Village life
BANNED
- Joined
- Oct 8, 2016
- Messages
- 1,713
- Reaction score
- -10
- Country
- Location
ملکی حالات کو دیکھ کر اور موجودہ مسائل جو کہ وطن عزیز کو درپیش ہیں ان کو دیکھ کر یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ کچھ نادیدہ دشمن قوتیں وطن عزیز کو اس نحج پر لے جا رہی ہیں جہاں جاکر ایک فیل اسٹیٹ کا خاکہ مکمل ہوتا ہے ،سیاستدان ہوں پارلیمان ہو بیوروکریسی ہو یا عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ ہو سب کے سب ادارے مکمل ناکامی اور بے بسی کی تصویر پیش کر رہے ہیں شاید کہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے اندر ایسے بیج بو دیے کہ ہمارے سارے کے سارے ادارے رفتہ رفتہ گر رہے ہیں تباہوبرباد ہورہے ہیں اور اپنی فرائض منصبی سے پہلو تہی کر رہے ہیں ،اب تو یہ مصرع بھی شاید پھیکا پڑ جائے کہ انجام گلستاں کیا ہوگا جب ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہوں،اس قوم کا کیا حال ہو سکتا ہے جہاں شر یف اور ایماندار لوگ اپنی عزتیں اور جان بچانے کی تگ و دو میں ہوں اور اول درجے کے بے ایمان لوگ اقتدار کی منزلیں طے کر کے قوم کو بھی اس قدر مفلوج اور مفلوک الحال کردی کہ قوم کی نسلوں کا سچائی ایمانداری حب الوطنی سے ایمان ہی اٹھ جائے اور صرف اور صرف یہ دکھایا جائے کہ طاقتور جھوٹا مکار ہی اس وطن عزیز میں کامیاب و کامران ہے پچھلے پندرہ بیس سالوں سے وطن عزیز میں ایک ایسی نفسیاتی جنگ کھیلی جا رہی ہے کہ نوجوان نسل نے اپنے آئیڈیل چینج کر لیے ہیں کسی زمانے میں شہداء علماء اعلی درجے کی انسان ہماری نسل کے آئیڈیل ہوتے تھے ستم ظریفی یہ کہ آج کوئی نہیں کہتا کہ میں بڑا ہو کر میجر طفیل شہید یا عزیز بھٹی بنوں گا یا ڈاکٹر عبدالقدیر بنوں گا یا علامہ اقبال بنوں گا بلکہ ہر کوئی کہتا ہے کہ میں امیر بنوں گا مال چائے حرام کا ہو یا حلال کا ہو میں طاقت حاصل کروں گا چاہے وہ ظلم و ستم سے ہو مادر وطن کو بیچ کر حاصل ہو مجھے ہر حال میں طاقتور ہونا ہے کیونکہ ہماری نسل کو بتایا ہی گیا ہے اس ملک میں وہی کامیاب ہے جو طاقتور ہے جو مالدار ہے اس نے یہ طاقتور کیسے حاصل کی اس سے کوئی سروکار نہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں قوم بحیثیت مجموعی پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جیتی ہے جہاں سے دوبارہ نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے، وطن عزیز کا حال اب یہ ہے کہ ہر ادارہ ہر شخص شتر مرغ کی طرح اپنی گردن ریت میں دھنسا کر خود کو محفوظ سمجھ رہا ہے اور اس تباہی سے بے خبر ہے جو کہ ہمارے اردگرد منڈلا رہی ہے،طاقتور افراد کا یا اداروں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ آپ نے فرائض منصبی حالات اور وقت کے مطابق پو ری قوت و تنگ دہی سے ادا کریں ہمارے ہاں یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی ہے نہیں کس ملک کا سب سے بڑا ادارہ جو کہ وسائل و طاقت بھی رکھتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ ہم نے خود تو کچھ نہیں کرنا نہ ہی کسی کو کچھ کرنے دینا ہے، جس قوم کو مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمان جیسا مہیا کروایا گیا ہو جس قوم کو آصف زرداری جیسا انقلابی اور شہیدوں کا وارث مہیا کروایا گیا ہںو جس قوم کو نواز شریف جیسا مکار بنیا کاروباری شخص پال پوس کر معاشی خوشحالی کاپیکر بنا کر پیش کیا گیا ہوں اور جس قوم میں شراب کی بوتلوں میں شہد رکھنے والے عقل سے عاری اول درجے کے زبان دراز ناچ گانے کروانے والے اور جھوٹ کو نئی ں توجیہات پیش کرنے والے اور یوٹرن کو انقلاب کی نوید کہنے والے ریاست مدینہ کے خواب دیکھ لائیں گے تو پھر اس قوم کے محافظوں کو فورتھ جنریشن یا ففتھ جنریشن وار فیر کی بات کرتے ہوئے یہ سوچ لینا چاہیے کہ آپ یہ جنگ بہت پہلے ہار چکے ہیں کیونکہ کوئی بھی ریاست کوئی بھی ملک مذکورہ بالا اخلاقی اقدار اور رہنماؤں کی موجودگی میں زیادہ دن اس جہاں میں قائم و دائم نہیں رہ سکتی یہ وہی لیڈر ہیں جو اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ہون تو یہ کب کے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں گل سہڈ کے مر چکے ہوتے شومئی قسمت کہ یہ لوگ آج ہمارے سر کے تاج بنا دیے گئے ہیں،ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو رہے ہیں کیونکہ انہوں نے بہت احتیاط سے دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ اعلی مقامات پر پہنچا دیے ہیں کہ وہ ہم کو اخلاقی معاشی اور مذہبی طور پر پستیوں کی انتہا میں لے جائیں گے اور ہم خود بخود ایک ناکام ریاست کے طور پر کھڑے ہونگے جہاں کسی دشمن کو ہم سے کوئی جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ،ففتھ جنریشن وارفیر کا ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ کرپٹ دی نیشن فرام ٹاپ،