Unfortunately OP has limited English skills.
what about URDU from BBC
’دھرنا دیا تو سب کو جیل میں ڈال دوں گا‘ لیفٹینینٹ جنرل آصف غفور سے منسوب متنازع بیان کی حقیقت کیا؟
مضمون کی تفصیل
- مصنف, محمد کاظم
- عہدہ, بی بی سی اردو، کوئٹہ
- 18 جنوری 2023
،تصویر کا ذریعہ@peaceforchange
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور سے ان کے حالیہ دورے کے موقع پر ملاقات کرنے والوں میں حق دو تحریک کے ایک معمر نومنتخب کونسلر کاکا سلیمان بھی شامل تھے۔
اس ملاقات کے حوالے سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں انھوں نے یہ الزام عائد کیا کہ ’ہمیں ملاقات کے دوران کور کمانڈر نے دھمکی دی کہ آئندہ اگر آپ لوگوں نے ہڑتال کی اور دھرنا دیا تو آپ لوگوں کو جیل میں ڈال دوں گا‘۔
حق دو تحریک کے دودیگر کونسلروں نے بھی فون پر بتایا کہ ’کورکمانڈر نے بتایا کہ کسی اور مقام پر آپ لوگ جتنا دھرنا اور احتجاج کرتے ہو کرو لیکن اگر پورٹ کے باہر دھرنا دیا تو میں سب کو جیل میں ڈال دوں گا۔‘
تاہم سرکاری حکام نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کور کمانڈر جذبہ خیرسگالی کے تحت گوادر گئے تھے اور وہاں لوگوں سے ملاقات کرکے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے جو بھی جائز مسائل ہیں ان کو حل کیا جائے گا۔
گوادر میں حالات کشیدہ ہونے کے بعد کسی اعلیٰ فوجی افسر کی جانب سے پہلا اہم رابطہ
،تصویر کا ذریعہJAVED BALOCH
گوادر میں پورٹ کے قریب حق دو تحریک کے دھرنے پر 26 دسمبر کو علی الصبح پولیس نے کریک ڈاﺅن کے علاوہ گرفتاریاں کی تھیں۔
اس کریک ڈاﺅن کے خلاف گوادر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا تھا جس کے باعث پانچ روز تک گوادر شہر کے علاوہ دیگر شہروں میں کاروباری مراکز بند ہوئے تھے۔ اسی طرح اہم شاہراہیں بھی کئی روز تک بند ہوئی تھیں۔
حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ کئی روز تک موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کیا تھا جبکہ گوادر میں 26 دسمبر سے ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 بھی نافذ ہے جس میں ہر قسم کی اجتماع پر پابندی ہے۔
پولیس کی جانب سے حق دو تحریک کے سربراہ، رہنماﺅں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
اگرچہ پولیس تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کو گرفتار نہیں کرسکی تھی لیکن وہ جمعے کو خود گرفتاری دینے کے لیے گوادر میں عدالت میں پیش ہوئے تھے لیکن پولیس نے کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے پہلے ان کو گرفتار کیا تھا۔
حق دو تحریک کے قیام کے بعد سے حکومت کی جانب سے اس پر یہ پہلا کریک ڈاﺅن تھا جبکہ اس کریک ڈاﺅن کسی اعلیٰ فوجی افسر کی جانب سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے پہلا رابطہ تھا۔
کورکمانڈر نے وہاں قیام کے دوران گوادر کے نومنتخب کونسلروں سے بھی ملاقات کی۔
کورکمانڈر سے ملاقات کے بعد ویڈیو میں معمر کونسلر نے کیا کہا ؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کاکا سلیمان کا کور کمانڈر سے ملاقات کے بعد جو ویڈیو وائرل ہوئی اس میں انھوں نے کہا کہ مولانا لیاقت نے جماعت اسلامی کے دفتر میں حق دو تحریک کے تمام کونسلروں کو بلایا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے آپ لوگوں بلایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ہم مولانا لیاقت کی سربراہی میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر گئے تو وہاں سے ڈپٹی کمشنر ہمیں کوسٹ گارڈز کے ہیڈکوارٹر لے گئے، وہاں کورکمانڈر بھی تھے اور انھوں نے ہمیں طلب کیا تھا۔
کاکا سلیمان کے مطابق ’کورکمانڈر نے کہا کہ آپ لوگوں نے غلطی کی ہے کیونکہ آپ لوگوں نے پورٹ کے راستے پر دھرنا دیا۔ ہمارے لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے حق کے لیے دھرنا دیا۔ ہم نے بجلی اور پانی مانگا۔ ہم منشیات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ٹرالنگ یعنی غیرقانونی ماہی گیری کا خاتمہ ہو۔ ہم نے کہا کہ حکومت نے مانا ہے کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں‘۔
