانچہ کیمپ انتظامیہ نے مذہبی نوعیت کی اشیاءسمیت ہر چیز پر ریڈ کراس کا نشان لگانے کا فیصلہ کر لیا"۔
"قیدی فوجیوں نے اس عمل کو توہین ِ مذہب سمجھا اور محمد امین اس کام میں پیش پیش تھا۔ محمد امین نے جب ایسا کرنے سے انکار کیا تو اسے تین بار وارننگ دی گئی کہ اگراسنے حکم عدولی کی تو اسے گولی مار دی جائے گی۔ تلخی بڑھی تو محمد امین نے پاس کھڑے بھارتی فوجی سے رائفل چھین لی اور فوراً فائرنگ کر دی جس سے مبینہ طور پر تین بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ ساتھی قیدیوں نے محمد امین کو فائرنگ سے منع کیا اور پکڑنے کی کوشش کی مگر محمد امین گن پر لگا چاقو اتار کر فائرنگ کا حکم دینے والے بھارتی آرمی آفیسر کے پیچھے بھاگا۔ وہ جیسے ہی خالی جگہ پر آیا کیمپ کے محافظ بھارتی فوجیوں نے اسے گولیاں مار دیں۔ پاک فوج کا حوالدار محمد سلیم جو میانہ موہڑہ ضلع راولپنڈی کا تھا۔ محمد امین کو بچانے کے لئے آگے آیا تو وہ بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اس دوران موضع سدھر ضلع چکوال کا حوالدار نور زمان بھی گولیوں کی زد میں آکر شہید ہو گیا"۔
واقعہ کی باقاعدہ اطلاع 5اکتوبر 1972 ءکو بذریعہ تار لواحقین تک پہنچی اور پاک فوج نے اس کی قبر کی تصویر انہیں فراہم کی۔ محمد عظیم نے سجا گ کو بتایا کہ" انہیں حکومت پاکستان نے انعام دینے کا اعلان کیا ۔ مگر ان کے والد صوبیدار (ر) فضل حسین مرحوم نے لینے سے انکار کر دیا اور اپنے گاﺅں موہڑ ہ تھنیل کے لئے بجلی اور سڑ ک کا مطالبہ کیا۔ جو 1984ءمیں 43لاکھ کی لاگت سے پورا کیا گیا"۔
1928ءمیں پیدا ہونے والے صوبیدار(ر) شیر خان نے اپنی یاداشت کو کُریدتے ہوئے بتایا کہ "بنگال کے شہر کمیلا سے بذریعہ جہاز کلکتہ اور پھر بھارتی شہر ”گوا“ میں لا کر بند کیا گیا وہاں وہ تقریباً دو سال قید رہے"۔ سجاگ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "دوران قید انہیں تکلیف تو نہ تھی لیکن گھر سے دوری کا احساس البتہ ستاتا رہتا، مستقبل کے حوالے سے خدشات بھی گھیرے رکھتے۔ خاندان سے رابطے کا واحد ذریعہ خطوط ہوا کرتے ان سے ہمیں خیر خیریت کی اطلاع ملتی۔ میں اُس وقت نائب صوبیدار تھا او ر اپنی فوجی ملازمت کے تقریباً بیس سال مکمل کر چکا تھا۔جب میں قید سے واپس آیا تو پورا گاﺅں مجھے ملنے اور دیکھنے کیلئے آیا۔ہمارے ساتھ چکوال کے بے شمار بلکہ سقوطِ ڈھاکہ میں بیشتر جوان چکوال کے ہی قید ہوئے"۔
چکوال کو مارشل ایریا کہا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیاآف چکوال کے مطابق یہاں 2005ءمیں فوجی پنشن لینے والوں کی تعداد 1لاکھ سے زائد تھی۔ سقوط ِ ڈھاکہ پاکستان کی فوجی تاریخ کا اہم باب ہے اور چکوال کے جوانوں نے اس میں بیشمار قربانیاں دی ہیں۔
بشکریہ...پنجاب لوک سجاگ
8 مارچ 2018ء کو چکوال آج کل پر شائع ہوئ
علی خان
میں انڈیا کے شہر رام گڑھ کے کیمپ نمبر 27میں قید تھا جس کا کمانڈر ایک تحمل مزاج سکھ کرنل تھا سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہمیںجیسور سیکٹر سے لا کر یہاں قید کیا گیا تھا اور یہاں میرے سمیت تقریباً1800فوجی قید تھے۔ محمد اشرف چکوال کے اُن ہزار ہا فوجیوں میںسے ایک تھا جو 16دسمبر1971ءکے وقت بنگلہ دیش میں فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ محمد اشرف نے سجاگ کو بتایا کہ" میری عمر اُس وقت بیس سال تھی اور میں سقوطِ ڈھاکہ سے محض پانچ چھ ماہ قبل ہی بنگال کے سرحدی شہرجیسورکے سی ایم ایچ میں تعینات ہوا تھا"۔
"جب میں وہاں پہنچا تو بنگالیوںاور پاکستانی فوجیوں میں معمولی جھڑپیں معمول تھا لیکن مجموعی طور پر حالات قابو میں تھے۔ جیسور میںمیں فوجی پاکستان کے بہت سے لوگ رہتے تھے جنکا وہاں کاروبار اور ملازمتیں تھیں ۔ بنگال سے بنگالی فوجیوں کو مغربی پاکستان تبدیل کر دیا گیا تھا مگر وہ وہاں سے گھر وں کو واپس آگئے اورحالات مزید خراب کرنے کا سبب بننے لگے۔ مکتی باہنی والوں نے جیسور میں پاکستانیوں کے گھروں کو لوٹا اور اُن کی عصمتیں بھی۔ جہاز چلنا بند تھے سو وہ وہاں سے بھاگ نہ سکے۔ بِہاری پاکستانی فوج کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔اکثر بہِاری بعد ازاں مغربی پاکستان آگئے۔ جب جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کے کاغذ پر دستخط کیے تو پاک فوج کے جوانوں کو مشرقی پاکستان کے مختلف کارخانوں میں بند کر دیا گیا "۔
"مجھے پہلے کھُلناکی ایک جیوٹ مل میں بند کیا گیا۔ جہاں سے رام گڑھ کے کیمپ لایا گیا اورمیں وہاں تقریباً دو سال قید رہا۔ قیدیوں کے کیمپ میں عالمی ریڈ کراس سوسائٹی کڑی نگرانی کرائی چنانچہ ہمیں زیادہ تکلیف نہ تھی تاہم بھارتی نگہبانوں سے نوک جھونک چلتی رہتی۔ ہمارے افسران کیمپ نمبر 25میں بند تھے"۔ محمد اشرف قید سے رہائی پا کر پاک فوج میں خدمات سر انجام دینے لگا اور تین عشرے قبل ریٹائرڈ ہوئے۔
چکوال کا محمد امین لیکن محمد اشرف کی طرح خوش قسمت ثابت نہ ہوا۔ 24سالہ محمد امین 3اکتوبر1972ءکو مد ھیہ پردیش کے کیمپ 50میں بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ محمد امین اب بھی وہاں دفن ہے اور اُس کے خاندان کو یہ امید ہے کہ وہ کبھی وہاں جا کر اُسکی قبر دیکھ سکیں گے۔
محمد امین کے بھائی محمد عظیم کے مطابق انہیں یہ خبر ریڈیو پاکستان سے ملی لیکن ریڈیو پاکستا ن محمد امین کا آرمی نمبر غلط بتا رہا تھا۔ جس سے امید باقی تھی کہ یہ کوئی دوسرا فوجی ہو سکتا ہے۔ لیکن آرمی سٹرائیک نے بعد ازاں اس کی تصدیق کر دی ۔ محمد عظیم کا کہنا ہے کہ "محمد امین کوواقع سے تقریبا ً 9ماہ قبل سینکڑوں قیدیوں کے ساتھ اس کیمپ میں لایا گیا تھا۔ جنگی قیدی اکثر کیمپ سے بھاگنے کی کوشش کرتے رہتے ۔تاہم ان کے لئے بڑا مسئلہ یہاں سے بھا گ کر باہر اپنی شناخت چھپانا تھا۔ کیونکہ ان کے ناصرف کپڑوں بلکہ زیر ِ استعمال چیزپر عالمی ریڈکراس کا نشان لگا ہوتا چنانچہ کیمپ انتظامیہ نے مذہبی نوعیت کی اشیاءسمیت ہر چیز پر ریڈ کراس کا نشان لگانے کا فیصلہ کر لیا"۔
