pak-marine
ELITE MEMBER
- Joined
- May 3, 2009
- Messages
- 11,639
- Reaction score
- -22
- Country
- Location
حملہ جو شاید شاید شاید سب کچھ بدل دے
عامر احمد خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کی تاریخ میں پشاور کے سکول پر ہونے والا حملہ ایک تلخ یاد کے طور پر یاد رہے گا
جس ملک میں تیرہ برس میں ستر ہزار سے زیادہ افراد دہشت گرد حملوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہوں وہاں یہ کہنا آسان نہیں کہ کس واقع سے حالات بالکل نیا رخ اختیار کر گئے تھے۔
لیکن پشاور میں فوجی سکول پر سفاکانہ حملے کے بعد جس میں 100 سے زیادہ بچے ہلاک ہو گئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسے ملک کے لیے بالکل ایک نیا موڑ ہے جس پر کافی عرصے سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو ’سٹریٹیجک ایسٹ‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
پاکستان کے پالیسی ساز ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان سے لے کر القاعدہ کے دہشت گردوں تک کے متعلق کوئی حتمی منصوبہ بندی بناتے وقت جو چیز سب سے زیادہ آڑے آئی وہ مذہبی جنگجوؤں کے خلاف ’اتفاقِ رائے کی کمی‘ اور ’بہت زیادہ ہمدردی‘ کی موجودگی تھی۔
اور شاید یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود جنگجو گروہوں کے متعلق بلا تمیز آپریشن شروع کیا تو سیاسی ردِ عمل نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کا پیغام تھا کہ وہ چاہے پاکستانی طالبان ہوں، پنجابی طالبان، القاعدہ اور ان کے ساتھی یا پھر حقانی گروہ ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن ملک کی سیاسی قیادت نے زیادہ تر خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔
بہت امکان ہے کہ یہ رویہ اب بدل جائے۔
طالبان کو آج جو چاہیے تھا وہ انھوں نے حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے فوج کو اس جگہ زخم دیا ہے جہاں یہ زیادہ دکھتا ہے۔ آرمی ملک میں 128 سکول چلاتی ہے جن میں تقریباً 150,000 بچے پڑھتے ہیں، جن میں سے 90 فیصد سے زیادہ حاضر سروس فوجیوں کے بچے ہیں۔ اگرچہ یہ سکول فوجی چلاتے ہیں لیکن ملک کے دوسرے سکولوں کی طرح ان کی بھی کوئی خاص سکیورٹی نہیں ہوتی۔ پشاور میں ہونے والے ہولناک حملے سے لڑائی فوج کے گھر تک پہنچ گئی ہے۔
آرمی سکولوں میں زیادہ تر فوجیوں کے بچے پڑھتے ہیں
اس کے علاوہ دہشت گردوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ فوج کے ان دعووں کے باوجود کے شدت پسندوں کی حملے کرنے کی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے، وہ اب بھی موجود ہیں اور منصوبہ بندی اور جہاں چاہیں حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
طالبان کے لیے بونس یہ ہے کہ پشاور کے حملے کی بازگشت پاکستان کی سرحدوں سے باہر دور دور تک سنی گئی ہے۔
لیکن یہ ہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن صورتِ حال ثابت ہو سکتی ہے۔
پشاور کے سفاکانہ حملے سے طالبان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کا یہ کہنا کہ وہ ان کے پیچھے بلا تمیز جائیں گے کوئی سیاسی بیان نہیں تھا۔ پشاور میں ہونے والے ہر ایک سفاک حملے کے در پردہ ان کا غصہ اور مایوسی بھی نظر آتی ہے۔ ان میں سے کئی ایک یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ان کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے ایک دم بدل گئے ہیں۔ اس لیے آج کے المیے میں مشتبہ فوج کی بہتر ہوتی ہوئی ساکھ بھی نظر آ رہی ہے۔
جنرل راحیل شریف کو اس بات کا بھی احساس ہو گا کہ اگر فوج میں طالبان کے متعلق کوئی ہمدردی موجود تھی تو وہ بھی ملک بھر میں سینکڑوں غم زدہ فوجی خاندانوں کے آنسوؤں میں بہہ گئی ہو گی۔
لیکن شاید اس سیاہ منگل کا سب سے زیادہ اثر ملک کی لرزش زدہ سیاسی قیادت پر پڑے۔ آج قوم مرنے والوں کا سوگ منا رہی ہے۔ کل وہ اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھے گی کہ اب کیا کرنا ہے۔ یہ پاکستانی قیادت کا واضع ردِ عمل ہی ہو گا جو قوم کو اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی زندہ رکھ سکے گا۔
عامر احمد خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
- 30 منٹ پہلے
پاکستان کی تاریخ میں پشاور کے سکول پر ہونے والا حملہ ایک تلخ یاد کے طور پر یاد رہے گا
جس ملک میں تیرہ برس میں ستر ہزار سے زیادہ افراد دہشت گرد حملوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہوں وہاں یہ کہنا آسان نہیں کہ کس واقع سے حالات بالکل نیا رخ اختیار کر گئے تھے۔
لیکن پشاور میں فوجی سکول پر سفاکانہ حملے کے بعد جس میں 100 سے زیادہ بچے ہلاک ہو گئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسے ملک کے لیے بالکل ایک نیا موڑ ہے جس پر کافی عرصے سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو ’سٹریٹیجک ایسٹ‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
پاکستان کے پالیسی ساز ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان سے لے کر القاعدہ کے دہشت گردوں تک کے متعلق کوئی حتمی منصوبہ بندی بناتے وقت جو چیز سب سے زیادہ آڑے آئی وہ مذہبی جنگجوؤں کے خلاف ’اتفاقِ رائے کی کمی‘ اور ’بہت زیادہ ہمدردی‘ کی موجودگی تھی۔
اور شاید یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود جنگجو گروہوں کے متعلق بلا تمیز آپریشن شروع کیا تو سیاسی ردِ عمل نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کا پیغام تھا کہ وہ چاہے پاکستانی طالبان ہوں، پنجابی طالبان، القاعدہ اور ان کے ساتھی یا پھر حقانی گروہ ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن ملک کی سیاسی قیادت نے زیادہ تر خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔
بہت امکان ہے کہ یہ رویہ اب بدل جائے۔
طالبان کو آج جو چاہیے تھا وہ انھوں نے حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے فوج کو اس جگہ زخم دیا ہے جہاں یہ زیادہ دکھتا ہے۔ آرمی ملک میں 128 سکول چلاتی ہے جن میں تقریباً 150,000 بچے پڑھتے ہیں، جن میں سے 90 فیصد سے زیادہ حاضر سروس فوجیوں کے بچے ہیں۔ اگرچہ یہ سکول فوجی چلاتے ہیں لیکن ملک کے دوسرے سکولوں کی طرح ان کی بھی کوئی خاص سکیورٹی نہیں ہوتی۔ پشاور میں ہونے والے ہولناک حملے سے لڑائی فوج کے گھر تک پہنچ گئی ہے۔
آرمی سکولوں میں زیادہ تر فوجیوں کے بچے پڑھتے ہیں
اس کے علاوہ دہشت گردوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ فوج کے ان دعووں کے باوجود کے شدت پسندوں کی حملے کرنے کی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے، وہ اب بھی موجود ہیں اور منصوبہ بندی اور جہاں چاہیں حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
طالبان کے لیے بونس یہ ہے کہ پشاور کے حملے کی بازگشت پاکستان کی سرحدوں سے باہر دور دور تک سنی گئی ہے۔
لیکن یہ ہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن صورتِ حال ثابت ہو سکتی ہے۔
پشاور کے سفاکانہ حملے سے طالبان نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کا یہ کہنا کہ وہ ان کے پیچھے بلا تمیز جائیں گے کوئی سیاسی بیان نہیں تھا۔ پشاور میں ہونے والے ہر ایک سفاک حملے کے در پردہ ان کا غصہ اور مایوسی بھی نظر آتی ہے۔ ان میں سے کئی ایک یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ان کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے ایک دم بدل گئے ہیں۔ اس لیے آج کے المیے میں مشتبہ فوج کی بہتر ہوتی ہوئی ساکھ بھی نظر آ رہی ہے۔
جنرل راحیل شریف کو اس بات کا بھی احساس ہو گا کہ اگر فوج میں طالبان کے متعلق کوئی ہمدردی موجود تھی تو وہ بھی ملک بھر میں سینکڑوں غم زدہ فوجی خاندانوں کے آنسوؤں میں بہہ گئی ہو گی۔
لیکن شاید اس سیاہ منگل کا سب سے زیادہ اثر ملک کی لرزش زدہ سیاسی قیادت پر پڑے۔ آج قوم مرنے والوں کا سوگ منا رہی ہے۔ کل وہ اپنے رہنماؤں کی طرف دیکھے گی کہ اب کیا کرنا ہے۔ یہ پاکستانی قیادت کا واضع ردِ عمل ہی ہو گا جو قوم کو اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی زندہ رکھ سکے گا۔