کاکا سلیمان نے کہا کہ’اس ملاقات کا مقصد ہم نہیں سمجھے۔ ہمیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا۔ وہاں اصغر قیوم اور ہمارے دیگر ساتھیوں نے بات کی۔ کورکمانڈر نے ہمیں دھمکی دی کہ اگر آپ لوگوں نے ہڑتال کی یا دھرنا دیا تو میں آپ لوگوں کو گرفتار کروں گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا کہ ہڑتال اور دھرنا توہم نے اپنے حقوق کے لیے دیے۔
،تصویر کا ذریعہJAVED BALOCH
کاکا سلیمان کون ہیں؟
کاکا سلیمان کا تعلق گوادر کے علاقے سربندن سے ہے۔
وہ گذشتہ سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مخصوص نشست پر حق دو تحریک کے کونسلرمنتخب ہوئے تھے۔ اس ویڈیو سے قبل ان کی ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں ان کے دونوں ہاتھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔
انھوں نے اس ویڈیو میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ پولیس والے شمبے نامی ایک شخص کو مار رہے تھے تو میں نے ان کو بچانے کی کوشش کی جس پر ان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی تشدد کا نشانہ بنایا جس سے میں زخمی ہوا۔
کور کمانڈر سے پہلے روز کے ملاقات میں کونسلروں کی بڑی تعداد موجود نہیں تھی
بلوچستان میں گذشتہ سال جو بلدیاتی انتخابات ہوئے اس میں گوادر شہر سے حق دو تحریک کے کونسلروں کی اکثریت کامیاب ہوئی تھی۔ اسی طرح گوادر کے دیگر علاقوں میں بھی حق دو تحریک کے کونسلروں کی بڑی تعداد نے کامیابی حاصل کی تھی۔
کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کے دورہ گوادر کے موقع پر جمعرات کو زندگی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان سے ملاقات کی تھی۔
حق دو تحریک کے نومنتخب کونسلر اصغر طیب نے بتایا کہ پہلے روز کے ملاقات میں کورکمانڈر نے یہ تجویز دی تھی گوادر کے لوگوں کے جو مسائل ہیں ان کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جو کہ ڈپٹی کمشنر سے ملاقاتیں کرے اور مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرے۔
’اس کمیٹی کے حوالے سے یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ ہر پندرہ روز بعد اس کمیٹی کا سربراہ تبدیل ہو‘۔
اصغرطیب کا کہنا تھا کہ اس دوران ایک سیاسی رہنما نے بتایا تھا کہ جب عوام کے منتخب کونسلر ہیں تودیگر لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنانے کی بجائے ان کونسلروں کو موقع دیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ کونسلروں کی اکثریت کا تعلق حق دو تحریک سے ہے جس کے باعث ان کے خلاف مقدمات تھے اس لیے مقدمات کے ہوتے ہوئے ان کے لیے وہاں جانا ممکن نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ کونسلر وہاں موجود نہیں تھے تو کور کمانڈر نے کونسلروں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر ڈپٹی کمشنر گوادر نے مولانا لیاقت سے گزارش کی تھی کہ وہ کونسلروں کا کونڈر کمانڈر سے ملاقات کا اہتمام کرائیں۔
ان کا کہنا تھا اس نشست میں مولانا لیاقت نے بتایا تھا کہ حق دو تحریک کے کونسلروں کے خلاف مقدمات ہیں وہ جب آئیں گے تو ان کو گرفتار کیا جائے گا جس پر انھیں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کونسلروں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہJAVED BALOCH
اصغر طیب نے بتایا کہ ’جب جمعہ کے روزکورکمانڈر سے کوسٹ گارڈز کے ہیڈکوارٹرز میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ آپ لوگوں کو احتجاج سے کوئی نہیں روکتا آپ لوگ کسی اور مقام پر جتنا چاہیں احتجاج کریں لیکن پورٹ کے سامنے احتجاج نہ کریں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ایک کونسلر نے بتایا کہ ہم نے 50-55 دن تک ایک مقام پر دھرنا دیا لیکن وہاں کسی نے یہ پوچھنے کی زخمت نہیں کی ہم وہاں اتنے روز سے کیوں بیٹھے ہیں تو ہم مجبور ہوکر ایکسپریس وے پر پورٹ کے سامنے آگئے تاکہ حکمرانوں کو ہمارے مسائل کا احساس ہو‘۔