"قیدی فوجیوں نے اس عمل کو توہین ِ مذہب سمجھا اور محمد امین اس کام میں پیش پیش تھا۔ محمد امین نے جب ایسا کرنے سے انکار کیا تو اسے تین بار وارننگ دی گئی کہ اگراسنے حکم عدولی کی تو اسے گولی مار دی جائے گی۔ تلخی بڑھی تو محمد امین نے پاس کھڑے بھارتی فوجی سے رائفل چھین لی اور فوراً فائرنگ کر دی جس سے مبینہ طور پر تین بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ ساتھی قیدیوں نے محمد امین کو فائرنگ سے منع کیا اور پکڑنے کی کوشش کی مگر محمد امین گن پر لگا چاقو اتار کر فائرنگ کا حکم دینے والے بھارتی آرمی آفیسر کے پیچھے بھاگا۔ وہ جیسے ہی خالی جگہ پر آیا کیمپ کے محافظ بھارتی فوجیوں نے اسے گولیاں مار دیں۔ پاک فوج کا حوالدار محمد سلیم جو میانہ موہڑہ ضلع راولپنڈی کا تھا۔ محمد امین کو بچانے کے لئے آگے آیا تو وہ بھی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اس دوران موضع سدھر ضلع چکوال کا حوالدار نور زمان بھی گولیوں کی زد میں آکر شہید ہو گیا"۔
واقعہ کی باقاعدہ اطلاع 5اکتوبر 1972 ءکو بذریعہ تار لواحقین تک پہنچی اور پاک فوج نے اس کی قبر کی تصویر انہیں فراہم کی۔ محمد عظیم نے سجا گ کو بتایا کہ" انہیں حکومت پاکستان نے انعام دینے کا اعلان کیا ۔ مگر ان کے والد صوبیدار (ر) فضل حسین مرحوم نے لینے سے انکار کر دیا اور اپنے گاﺅں موہڑ ہ تھنیل کے لئے بجلی اور سڑ ک کا مطالبہ کیا۔ جو 1984ءمیں 43لاکھ کی لاگت سے پورا کیا گیا"۔
1928ءمیں پیدا ہونے والے صوبیدار(ر) شیر خان نے اپنی یاداشت کو کُریدتے ہوئے بتایا کہ "بنگال کے شہر کمیلا سے بذریعہ جہاز کلکتہ اور پھر بھارتی شہر ”گوا“ میں لا کر بند کیا گیا وہاں وہ تقریباً دو سال قید رہے"۔ سجاگ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "دوران قید انہیں تکلیف تو نہ تھی لیکن گھر سے دوری کا احساس البتہ ستاتا رہتا، مستقبل کے حوالے سے خدشات بھی گھیرے رکھتے۔ خاندان سے رابطے کا واحد ذریعہ خطوط ہوا کرتے ان سے ہمیں خیر خیریت کی اطلاع ملتی۔ میں اُس وقت نائب صوبیدار تھا او ر اپنی فوجی ملازمت کے تقریباً بیس سال مکمل کر چکا تھا۔جب میں قید سے واپس آیا تو پورا گاﺅں مجھے ملنے اور دیکھنے کیلئے آیا۔ہمارے ساتھ چکوال کے بے شمار بلکہ سقوطِ ڈھاکہ میں بیشتر جوان چکوال کے ہی قید ہوئے"۔
چکوال کو مارشل ایریا کہا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیاآف چکوال کے مطابق یہاں 2005ءمیں فوجی پنشن لینے والوں کی تعداد 1لاکھ سے زائد تھی۔ سقوط ِ ڈھاکہ پاکستان کی فوجی تاریخ کا اہم باب ہے اور چکوال کے جوانوں نے اس میں بیشمار قربانیاں دی ہیں۔
بشکریہ...پنجاب لوک سجاگ
8 مارچ 2018ء کو چکوال آج کل پر شائع ہوئ
Last edited: