Maarkhoor
ELITE MEMBER
- Joined
- Aug 24, 2015
- Messages
- 17,051
- Reaction score
- 36
- Country
- Location
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
Image copyright bbc
Image caption سکھوں میں پایا جانے والا غم وہ غصہ بڑا واضح تھا
لندن میں جمعرات کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر فضا کئی گھنٹوں تک نریندر مودی کی مخالفت اور حق میں لگائے جانے والے نعروں سے گونجتی رہی۔
مودی کے مخالفیں، جو عددی لحاظ سے ان کے حامیوں سے کئی گنا زیادہ تھے، ان کے نعروں ’گو بیک مودی گو بیک‘ میں اس وقت شدت آ گئی جب نریندر مودی ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کر کے باہر نکلے۔
مودی کی لندن آمد پر شاندار استقبال اور مظاہرے
نریندر مودی کے حق اور مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے ایک ہی وقت ایک ہی جگہ پُرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے مناسب اقدمات کر رکھے تھے اور پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وائٹ ہال کے باہر شاہراہ پر موجود تھی۔
دو دن قبل جس شاہراہ پر دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی یاد میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی تھی اور جس میں ملکہ برطانیہ نے بھی شرکت کی تھی وہ شاہراہ نریندر مودی کے آنے پر ایک بالکل مختلف منظر پیش کر رہی تھی۔
Image copyright bbc
Image caption گجرات فسادات کی بھی بازگشت اس مظاہرے میں سنائی دی
ایک طرف لندن میں مقیم نیپالی کمیونٹی کی بہت بڑی تعداد بھارت اور مودی سرکار کے خلاف ہاتھوں میں بینر اور کتبے اٹھائے ’گو بیک مودی گو بیک، کے نعرے بلند کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ہی سکھ علیحدگی پسند تنظیموں کے سینکڑوں مرد اور خواتین جن میں اکثریت عمررسیدہ لوگوں کی تھی مودی کے خلاف اور خالصتان کے حق میں بڑے جذباتی انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔
Image caption سکھ مظاہرین میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔
سکھوں نے سنہ 1983 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے سکھوں کے قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔
ان ہی مظاہرین میں ایک عمر رسیدہ سکھ خاتون اپنے جوان سال بیٹے کی تصویر اٹھائے بھی موجود تھیں جن کے بیٹے کو اس قتل عام میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
گجرات کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے ہمدردوں کو بھی اس مظاہرے میں دیکھا جا سکتا تھا۔ گجرات میں ہلاک کیے جانے والے منتخب رہنما احسان جعفری کی تصویر بھی ایک شخص نے اٹھا رکھی تھی۔ قریب ہی کھڑے ایک اور شخص نے کوثر بی بی کی تصویر والا پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’میرا ریپ کر کے مجھے قتل کر دیا گیا۔‘
Image copyright bbc
Image caption ساوتھ ہال بلیک سسٹر تنظیم کے ارکان کو مودی سرکار کے اقتدار میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش ہے
نیپال کمیونٹی کی ایک تنظیم کے رابطہ کار بزین پرسن نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے نیپال کی سرحد بند کر کے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ایندھن کی کمی کے علاوہ نیپال میں ادویات کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ایک یاد داشت پیش کریں گے جس میں ان سے نیپال کی سرحد کے معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مودی کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں سردار پٹیل میموریل نامی ایک سماجی تنظیم کے سربراہ پروین پٹیل نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی اس وقت دنیا کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ مودی مخالف مظاہرین کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت ایک ارب بیس کروڑ آبادی کا ملک ہے اور اتنی بڑی آبادی میں سب کو خوش رکھنا ممکن نہیں ہے۔
Image copyright bbc
Image caption مودی کی لندن آمد پر ان کے حامی بہت خوش ہیں
مودی کے حامیوں میں درجن بھر تیز رنگوں کی روائتی انڈین ساڑھیوں میں ملبوس چند خواتین بھی شامل تھیں جنھوں نے کئی میٹر لمبی ایک اونی چادر بھی اٹھا رکھی تھی۔ یہ چادر خاص طور پر انھوں نے وزیرِ اعظم مودی کو پیش کرنے کے لیے تیار کی ہے۔
سکھوں کی تنظیم ’دل خالصہ‘ کے عمر رسیدہ سربراہ منموہن سنگھ خالصہ نے کہا کہ وہ 31 سال سے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سکھوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ اسے کبھی نہیں بھلا سکتے۔
Image copyright bbc
Image caption نیپال کے مظاہرین میں ہر عمر کے افراد شامل تھے
مودی مخالفین کے درمیان ’ساؤتھ ہال بلیک سسٹر‘ تنظیم کی چند درجن خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کی ترجمان راحیلہ گپتا نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ عرصے میں برطانیہ میں بنیاد پرستی میں واضح اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر خواتین سے ہونے والی سماجی زیادتیوں میں۔
انھوں نے کہا کہ بنیادی پرستی میں اضافے کی وجہ سے زبردستی کی شادیوں کو مذہبی اور سماجی تحفظ حاصل ہو رہا ہے اور اس رجحان کو بھارت میں ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے سے حوصلہ ملا ہے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں مندروں میں اکھٹا کیا جانے والا چندہ بھی بھارت میں انتہاپسند تنظیموں کو مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