اصغر طیب کے مطابق ’ جب اس کونسلر نے کہا کہ ہمارے قانونی ا ور آئینی مطالبات کو نہیں مانا جائے گا تو پھر ہم ہر جگہ دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے ۔ اس پر کورکمانڈر نے کہا کہ اگر آئندہ کسی نے پورٹ کے باہر دھرنا دیا تو میں ان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالوں گا‘۔
حق دو تحریک کے ایک کونسلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس ملاقات کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ پورٹ کے سامنے دھرنا کے دوران چائنیز کو آمد ورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس کونسلر نے یہ دعویٰ کیا کہ ’اس اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ چائنیز نے یہاں تک کہا تھاکہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو وہ چھوڑ کر چلے جائیں گے‘۔
حق دو تحریک کے کونسلر کا کہنا تھا کہ ہم نے کور کمانڈر کو بتایا کہ ایکسپریس وے پر پورٹ کے قریب دھرنے سے قبل بھی ایک روز وہاں دھرنا دیا گیا لیکن حکومت اور انتظامیہ نے ہماری بات نہیں سنی اس لیے لوگ پورٹ کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوئے تاکہ حکومت کو نیند سے بیدار کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ایک کونسلر نے یہ کہا کہ اگر ہمارے جائز مطالبات کو نہیں مانا جائے گا تو ہم اپنے حقوق کے لیے کہیں بھی دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے اس پر کورکمانڈر نے کہا کہ پورٹ کے سامنے جو بھی دھرنا دے گا اسے وہ جیل میں ڈالیں گے۔
سرکاری حکام کا اس حوالے سے کیا کہنا ہے ؟
حق دو تحریک کے کونسلروں کی گرفتاری کی دھمکی کے حوالے سے لگائے جانے والے الزام سے متعلق فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے حکام سے فون پر رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظم شاہ نے اسے غلط اور بے بنیاد الزام قرار دیا۔
فون پر را بطہ کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور جذبہ خیر سگالی کے طور پر گوادر گئے تھے اور وہاں زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کی تھی تاکہ ان کی بات سن کر ان کے مسائل کا خوش اسلوبی سے حل نکالا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں کوئی احتجاج ہوتا ہے تو فوجی حکام کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا چائیے اور ان کے مسائل کو حل کیا جانا چاہیے ۔
انھوں نے کہا کہ اسی جذبہ خیرسگالی کے طورپر سکیورٹی فورسز کے اہلکار بلوچستان میں لوگوں کے مسائل کے حل میں پیش پیش ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے بھی گوادر کے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے ہیں اورآئندہ بھی کرے گی۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کہا کہ ہمارے سکیورٹی فورسز نہ صرف بلوچستان میں قیام امن کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں بلکہ ان کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اقدامات کررہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں جہاں کوئی جا نہیں سکتا ہے وہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار نہ صرف ہمارے بچوں کو تعلیم دینے کے کام کررہے ہیں بلکہ لوگوں کوصاف پانی کی فراہمی تک کے لیے بھی اقدامات کررہے ہیں۔
فرح عظیم شاہ نے کہا کہ بعض حلقے اور عناصر سکیورٹی فورسز کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان بے بنیاد الزامات کی جانب توجہ نہ دیں۔
متعلقہ عنوانات
Ú©ÙØ¦Ù¹Û Ú©Ùر Ú©ÙاÙÚر ÙÛÙÙ¹ÛÙÛÙÙ¹ جÙر٠آص٠غÙÙر ÙÛ Ø¯ÙرÛÙ Ú¯Ùادر Ú©Û Ø¯Ùرا٠ÙÙÙÙتخب Ú©ÙÙسÙرÙÚº Ø³Û Ø¨Ú¾Û ÙÙاÙات Ú©Û Ø¬Ø³ Ú©Û Ø¨Ø¹Ø¯ Ø§Ù Ø³Û ÙÙسÙب اÛÚ© ÙتÙازع ÙÛÚÛ٠بÛا٠Ùائر٠ÛÛÛ Ùگر اس بÛØ§Ù Ú©Û ØÙÛÙت Ú©Ûا ÛÛØ
www.bbc.com