Bhabi of judiciary won the case - assets beyond income means
سرینا عیسیٰ نظر ثانی کیس کا فیصلہ: سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا
- شہزاد ملک
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
اپ ڈیٹ کی گئی 47 منٹ قبل
،تصویر کا ذریعہASAD ALI TOOR
سپریم کورٹ نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ عدالت نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور اب نو ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے دس رکنی لارجربینچ نےچھ چارکے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا اور عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سریناعیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے فیصلہ تحریر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کےجج سمیت کوئی قانون سے بالاترنہیں، کوئی بھی چاہے وہ اس عدالت کاجج کیوں نہ ہو اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیاجا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کاحق رکھتا ہے جب کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججزبڑوں بڑوں کےخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پوراحق نہیں دیاگیا، آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کابنیادی حق ہے لہٰذا صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، قانون کےمطابق فیصلوں سےہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔
،تصویر کا ذریعہSUPREME COURT OF PAKISTAN
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انھیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں جب کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بھیجا جاسکتا۔ فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی پرایف بی آرکے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہو گی، ایسا بھی ممکن تھا، چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہو جاتے، جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کےحق میں بھی آسکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر رپورٹ تسلیم نہ کرتی۔
سپریم کورٹ نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ عدالت نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور اب نو ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے دس رکنی لارجربینچ نےچھ چارکے تناسب سے سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا اور عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سریناعیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں اکثریت سے منظور کی جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے فیصلہ تحریر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کےجج سمیت کوئی قانون سے بالاترنہیں، کوئی بھی چاہے وہ اس عدالت کاجج کیوں نہ ہو اسے قانونی حق سے محروم نہیں کیاجا سکتا، ہر شہری اپنی زندگی، آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق قانون کے مطابق سلوک کاحق رکھتا ہے جب کہ آئین کے آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے، کھلی عدالت شیشے کے گھر جیسی ہے، ججزبڑوں بڑوں کےخلاف کھل کر فیصلے دیتے ہیں۔فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سرینا عیسیٰ سے بیان میں معاملہ ایف بی آر بھیجنے کا نہیں پوچھا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پوراحق نہیں دیاگیا، آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہرخاص وعام کابنیادی حق ہے لہٰذا صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، قانون کےمطابق فیصلوں سےہی عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا۔
،تصویر کا ذریعہSUPREME COURT OF PAKISTAN
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کی اہلیہ کے آزادانہ ٹیکس معاملات میں انھیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں، ان کے ٹیکس کا 184/3 سے کوئی تعلق نہیں جب کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بھیجا جاسکتا۔ فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی پرایف بی آرکے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہو گی، ایسا بھی ممکن تھا، چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ پر جسٹس فائز عیسیٰ برطرف ہو جاتے، جج کی برطرفی کے بعد ایف بی آر کے خلاف اپیل سرینا عیسیٰ کےحق میں بھی آسکتی تھی، برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کا فیصلہ ہونے تک جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، ایسا بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر رپورٹ تسلیم نہ کرتی۔
یہ بھی پڑھیئے
سرینا عیسیٰ کے بیان سے مطمئن ہیں مگر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی کرے گی: سپریم کورٹ
سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر میں جمع کروائے گئے جواب میں کیا کہا ہے؟
ایف بی آر کا سرینا عیسیٰ کو ساڑھے تین کروڑ روپے ٹیکس جمع کروانے کا نوٹس
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے۔
آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کےخلاف شکایت درج نہیں کرا سکتے جبکہ چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کےخلاف شکایت ہی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، ججز کے خلاف کارروائی صدر پاکستان کی سفارش پرسپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کاٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔ مرکزی کیس میں بھی جسٹس قاضی فائز اور ان کی اہلیہ کا مکمل مؤقف نہیں سنا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ کسی ایک جج کےخلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔
سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر میں جمع کروائے گئے جواب میں کیا کہا ہے؟
ایف بی آر کا سرینا عیسیٰ کو ساڑھے تین کروڑ روپے ٹیکس جمع کروانے کا نوٹس
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے۔
آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کےخلاف شکایت درج نہیں کرا سکتے جبکہ چیئرمین ایف بی آرکی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کےخلاف شکایت ہی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، ججز کے خلاف کارروائی صدر پاکستان کی سفارش پرسپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کاٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔ مرکزی کیس میں بھی جسٹس قاضی فائز اور ان کی اہلیہ کا مکمل مؤقف نہیں سنا گیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ کسی ایک جج کےخلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے۔
جسٹس ÙØ§Ø¶Û Ùائز عÛسÛÙ° Ú©Ûس: ÙÙاÙÛ ÙزÛر ÙاÙÙÙ ÙرÙغ ÙسÛÙ ÙÛ Ø³Ù¾Ø±ÛÙ Ú©Ùرٹ Ú©Û ØªÙصÛÙÛ ÙÛصÙÛ Ú©Ù ØªØ¶Ø§Ø¯Ø§Øª کا ØاÙÙ Ùرار دÛا ÛÛ - BBC News اردÙ
Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û Ø³Ù¾Ø±ÛÙ Ú©Ùرٹ Ú©Û Ø¯Ø³ رکÙÛ Ùارجر بÛÙÚ ÙÛ ÚÚ¾ Úار Ú©Û ØªÙاسب Ø³Û Ø³Ø±ÛÙا عÛØ³Û Ú©Û ØÙ ÙÛÚº تÙصÛÙÛ ÙÛصÙÛ Ø³ÙاÛØ§Ø Ø¬Ø³ ÙÛÚº جسٹس ÛØÛ Ø¢ÙرÛØ¯Û ÙÛ Ø§Ø¶Ø§ÙÛ ÙÙÙ¹ ÙÛÚº Ùکھا Ú©Û Ø´Ûزاد اکبر اÙر ÙرÙغ ÙسÛ٠سرÛÙا عÛسÛÙ° Ú©Û Ø®Ùا٠ÙÙدÙÛ...
www.bbc.com