مودی کے حق اور مخالفت میں مظاہرے - BBC Urdu
- 12 نومبر 2015
Image caption سکھوں میں پایا جانے والا غم وہ غصہ بڑا واضح تھا
لندن میں جمعرات کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر فضا کئی گھنٹوں تک نریندر مودی کی مخالفت اور حق میں لگائے جانے والے نعروں سے گونجتی رہی۔
مودی کے مخالفیں، جو عددی لحاظ سے ان کے حامیوں سے کئی گنا زیادہ تھے، ان کے نعروں ’گو بیک مودی گو بیک‘ میں اس وقت شدت آ گئی جب نریندر مودی ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات کر کے باہر نکلے۔
مودی کی لندن آمد پر شاندار استقبال اور مظاہرے
نریندر مودی کے حق اور مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے ایک ہی وقت ایک ہی جگہ پُرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے مناسب اقدمات کر رکھے تھے اور پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد وائٹ ہال کے باہر شاہراہ پر موجود تھی۔
دو دن قبل جس شاہراہ پر دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی یاد میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی تھی اور جس میں ملکہ برطانیہ نے بھی شرکت کی تھی وہ شاہراہ نریندر مودی کے آنے پر ایک بالکل مختلف منظر پیش کر رہی تھی۔
Image caption گجرات فسادات کی بھی بازگشت اس مظاہرے میں سنائی دی
ایک طرف لندن میں مقیم نیپالی کمیونٹی کی بہت بڑی تعداد بھارت اور مودی سرکار کے خلاف ہاتھوں میں بینر اور کتبے اٹھائے ’گو بیک مودی گو بیک، کے نعرے بلند کر رہے تھے تو ان کے ساتھ ہی سکھ علیحدگی پسند تنظیموں کے سینکڑوں مرد اور خواتین جن میں اکثریت عمررسیدہ لوگوں کی تھی مودی کے خلاف اور خالصتان کے حق میں بڑے جذباتی انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔
Image caption سکھ مظاہرین میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔
سکھوں نے سنہ 1983 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے سکھوں کے قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔
ان ہی مظاہرین میں ایک عمر رسیدہ سکھ خاتون اپنے جوان سال بیٹے کی تصویر اٹھائے بھی موجود تھیں جن کے بیٹے کو اس قتل عام میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
گجرات کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے ہمدردوں کو بھی اس مظاہرے میں دیکھا جا سکتا تھا۔ گجرات میں ہلاک کیے جانے والے منتخب رہنما احسان جعفری کی تصویر بھی ایک شخص نے اٹھا رکھی تھی۔ قریب ہی کھڑے ایک اور شخص نے کوثر بی بی کی تصویر والا پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’میرا ریپ کر کے مجھے قتل کر دیا گیا۔‘
Image caption ساوتھ ہال بلیک سسٹر تنظیم کے ارکان کو مودی سرکار کے اقتدار میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر تشویش ہے
نیپال کمیونٹی کی ایک تنظیم کے رابطہ کار بزین پرسن نے بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے نیپال کی سرحد بند کر کے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ایندھن کی کمی کے علاوہ نیپال میں ادویات کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ایک یاد داشت پیش کریں گے جس میں ان سے نیپال کی سرحد کے معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مودی کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں سردار پٹیل میموریل نامی ایک سماجی تنظیم کے سربراہ پروین پٹیل نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی اس وقت دنیا کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ مودی مخالف مظاہرین کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت ایک ارب بیس کروڑ آبادی کا ملک ہے اور اتنی بڑی آبادی میں سب کو خوش رکھنا ممکن نہیں ہے۔
Image caption مودی کی لندن آمد پر ان کے حامی بہت خوش ہیں
مودی کے حامیوں میں درجن بھر تیز رنگوں کی روائتی انڈین ساڑھیوں میں ملبوس چند خواتین بھی شامل تھیں جنھوں نے کئی میٹر لمبی ایک اونی چادر بھی اٹھا رکھی تھی۔ یہ چادر خاص طور پر انھوں نے وزیرِ اعظم مودی کو پیش کرنے کے لیے تیار کی ہے۔
سکھوں کی تنظیم ’دل خالصہ‘ کے عمر رسیدہ سربراہ منموہن سنگھ خالصہ نے کہا کہ وہ 31 سال سے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سکھوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے وہ اسے کبھی نہیں بھلا سکتے۔
Image caption نیپال کے مظاہرین میں ہر عمر کے افراد شامل تھے
مودی مخالفین کے درمیان ’ساؤتھ ہال بلیک سسٹر‘ تنظیم کی چند درجن خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کی ترجمان راحیلہ گپتا نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ عرصے میں برطانیہ میں بنیاد پرستی میں واضح اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر خواتین سے ہونے والی سماجی زیادتیوں میں۔
انھوں نے کہا کہ بنیادی پرستی میں اضافے کی وجہ سے زبردستی کی شادیوں کو مذہبی اور سماجی تحفظ حاصل ہو رہا ہے اور اس رجحان کو بھارت میں ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے سے حوصلہ ملا ہے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں مندروں میں اکھٹا کیا جانے والا چندہ بھی بھارت میں انتہاپسند تنظیموں کو مالی وسائل مہیا کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
مودی کے حق اور مخالفت میں مظاہرے - BBC Urdu