علی معین نوازش
https://jang.com.pk/news/665034-ali-moeen-nawazish-column-1-8-2019
اوورسیز پاکستانی‘ پاکستان کے لیے، حکومت کے لیے، پاکستان تحریک انصاف کے لیے اور وزیراعظم عمران خان کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال پچھلے دنوں ہونے والا کیپٹل ایرینا میں وزیراعظم کا جلسہ بھی ہے۔ پاکستان کی معیشت ان اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجے جانے والی ترسیلاتِ زر پر کھڑی ہے لیکن ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، اس پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے۔
ایک مہینہ ہونے کو ہے، نئے بجٹ میں موبائل فون ٹیکس میں جو تبدیلی کی گئی، اس سے اوورسیز پاکستانی کافی پریشان ہیں۔ پچھلے سال موبائل فون کی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت نے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ جن موبائل فونز کو رجسٹرڈ نہیں کیا جائے گا اور ان پر ٹیکس نہیں ادا کیا جائے گا وہ پاکستان میں کسی بھی موبائل نیٹ ورک پر نہیں چل سکیں گے اور انہیں بلاک کر دیا جائے گا۔ اس میں اوورسیز پاکستانی مسافروں کے لیے یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ وہ ہر سال ایک فون ٹیکس دیئے بغیر رجسٹرڈ کروا سکیں گے۔ اس پر بھی کافی پاکستانیوں نے اختلاف کیا تھا کیونکہ جب وہ باہر سے آتے ہیں تو ان کے عزیز اکثر ان سے موبائل فون کی فرمائش کرتے ہیں، اپنے ذاتی موبائل فون اور دوسرے فونز پہ لاکھوں روپے ٹیکس وہ ادا نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں جو فون رجسٹر کرائے بغیر پاکستان لائے جاتے ہیں وہ تیس دن بعد خود ہی بلاک ہو جاتے ہیں۔
ہمارے اداروں کے ملازمین نے کیا کیا کہ ایئرپورٹ پر ملی بھگت سے اُن مسافروں کا ڈیٹا چوری کیا جو اپنے ساتھ موبائل فون نہیں لائے تھے۔ اس ڈیٹا سے انہوں نے اسمگل شدہ موبائل فونز کو مفت میں رجسٹرڈ کرنا شروع کر دیا۔ بہت سے مسافروں نے جب اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ ان کے نام پر تو پہلے ہی موبائل رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جبکہ وہ پہلے کوئی موبائل لائے ہی نہیں۔ تو جواباً حکومت نے کیا کیا؟ وہ جو حکومت کو ہمیشہ سب سے آسان لگتا ہے، اس نے بجائے اپنے اداروں میں کرپشن روکنے کے، اوورسیز پاکستانیوں سے یہ سہولت چھین لی اور اعلان کر دیا کہ اب ہر فون پر ٹیکس دینا لازمی ہوگا۔ اس تبدیلی کو بجٹ سے عائد کیا جا چکا ہے۔
30دن ہونے کو ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ فیس بک پر مجھے کوئی میسج نہ کرے کہ لوگ اس بات سے سخت پریشان ہیں۔ ایک لڑکے نے میسج کیا کہ اس کے والد بحرین میں کئی سال سے مزدوری کر رہے ہیں اور وہ تین سال بعد پاکستان آتے ہیں۔ اب کی بار جب وہ آئے اور ان تین برسوں میں اس کے امتحانات میں پاس ہونے سے لے کر سالگرہ وغیرہ پر غیر موجود ہونے کی وجہ سے اس کے لیے ایک موبائل فون لے کر آئے۔ اس کے والد صاحب اَن پڑھ ہیں، نہ ان کو کسی نے بتایا اور نہ انہیں پتا تھا کہ پاکستان میں موبائل فون رجسٹرڈ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارے بیشتر اوورسیز پاکستانی جو بیرونِ ملک محنت مزدوری کرتے ہیں، ڈرائیونگ کرتے ہیں یا ٹیکسی چلاتے ہیں ان کو اس بات کا علم ہی نہیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی کوشش کی گئی کہ ان کو یہ معلومات دی جائیں۔ تو ہوا یہ کہ اس ایک لاکھ کے فون پر 40ہزار ٹیکس ادا کرکے اسے رجسٹرڈ کروانا پڑ رہا ہے اور یہ اس کے والد کے لیے ممکن نہیں اور نہ وہ یہ موبائل فون پاکستان میں بیچ سکتے ہیں۔ اب واپس جاکر جب سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ میں موبائل بیچیں گے تو بھاری نقصان الگ سے برداشت کرنا پڑے گا۔
