sherdil76
FULL MEMBER
- Joined
- Mar 2, 2007
- Messages
- 386
- Reaction score
- 0
I and seeking clearification from you uys if anyone has solid proofs, actually recently read some articles about Mr. Zaid Hamid of Brasstack saying he is non believer and once close friend and advocated the slain Yousaf Ali Kazab who was convicted for a famous blasphemy case in August 2000.
following is a letter written by his friend about him. after reading such I am in serious doubts as i was following him since his first programme on tele.
in this time of chaos around the globe its very difficult to find people to trust on, and this media is the best weapon to bluff people.
wassalam
following is a letter written by his friend about him. after reading such I am in serious doubts as i was following him since his first programme on tele.
جسارت کے ان صفحات پر ڈاکٹر فیاض عالم کے زید (زمان حامد سے متعلق مضامین چھپے جن پر کچھ قارئین کا بہت سخت ردعمل آیا۔ جن دنوں یہ مضامین چھپے ہمیں بھی دستیاب معلومات کی بنیاد پرکچھ لکھنے کا خیال آیا۔ لیکن زید حامد کے متاثرین کا، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، سخت ردعمل دیکھتے ہوئے ارادہ ترک کردیا اور اس مسئلے پر تحقیق شروع کردی۔ یوٹیوب پر ان کے پروگرام بھی دیکھے اور مختلف ناموں سے چھپنے والے ان کے مضامین اور تجزیاتی رپورٹوں کا مطالعہ شروع کیا۔ زید حامد جو کچھ کہتے ہیں اس سے کلی طور پر اتفاق ممکن نہیں۔ تاہم ان کے ماضی اور اس کے صحیح ہونے پر اصرار کو دیکھتے ہوئے ان کی صحیح باتیں بھی تحقیق کی متقاضی ہیں۔ زید حامد کے خیالات سے متاثر جسارت کی ایک قاری کا استدلال ہے کہ ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کلیہ غلط ہے اگر غلط نہ ہوتا تو جب کفارِ مکہ نے یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہا کہ آپؓ کے دوست محمد(صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہےں کہ وہ رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجداقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے آئے ہیں؟ ابوبکر صدیق ؓ نے بغیر کسی تامل کے یہ کیوں کہہ دیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں تو سچ کہہ رہے ہیں۔ اس گواہی پر سیدنا ابوبکر ؓکو قرآن نے صدیق کا لقب دیا۔ کیا اتنی بڑی گواہی دینے سے قبل ابوبکر ؓ نے اس دعوے کو عقل کی بنیاد پر پرکھا؟ یا یہ دےکھ کر گواہی دی کہ کون کہہ رہا ہے؟ خود اللہ نے اُس وقت تک کسی نبی پر نبوت کی ذمہ داری نہیں ڈالی جب تک اس کے اخلاق اور کردار کی گواہی اُس زمانے کے لوگوں نے نہیں دی۔ اور نبوت کے اعلان سے قبل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کے سامنے جو سوال رکھا وہ بھی ہم سب کو یاد ہے۔ تو پھر ہم کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے؟ ٹی وی ون کے مرد ِمومن کے یوسف کذاب ملعون کے ساتھ تعلق کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہےں۔ فی الوقت اس کالم کے ذریعے آپ کو یوسف کذاب، زید حامد اور ان کے فرقہ¿ باطنیہ کے دو نواجون تائبین سے ملواتے ہیں جنہوں نے برسوں اس فرقے کے لیے کام کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص کرم کیا اور ان کو ہدایت نصیب ہوئی۔ یوسف کذاب کے مقرب خاص اور زید حامد کے دوست رضوان طیب کے بھائی منصور طیب کہتے ہیں: میں زید حامد کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب اس کا یوسف علی سے تعلق نہیں بنا تھا۔ زید 1988ءکے انتخابات میں بہت سرگرم تھا۔ 1989ءمیں اس نے ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا اور اس کے لیے ایک وڈیو فلم بھی تیار کی تھی۔ اس نمائش کا اہتمام علاقہ سوسائٹی میں مختلف مقامات پر کیا گیا۔ اُس زمانے میں یہ مختلف جہادی رہنماﺅں کے ترجمان کی صورت میں بھی نظر آیا۔ اس کی شخصیت سے ہم بہت زیادہ متاثر تھے۔ یہ اپنے آپ کو بہت بڑا جہادی رہنما سمجھتا تھا۔ اُس زمانے میں اس نے افغان جہاد کے حوالے سے ایک وڈیو فلم قصص الجہاد بھی تیار کی۔ پھر 1993ءمیں جہادِ افغانستان ختم ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب اس نے تمام مجاہد رہنماﺅں کو گالیاں دینی شروع کردیں۔ 1993-94ءمیں یہ لاہور سے اپنے ساتھ یوسف کذاب کو لے آیااور اس کو علاقہ سوسائٹی کے تحریکی ساتھیوں سے متعارف کرایا اور کہا کہ یہ ایک بزرگ ہے جو صرف ذکر کی بات کرتا ہے۔ اگر کوئی سوا لاکھ دفعہ ورد کرے گا تو اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوجائے گا۔ میرے بڑے بھائی رضوان طیب یوسف علی کے خاص مقربین میں شامل ہوگئے تھے اس وجہ سے یوسف علی اور زید زمان میرے گھر آتے تھے۔ زید زمان جس کا پہلے سے ہمارے گھر آنا جانا تھا یوسف کذاب کو ہمارے گھر لے آیا تھا۔ اُس زمانے میں علاقہ سوسائٹی کے جمعیت اور جماعت سے متاثر اور متعلق تین درجن سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ میرے بھائی تو اس حد تک متاثر تھے کہ انہوں نے ہماری دکان کا ایک حصہ بیچا اور یوسف کذاب کو ایک گاڑی خرید کر دی اور لاکھوں روپے نقد دیئے۔ زید حامد یوسف کذاب کا مقرب اوّل تھا اس لیے پیسوں کی وصولی وہ کرتا تھا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ زید زمان نے خود اپنی جیب سے ایک ہزار روپے بھی نہیں دیئے ہوں گے۔ یوسف کذاب کو جو رقم دی جاتی تھی اس کو مختلف وقتوں اور مواقع کے حساب سے کبھی تحفے کا نام دیا جاتا تھا اور کبھی نذر و نیاز کا۔ زید حامد نے مجھے یوسف کذاب کے نظریات پر مبنی پمفلٹ دیے اور مختلف مساجد کے باہر تقسیم کرنے کو کہا۔ ہمارا پورا گھرانا اس چکر میں پڑگیا تھا لیکن میرے بڑے بھائی رضوان طیب کے سوا سب یوسف کذاب اور زید زمان کے شر سے محفوظ رہے۔ میرا مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کا اچھا خاصا مطالعہ تھا۔ یہ مطالعہ شاید اس فتنے سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کروایا تھا۔ مجھ سے کبھی بھی زید زمان اور یوسف کذاب کی باتیں اور اس کی شخصیت ہضم نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ کسی کے گھر پر نمازکی امامت کرتے ہوئے یوسف کذاب کی کال آئی۔ وہ نماز چھوڑ کرکافی دیر تک موبائل پر باتیں کرتا رہا، سب نمازی ہاتھ باندھ کر اس کا انتظار کرتے رہے جب اس نے سکون سے بات مکمل کرلی تب آیا اور باقی نماز مکمل کی۔ اس کی جماعت میں خواتین اور حضرات ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔ یہ اپنی طرز کی مخلوط نمازیں ہوتی تھیں۔ میرے بھائی کو بھی بالآخر اس بات کا احساس ہوگیا کہ یہ سب کچھ غلط تھا۔ سوچ سوچ اُن کی دماغی حالت خراب ہوگئی۔ آج بھی وہ زید زمان اور یوسف کذاب کو گالیاں دیتے ہیں۔ ان کا علاج ذہنی امراض کے معالج ڈاکٹر مبین اختر کے پاس چل رہا ہے۔ ہم تو فرقہ باطنیہ کے دست و بازو بن بیٹھے تھے یہ تو اللہ کا کرم تھا کہ اس نے ہدایت دی۔ میری تمام مسلمانوں خصوصاً مذہبی فکر اور تحریکوں سے وابستہ لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اس فتنے کا ادراک کریں اور زید زمان کی صورت میں یوسف کذاب کی دوسری انٹری کو ناکام بنادیں تاکہ لوگ گمراہ نہ ہوں۔ سعد موٹن منصور طیب کے بڑے بھائی اور یوسف کذاب کے خاص مقرب رضوان طیب کا دوست تھا۔ علاقہ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والا سعد شروع ہی سے مذہبی رجحان رکھتا تھا، اس لیے وہ رضوان طیب کے ذریعے اس فرقہ باطنیہ کے قریب آیا۔ اس کے ساتھ پانچ سال رہا لیکن اس کے دل نے کبھی اس فرقے کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے بالآخر وہ اس فرقے سے الگ ہوگیا اور پھر اللہ نے اس کو اس فرقے کے خلاف کام کرنے کی توفیق دی۔ سعد موٹن کہتا ہے: زید زمان سے میرا تعارف رضوان طیب نے کرایا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب افغان جہاد کے آخری دن چل رہے تھے اور طالبان کابل کو فتح کرکے وہاں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔ کراچی سے کچھ لوگ تیار ہوکر افغان جہاد میں حصہ لینے جارہے تھے۔ جب طالبان کی حکومت بنی تو کچھ لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں بھی طالبان کی طرز پر خلافت قائم کی جائے۔ مذہبی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے یہ کہنا ہی کافی تھا۔ اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے! رضوان طیب کی اسلامک سینٹر کے پلیٹ فارم پر زید زمان سے ملاقات ہوئی۔ پھر یہ دنوں مسلم ایڈ کے لیے کام کرنے لگے اور میں بھی ان کے ساتھ مل گیا۔ مسلم ایڈ کا کارڈ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں ان کے ساتھ فنڈز اکٹھا کرتا تھا۔ ہم نے افغان جہاد کے حوالے سے ایک مووی قصص الجہاد کے نام سے تیار کی تھی۔ زید زمان اس کا ڈائریکٹر تھا۔ اس سی ڈی کی سیل کی ذمہ داری میری تھی۔ اس کے بعد زید زمان کی ملاقات یوسف کذاب سے ہوئی۔ یہ اس کو کراچی لے آیا۔ رضوان طیب، سہیل احمد اور عبدالواحد کراچی میں اس کے شروع کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ان لوگوں نے خلافت کا آسرا دے کر کراچی سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور جمعیت اور جماعت کے لوگوں کو ٹارگٹ بنایا۔ ہر آدمی کو اس کے رجحان کے حساب سے گھیرنے کی حکمت عملی وضع کی گئی۔ اگر کوئی جہاد سے متاثر تھا تو اس کو اس حوالے سے راغب کرنے کی کوشش کی۔ کوئی کسی اور فکر سے وابستہ تھا تو اس کو قریب لانے کے لیے اس فکر کے قصیدے پڑھے گئے۔ مذہب کو بنیاد بنایا گیا اور تاثر دیا گیا کہ ان کا مقصد خلافت کا قیام ہے۔ اس کے بعد کراچی میں نشستوں کا انعقاد شروع کیا گیا۔ یہ لوگ یوسف کذاب کو حضرت کہتے تھے۔ اس کو ان نشستوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس نے شروع میں اپنے آپ کو عاشقِ رسول کہنا شروع کیا۔ پھر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی باتیں کرنے لگا۔ پھر کہنے لگا کہ محمد کا نور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک رہے گا۔ یہ نور کسی بشر کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے خاص بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک خاص طریقہ کار سے حاصل ہوتی ہے۔ اُس وقت تک اس نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ موجودہ دور میں وہ بشر (نعوذباللہ وہ خود ہے۔ جو لوگ اس کی گرفت میں آجاتے تھے اُن کے متعلق وہ کہتا تھا کہ یہ آگے درجے کے ہوگئے ہیں۔ وہ اس موقع پر کہا کرتا تھا: اقبال تیری دید کی آج عید ہوگئی کہ یار لباسِ بشر میں آن ملا وہ دعویٰ کرتا تھا کہ یہ اقبال کا غیر مطبوعہ شعر ہے جس پر حکومت ِہند نے پابندی عائد کردی تھی۔ ایک خاص وظیفے کے بعد یہ اپنے پیروکار کو بشارت دیتا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی عاجزی کو قبول فرمایا ہے، اس لیے وہ لباسِ بشر میں یعنی (نعوذباللہ یوسف کذاب کی صورت میں حاضر ہے۔ اور اس طرح یہ خودکو محمد ظاہر کرتا تھا۔ مجھے کافی عرصے تک ذکر کرایا گیا۔ میرا تعلق چونکہ مذہبی گھرانے سے ہے اس لیے بہت ساری باتیں مجھ سے ہضم نہیں ہوتی تھیں۔ کئی مرتبہ مخلوط محفلوں پر اعتراض کی وجہ سے کہا گیا کہ اس کو نشستوں میں نہ لایا جائے۔ میرا دل کھٹکتا تھا کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ قرآن کے سات ترجمے اتارے گئے جس میں ایک صرف ان لوگوں کے پاس محفوظ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یوسف کذاب کے کام کے لیے پنڈی کے زید حامد اور کراچی کے رضوان طیب، سہیل احمد اور عبدالواحد کو خاص ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ ان کو (نعوذباللہ صحابیوں کے درجوں سے نوازا گیا تھا۔ ان لوگوں کا اصل مقصد پیسے بٹورنا عقائد کو بگاڑنا اور مریدوں کو خواتین کی طرف راغب کرنا تھا۔ ہر محفل مخلوط ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ نمازیں بھی مخلوط ہوتی تھیں۔ خواتین اور مردوں کو ایک مقام دیا جاتا تھا۔ایلیٹ گھرانوں کی خواتین ان کی طرف راغب ہوتی تھیں۔ان محفلوں میں عشق و محبت کی باتیں ہوتی تھیں، عشقیہ اشعار سنائے جاتے تھے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو صاحب ِمال اور صاحب ِاثر و رسوخ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، فوج اور بیوروکریسی کے لوگ اس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ بیعت کرنے والوں کو اہلِ بیت کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ پابند ہوتے تھے کہ اپنے مال کا ایک حصہ جمع کرائےں۔ یوسف کذاب کی کراچی آمد پر جشنِ آمد ِ حضرت کے نام سے تقریب منعقد کی جاتی تھی۔ قیام و طعام کا اہتمام ہوتا تھا۔ قیمتی تحائف دینے پڑتے تھے۔ ایک خاص قیمت سے کم کے تحائف قبول نہیں کیے جاتے تھے۔ محفلوں میں عام لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ جو ان کے عقیدے سے اختلاف کرتا تھا وہ نقصان اُٹھاتا تھا۔ لوگ اس حد تک یوسف کذاب کے عشق میں مبتلا تھے کہ اپنی بیٹیاں اور بیویاں پیش کردی تھیں۔ تقریباً ڈھائی سو خواتین نے اپنے شوہروں سے طلاق لیے بغیر نئی شادیاں کرلیں۔ یوسف کذاب اپنے اہلِ بیت سے کہتا تھا کہ نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو میرے پاس بھیجو۔ اس عمل کو معراج کے سفر کا نام دیا جاتا تھا۔ خواتین گھنٹوں اُس کے ساتھ خلوت میں رہتی تھیں۔ اگر کوئی ان بے ہودگیوں کو دیکھ کر انہیں غلط کہتا تو اس کا انجام برا ہوتا تھا۔1994ءمیں ایک نوجوان نے علی الاعلان یوسف کذاب کو برا بھلا کہا۔ اس کا قتل ہوا۔ اس قتل کو ڈکیتی کہا گیا۔ لیکن یہ ایک ایسی ڈکیتی تھی جس میں اس نوجوان کے پیسے چھینے گئے اور نہ ہی اس کی موٹر سائیکل۔ جب بیت المکرم مسجد میں اس کی نمازہ جنازہ پڑھی جارہی تھی اُس وقت یوسف کذاب ایک مقرب کی شادی میں شریک تھا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس فرقے کا ہدف ہوا کرتے تھے۔ میرے دل ودماغ نے کبھی اس کو قبول نہیں کیا، لیکن پھر بھی پانچ سال تک ان لوگوں کے ساتھ رہا۔ شاید ڈر کی وجہ سے کہ کہیں مارا نہ جاﺅں، یا پھر شاید اللہ نے اس لیے مجھے ان کے ساتھ رکھا تاکہ ان کو قریب سے دیکھوں اور معاشرے پر یہ سب کچھ واضح کردوں کہ یہ لوگ کون ہیں۔ میں نے مختلف مکاتب فکر کے علماءسے رابطہ کیا، سب نے ان لوگوں کو گمراہ کہا۔ آخر میں اس کے جرائم افشا ہوئے اور تحریک ختم نبوت نے یوسف کذاب کے خلاف کیس کیا۔ مقدمہ چلا اس مقدمے کے دوران یوسف کذاب کو بچانے کے لیے یہ زید حامد ہی دوڑ دھوپ کرتا رہا۔ کبھی بااثر لوگوں سے ملتا اور کبھی اخبارات میں خطوط لکھتا۔ یوسف کذاب کو عدالت نے سزائے موت سنائی، 13اگست 2000ءکو زید حامد نے روزنامہ ڈان میں ایک خط لکھا اور عدالت کے فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا۔ اس کی ضمانت کی کوششیں جاری تھیں کہ ایک قیدی نے اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یوسف کذاب کے ختم ہونے کے بعد زید زمان حامد غائب ہوگیا۔ اور پھر صرف زید حامد کے نام سے نمودار ہوا۔ اور پھر براس ٹیکس پروگرام میں سامنے آیا۔ آج اس کے ساتھیوں میں وہی لوگ شامل ہیں جو یوسف کذاب کے ساتھی تھے۔ آج انٹرنیٹ پر اس کو سپورٹ کرنے والے اور اس کی ویب سائٹ براس ٹیکس چلانے والے یہی لوگ ہیں۔ یہ بہت اچھی اچھی باتیں کرکے لوگوں کو راغب کررہا ہے۔ یوسف کذاب نے بھی یہی کیا تھا۔ کذاب نے اس کو اپنے صحابیوں میں ابوبکر کا درجہ دیا تھا۔ زید حامد کے اصل خیالات وہی ہےں۔ آج انٹرنیٹ اور ای امیل کے ذریعے جب اس سے یوسف کذاب سے تعلق اور اس کے موجودہ نظریات کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو یہ کوئی جواب دینے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آتا ہے۔ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ میں نے صدق دل سے توبہ کی اور پھر ان لوگوں کے خلاف کام کیا۔ اللہ ہمیں معاف کردے اور ان دجالوں کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے دوست رضوان طیب کے لیے دعا کریں کہ اللہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک کردے اور اس کو معاف فرمائے۔ آمین قارئین آپ نے منصور طیب اور سعد موٹن کی کہانی ان کی زبانی پڑھ لی۔ یہ لوگ آج بھی موجود ہیں۔ یوسف کذاب اور زید حامد کے ڈسے ہوئے اور بھی ہیں۔ موقع ملا تو ان کو بھی اس کالم کے ذریعے آپ سے مخاطب کرائیں گے۔ آپ کو ان سے کچھ پوچھنا ہو تو ای میل کرسکتے ہیں۔ بالمشافہ بھی مل سکتے ہیں۔ زید حامد کے یوسف کذاب سے تعلق کے ناقابل تردید شواہد بہت زیادہ ہےں۔ پھر کسی کالم میں لاہور کی عدالت میں دائر یوسف کذاب کے خلاف کیس کی سماعت کے اقتباسات درج کریں گے۔ اگر آپ اصل دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور دورِحاضر کے دجالی فتنوں سے بچائے۔ آمین[/B]
in this time of chaos around the globe its very difficult to find people to trust on, and this media is the best weapon to bluff people.
wassalam
Last edited: