cranwerkhan
FULL MEMBER
- Joined
- Oct 4, 2014
- Messages
- 290
- Reaction score
- -1
- Country
- Location
Sorry for the Urdu only.
سرکاری دفاتر میں پیسے بنانے کی ایک خاص ٹیکنیک استعمال ہوتی ہے جو کچھ یوں ہے:
اگر کسی کا کوئی پراجیکٹ یا کوئی بھی دوسرا کام پھنسا ہوا ہے، تو پہلے اسے سرکاری پراسیس کی گھمن گھیریوں میں الجھایا جاتا ہے، اسے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز دکھا کر ڈرایا جاتا ہے، درجنوں قسم کے ڈاکومنٹس جمع کروانے کو کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ جرمانہ اور فیس کی رقم بھی دکھائی جاتی ہے جو کہ اچھی خاصی ہوتی ہے۔
اس سارے عمل کا مقصد سائل کو اس کے کام کی حقیقی لاگت یعنی قیمت سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
پھر جب سائل کو اپنے کام کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہوجاتا ہے تو پھر ایک دن چپکے سے کوئی کلرک یا قاصد اس سے رابطہ کرتا ہے اور مطلوبہ لاگت کا صرف دس فیصد مانگ کر کام پورا کروانے کا وعدہ کرتا ہے۔ جب وہ سائل مان جاتا ہے تو پھر اگلے ہی دن اس کی درخواست پر موجود تمام اعتراضات ایک ایک کرکے ختم ہوجاتے ہیں، جو سرکار کی طرف سے جرمانے کا تخمینہ ہوتا ہے، وہ بھی کم ہوجاتا ہے ۔ ۔ ۔ یوں سائل کا کام صرف دس فیصد ادائیگی سے ہی ہوجاتا ہے اور یہ ادائیگی بجائے سرکاری خزانے میں جمع ہونے کے، افسران کی جیب میں جاتی ہے۔
بالکل یہی معاملہ نوازشریف کے ساتھ بھی ہوا۔
یہ تو سب جانتے تھے کہ نوازشریف ایک سال بھی جیل میں نہیں نکال سکتا، اور اس نے پچھلے سال جولائی سے ہی ڈیل کی کوششیں شروع کردی تھیں ۔ ۔ ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مریم صفدر رہائی کے بعد کئی مہینوں تک ٹویٹر سے دور رہی، کیونکہ اس وقت ڈیل کی کوششیں جاری تھیں۔
عمران خان کی طرف سے واحد شرط یہ عائد کی گئی کہ لوٹی ہوئی رقم واپس کی جائے جو کہ کم از اتنی تو ہو کہ ہمارا ایک سال کا غیرملکی سود ادا ہوسکے۔شہبازشریف حکومت کے ساتھ گفت و شنید کرتا رہا، پھر اچانک اس نے یہ شرط عائد کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائیندے کو بھی گفت و شنید میں شامل کرنا چاہتا ہے تاکہ یہ گارنٹی ہو کہ جو بھی ڈیل ہوگی، اسے پورا کیا جائے گا۔
عمران خان نے یہ بات مانتے ہوئے اپنے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ کسی سینئر رینک کے افسر کو بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے۔اس کیلئے ایک میجر جنرل صاحب کو مذاکرات میں شامل کرلیا گیا۔
اس کے چند ہفتوں بعد شریف خاندان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ بھی آن بورڈ ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ رقم کی ادائیگی کردیں اور بعد میں پتہ چلے کی عدلیہ نے رہا کرنے سے انکار کردیا۔
یہ شرط میجر صاحب نے مانتے ہوئے اعلی عدلیہ کے ایک نمائیندے کو بھی مذاکرات میں شامل کرلیا۔
بات آگے بڑھی۔ حکومت کی طرف سے دس ارب ڈالرز سے کم پر کوئی سہولت دینے سے انکار کردیا گیا۔
شریف خاندان نے جب حکومتی ضد دیکھی تو آٹھ ارب ڈالر تک پر آمادگی ظاہر کردی۔
یہی وہ وقت تھا جب دوسری گیم شروع ہوگئی۔
جب دیکھا گیا کہ شریف خاندان آٹھ ارب ڈالر تک دینے کو تیار ہے، تو پھر ان سے اس کاپچیس فیصد، یعنی صرف دو ارب ڈالر کی عوض نوازشریف کی رہائی کی آفر کی گئی۔ یہ ایک سائیڈ آفر تھی جو کہ ایک ٹاؤٹ کے ذریعے کی گئی۔
حکومت عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی اجازت دیتی گئی اور یہ دونوں ادارے اپنی گیم کھیلنا شروع ہوگئے۔
ابتدائی مرحلے میں نوازشریف کی طرف سے 430 ملین ڈالرز حکومت کو جمع کروا کر اسے جیل سے رہائی دلائی گئی۔
اگلے مرحلے میں معاہدے کے مطابق نوازشریف نے اقساط میں باقی رقم جمع کروانی تھی لیکن اب کی بار اسٹیلشمنٹ اور عدلیہ نے اپنا کمیشن کھرا کرنے کا سوچا اور نوازشریف کے ساتھ میز کے نیچے ڈیل کرکے دو ارب ڈالرز بنائے اور اسے اطہرمن اللہ براستہ لاہور ہائیکورٹ، لندن پہنچا دیا۔
دو ارب ڈالرز ۔ ۔ ۔ یعنی دو ہزار ملین ڈالرز ۔ ۔ ۔ ایک ملین ڈالر پندرہ کروڑ روپے بنتا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی 30 ہزار کروڑ ۔ ۔ ۔
یہ رقم مجموعی طور پر تیس لوگوں میں تقسیم ہو تو فی بندہ ایک ہزار کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اب آپ خود ہی بتائیں، کون کافر ہوگا جو یہ آفر ٹھکراتا؟
اب پنچھی اڑ چکا، اور عمران خان سوائے ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ اس ساری گیم میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے عمران خان کی کمر میں چھرا گھونپا اور اسی لئے وہ آجکل بہت تپا بیٹھا ہے۔
اگلے چند دنوں میں وزارت دفاع سے لے کر ملٹری سیکرٹری تک، اچھاڑ پچھاڑ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
ان لوگوں کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کس سے پنگا لیا ہے ۔ ۔ ۔ خان کو چھیڑ کر یہ لوگ اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھیں گے!!! بقلم خود باباکوڈا
سرکاری دفاتر میں پیسے بنانے کی ایک خاص ٹیکنیک استعمال ہوتی ہے جو کچھ یوں ہے:
اگر کسی کا کوئی پراجیکٹ یا کوئی بھی دوسرا کام پھنسا ہوا ہے، تو پہلے اسے سرکاری پراسیس کی گھمن گھیریوں میں الجھایا جاتا ہے، اسے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز دکھا کر ڈرایا جاتا ہے، درجنوں قسم کے ڈاکومنٹس جمع کروانے کو کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ جرمانہ اور فیس کی رقم بھی دکھائی جاتی ہے جو کہ اچھی خاصی ہوتی ہے۔
اس سارے عمل کا مقصد سائل کو اس کے کام کی حقیقی لاگت یعنی قیمت سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
پھر جب سائل کو اپنے کام کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہوجاتا ہے تو پھر ایک دن چپکے سے کوئی کلرک یا قاصد اس سے رابطہ کرتا ہے اور مطلوبہ لاگت کا صرف دس فیصد مانگ کر کام پورا کروانے کا وعدہ کرتا ہے۔ جب وہ سائل مان جاتا ہے تو پھر اگلے ہی دن اس کی درخواست پر موجود تمام اعتراضات ایک ایک کرکے ختم ہوجاتے ہیں، جو سرکار کی طرف سے جرمانے کا تخمینہ ہوتا ہے، وہ بھی کم ہوجاتا ہے ۔ ۔ ۔ یوں سائل کا کام صرف دس فیصد ادائیگی سے ہی ہوجاتا ہے اور یہ ادائیگی بجائے سرکاری خزانے میں جمع ہونے کے، افسران کی جیب میں جاتی ہے۔
بالکل یہی معاملہ نوازشریف کے ساتھ بھی ہوا۔
یہ تو سب جانتے تھے کہ نوازشریف ایک سال بھی جیل میں نہیں نکال سکتا، اور اس نے پچھلے سال جولائی سے ہی ڈیل کی کوششیں شروع کردی تھیں ۔ ۔ ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مریم صفدر رہائی کے بعد کئی مہینوں تک ٹویٹر سے دور رہی، کیونکہ اس وقت ڈیل کی کوششیں جاری تھیں۔
عمران خان کی طرف سے واحد شرط یہ عائد کی گئی کہ لوٹی ہوئی رقم واپس کی جائے جو کہ کم از اتنی تو ہو کہ ہمارا ایک سال کا غیرملکی سود ادا ہوسکے۔شہبازشریف حکومت کے ساتھ گفت و شنید کرتا رہا، پھر اچانک اس نے یہ شرط عائد کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے نمائیندے کو بھی گفت و شنید میں شامل کرنا چاہتا ہے تاکہ یہ گارنٹی ہو کہ جو بھی ڈیل ہوگی، اسے پورا کیا جائے گا۔
عمران خان نے یہ بات مانتے ہوئے اپنے ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ کسی سینئر رینک کے افسر کو بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے۔اس کیلئے ایک میجر جنرل صاحب کو مذاکرات میں شامل کرلیا گیا۔
اس کے چند ہفتوں بعد شریف خاندان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ بھی آن بورڈ ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ رقم کی ادائیگی کردیں اور بعد میں پتہ چلے کی عدلیہ نے رہا کرنے سے انکار کردیا۔
یہ شرط میجر صاحب نے مانتے ہوئے اعلی عدلیہ کے ایک نمائیندے کو بھی مذاکرات میں شامل کرلیا۔
بات آگے بڑھی۔ حکومت کی طرف سے دس ارب ڈالرز سے کم پر کوئی سہولت دینے سے انکار کردیا گیا۔
شریف خاندان نے جب حکومتی ضد دیکھی تو آٹھ ارب ڈالر تک پر آمادگی ظاہر کردی۔
یہی وہ وقت تھا جب دوسری گیم شروع ہوگئی۔
جب دیکھا گیا کہ شریف خاندان آٹھ ارب ڈالر تک دینے کو تیار ہے، تو پھر ان سے اس کاپچیس فیصد، یعنی صرف دو ارب ڈالر کی عوض نوازشریف کی رہائی کی آفر کی گئی۔ یہ ایک سائیڈ آفر تھی جو کہ ایک ٹاؤٹ کے ذریعے کی گئی۔
حکومت عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی اجازت دیتی گئی اور یہ دونوں ادارے اپنی گیم کھیلنا شروع ہوگئے۔
ابتدائی مرحلے میں نوازشریف کی طرف سے 430 ملین ڈالرز حکومت کو جمع کروا کر اسے جیل سے رہائی دلائی گئی۔
اگلے مرحلے میں معاہدے کے مطابق نوازشریف نے اقساط میں باقی رقم جمع کروانی تھی لیکن اب کی بار اسٹیلشمنٹ اور عدلیہ نے اپنا کمیشن کھرا کرنے کا سوچا اور نوازشریف کے ساتھ میز کے نیچے ڈیل کرکے دو ارب ڈالرز بنائے اور اسے اطہرمن اللہ براستہ لاہور ہائیکورٹ، لندن پہنچا دیا۔
دو ارب ڈالرز ۔ ۔ ۔ یعنی دو ہزار ملین ڈالرز ۔ ۔ ۔ ایک ملین ڈالر پندرہ کروڑ روپے بنتا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی 30 ہزار کروڑ ۔ ۔ ۔
یہ رقم مجموعی طور پر تیس لوگوں میں تقسیم ہو تو فی بندہ ایک ہزار کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اب آپ خود ہی بتائیں، کون کافر ہوگا جو یہ آفر ٹھکراتا؟
اب پنچھی اڑ چکا، اور عمران خان سوائے ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ اس ساری گیم میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے عمران خان کی کمر میں چھرا گھونپا اور اسی لئے وہ آجکل بہت تپا بیٹھا ہے۔
اگلے چند دنوں میں وزارت دفاع سے لے کر ملٹری سیکرٹری تک، اچھاڑ پچھاڑ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
ان لوگوں کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کس سے پنگا لیا ہے ۔ ۔ ۔ خان کو چھیڑ کر یہ لوگ اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھیں گے!!! بقلم خود باباکوڈا