اس طرح ایک اسٹوڈنٹ کا میسج آیا کہ وہ بیرونِ ملک اسکالرشپ پر پڑھتی ہے، اس کا فون ٹوٹ گیا۔ اس نے ایک فون لے تو لیا کیونکہ بیرونِ ملک موبائل فون کے بغیر گزارا ممکن نہیں لیکن اب وہ اس بات پر پریشان ہے کہ جب وہ پاکستان واپس آئے گی تو یہ فون بلاک کر دیا جائے گا اور اس پر ٹیکس دینے کے پیسے اس کے پاس نہیں ہیں۔ اس نے ہرگز موبائل فون باہر سے نہیں لانا تھا لیکن اب یہ اس کی مجبوری بن گئی تھی۔
ایسے کئی لوگوں کے میسج آتے ہیں جو چالیس دن یا دو ماہ کی چھٹی پر پاکستان آئے اور ان کا موبائل فون تیس دن بعد چلنا بند ہوگیا۔ اب محض بیس، تیس دن کے لیے وہ اتنا بھاری ٹیکس ادا کریں؟ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ حکومت ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟اس کے ساتھ ساتھ ساتھ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں سے موبائل پر جو بھاری ٹیکس وصول کر رہی ہے اس سے وہ معاشی طور پر ہی پریشانی کا شکار نہیں ہو رہے بلکہ اس کے منفی نفسیاتی اثرات بھی ان پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک پریشانی یہ ہے کہ کس طرح ایئرپورٹ پر آکر انہوں نے فون رجسٹرڈ کرانا ہوگا؟ طویل پرواز کے بعد جب وہ پاکستان آئیں گے تو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے سے پہلے موبائل فون رجسٹریشن کرانے اور ٹیکس دینے کی قطاروں میں لگیں گے۔ پھر جس طرح کا سلوک ہمارے ادارے کرتے ہیں، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ یہ تو اب ہراسمنٹ کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے اور کچھ پیسے اکٹھے کرنے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جو اس بجٹ میں کیا ہے، اس سے شاید چند پیسوں کا فائدہ ہو جائے لیکن جو پیغام اوورسیز پاکستانیوں کو دیا جا رہا ہے اور جیسا ان کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے، یہ نہ ہو کہ ان چند پیسوں کے عوض مستقبل میں حکومت کو ایک بہت بھاری قیمت اس سلوک کی ادا کرنا پڑے۔ موبائل فون آج لگژری نہیں بلکہ بنیادی ضرورت بن گیا ہے اور حکومت کو یہ بات سمجھنا چاہئے
https://jang.com.pk/news/665034-ali-moeen-nawazish-column-1-8-2019
اوورسیز پاکستانی‘ پاکستان کے لیے، حکومت کے لیے، پاکستان تحریک انصاف کے لیے اور وزیراعظم عمران خان کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال پچھلے دنوں ہونے والا کیپٹل ایرینا میں وزیراعظم کا جلسہ بھی ہے۔ پاکستان کی معیشت ان اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجے جانے والی ترسیلاتِ زر پر کھڑی ہے لیکن ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، اس پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے۔
ایک مہینہ ہونے کو ہے، نئے بجٹ میں موبائل فون ٹیکس میں جو تبدیلی کی گئی، اس سے اوورسیز پاکستانی کافی پریشان ہیں۔ پچھلے سال موبائل فون کی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت نے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ جن موبائل فونز کو رجسٹرڈ نہیں کیا جائے گا اور ان پر ٹیکس نہیں ادا کیا جائے گا وہ پاکستان میں کسی بھی موبائل نیٹ ورک پر نہیں چل سکیں گے اور انہیں بلاک کر دیا جائے گا۔ اس میں اوورسیز پاکستانی مسافروں کے لیے یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ وہ ہر سال ایک فون ٹیکس دیئے بغیر رجسٹرڈ کروا سکیں گے۔ اس پر بھی کافی پاکستانیوں نے اختلاف کیا تھا کیونکہ جب وہ باہر سے آتے ہیں تو ان کے عزیز اکثر ان سے موبائل فون کی فرمائش کرتے ہیں، اپنے ذاتی موبائل فون اور دوسرے فونز پہ لاکھوں روپے ٹیکس وہ ادا نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں جو فون رجسٹر کرائے بغیر پاکستان لائے جاتے ہیں وہ تیس دن بعد خود ہی بلاک ہو جاتے ہیں۔
ہمارے اداروں کے ملازمین نے کیا کیا کہ ایئرپورٹ پر ملی بھگت سے اُن مسافروں کا ڈیٹا چوری کیا جو اپنے ساتھ موبائل فون نہیں لائے تھے۔ اس ڈیٹا سے انہوں نے اسمگل شدہ موبائل فونز کو مفت میں رجسٹرڈ کرنا شروع کر دیا۔ بہت سے مسافروں نے جب اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ ان کے نام پر تو پہلے ہی موبائل رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جبکہ وہ پہلے کوئی موبائل لائے ہی نہیں۔ تو جواباً حکومت نے کیا کیا؟ وہ جو حکومت کو ہمیشہ سب سے آسان لگتا ہے، اس نے بجائے اپنے اداروں میں کرپشن روکنے کے، اوورسیز پاکستانیوں سے یہ سہولت چھین لی اور اعلان کر دیا کہ اب ہر فون پر ٹیکس دینا لازمی ہوگا۔ اس تبدیلی کو بجٹ سے عائد کیا جا چکا ہے۔
30دن ہونے کو ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ فیس بک پر مجھے کوئی میسج نہ کرے کہ لوگ اس بات سے سخت پریشان ہیں۔ ایک لڑکے نے میسج کیا کہ اس کے والد بحرین میں کئی سال سے مزدوری کر رہے ہیں اور وہ تین سال بعد پاکستان آتے ہیں۔ اب کی بار جب وہ آئے اور ان تین برسوں میں اس کے امتحانات میں پاس ہونے سے لے کر سالگرہ وغیرہ پر غیر موجود ہونے کی وجہ سے اس کے لیے ایک موبائل فون لے کر آئے۔ اس کے والد صاحب اَن پڑھ ہیں، نہ ان کو کسی نے بتایا اور نہ انہیں پتا تھا کہ پاکستان میں موبائل فون رجسٹرڈ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمارے بیشتر اوورسیز پاکستانی جو بیرونِ ملک محنت مزدوری کرتے ہیں، ڈرائیونگ کرتے ہیں یا ٹیکسی چلاتے ہیں ان کو اس بات کا علم ہی نہیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی کوشش کی گئی کہ ان کو یہ معلومات دی جائیں۔ تو ہوا یہ کہ اس ایک لاکھ کے فون پر 40ہزار ٹیکس ادا کرکے اسے رجسٹرڈ کروانا پڑ رہا ہے اور یہ اس کے والد کے لیے ممکن نہیں اور نہ وہ یہ موبائل فون پاکستان میں بیچ سکتے ہیں۔ اب واپس جاکر جب سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ میں موبائل بیچیں گے تو بھاری نقصان الگ سے برداشت کرنا پڑے گا۔
اس طرح ایک اسٹوڈنٹ کا میسج آیا کہ وہ بیرونِ ملک اسکالرشپ پر پڑھتی ہے، اس کا فون ٹوٹ گیا۔ اس نے ایک فون لے تو لیا کیونکہ بیرونِ ملک موبائل فون کے بغیر گزارا ممکن نہیں لیکن اب وہ اس بات پر پریشان ہے کہ جب وہ پاکستان واپس آئے گی تو یہ فون بلاک کر دیا جائے گا اور اس پر ٹیکس دینے کے پیسے اس کے پاس نہیں ہیں۔ اس نے ہرگز موبائل فون باہر سے نہیں لانا تھا لیکن اب یہ اس کی مجبوری بن گئی تھی۔
ایسے کئی لوگوں کے میسج آتے ہیں جو چالیس دن یا دو ماہ کی چھٹی پر پاکستان آئے اور ان کا موبائل فون تیس دن بعد چلنا بند ہوگیا۔ اب محض بیس، تیس دن کے لیے وہ اتنا بھاری ٹیکس ادا کریں؟ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ حکومت ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟اس کے ساتھ ساتھ ساتھ حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں سے موبائل پر جو بھاری ٹیکس وصول کر رہی ہے اس سے وہ معاشی طور پر ہی پریشانی کا شکار نہیں ہو رہے بلکہ اس کے منفی نفسیاتی اثرات بھی ان پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک پریشانی یہ ہے کہ کس طرح ایئرپورٹ پر آکر انہوں نے فون رجسٹرڈ کرانا ہوگا؟ طویل پرواز کے بعد جب وہ پاکستان آئیں گے تو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے سے پہلے موبائل فون رجسٹریشن کرانے اور ٹیکس دینے کی قطاروں میں لگیں گے۔ پھر جس طرح کا سلوک ہمارے ادارے کرتے ہیں، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بلکہ یہ تو اب ہراسمنٹ کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے اور کچھ پیسے اکٹھے کرنے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جو اس بجٹ میں کیا ہے، اس سے شاید چند پیسوں کا فائدہ ہو جائے لیکن جو پیغام اوورسیز پاکستانیوں کو دیا جا رہا ہے اور جیسا ان کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے، یہ نہ ہو کہ ان چند پیسوں کے عوض مستقبل میں حکومت کو ایک بہت بھاری قیمت اس سلوک کی ادا کرنا پڑے۔ موبائل فون آج لگژری نہیں بلکہ بنیادی ضرورت بن گیا ہے اور حکومت کو یہ بات سمجھنا چاہئے