muhammadhafeezmalik
SENIOR MEMBER
- Joined
- Jan 21, 2015
- Messages
- 5,417
- Reaction score
- -17
- Country
- Location
پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ (ان کے بارے میں) یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’فوج کی مداخلت تو ہے۔ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے کہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعد بی بی (بینیظر بھٹو) تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں۔ تو یہ (مداخلت) اتنی نقصان دہ ہے، جب آپ (سیاسی) انجینیئرنگ کریں۔‘
یہ بھی پڑھیے
دی سپائی کرونیکلز: اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی
'قوی امکان ہے کہ آئی ایس آئی اسامہ کے بارے میں جانتی تھی'
اسد درانی کو سنہ 1988 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1990 میں انھیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ سنہ 1993 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے بطور پاکستان کے سفیر جرمنی اور سعودی عرب میں بھی اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1
ویڈیو کیپشن, تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
اس وقت وہ اپنی حالیہ کتاب ’اونر امنگسٹ سپائیز‘ کے چھپنے کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ یہ کتاب ان کی پہلی چھپنے والی کتاب ’سپائی کرونیکلز‘ کے سلسلے کی دوسری کتاب ہے۔
اسد درانی اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، چاہے وہ ان کی چھپنے والی دو کتابوں میں موجود معلومات سے متعلق ہو یا پھر اسامہ بن لادن سے منسلک ان کے بیانات جنھیں وہ اپنا ’تجزیہ‘ کہتے ہیں۔
’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے‘
جہاں رہی بات موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جاری جلسوں کی تو حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر ان کی حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’جب یہ (فوج) نہیں ہوتے تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس (کو کاؤنٹر کرنے) کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں، خاص طور سے ان کا سربراہ۔ تو اگر اس قسم کی (سیاسی انجینیئرنگ) کا کام ان کو مل جائے، زیادہ یا کم، تو ضرور کر سکتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر (دھرنا) نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
پاکستان کی حالیہ صورتحال پر ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے۔‘
اسد درانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے۔‘
’معیشت واقعی خراب ہے۔ یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا۔ ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا۔ اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہPMLN
،تصویر کا کیپشن
’'مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے‘
’انڈیا اب بڑا خطرہ نہیں‘
سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ملک کی اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات میں سے ان کے خیال میں اس وقت زیادہ بڑا خطرہ کون سا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اب اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا۔
’کشمیر پر جو کچھ انڈیا نے کیا اس کے بعد مشرقی سرحد پر ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کبھی اگر وہ بالا کوٹ جیسا کچھ کرنا چاہیں تو اس کے لیے تیاری کر رکھیں ورنہ وہ اپنی چیزوں میں اتنے زیادہ پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’اگر آپ پاکستان کے باہر سے لاحق خطرات کی بات کرتے ہیں تو کچھ دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔‘
جنرل درانی کے بقول ان میں ایران، ترکی اور سعودی عرب بڑے اور نئے چیلنجز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے بھی انڈیا ہمیشہ اور ہر وقت ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں رہا۔‘
ملک کو لاحق اندرونی چیلنجز کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کو تین طرح کے چینلجز کا سامنا ہے جن میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں، کیونکہ یہ سب اکٹھے ہو گئے ہیں۔‘
’کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں۔ کچھ علاقے ہیں جیسا کہ بلوچستان، وہاں لوگوں میں بےچینی پیدا ہے، کچھ لوگ جن کا میں ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں، سیاسی طور پر اپنے آپ کو اجنبی اور الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔ معیشت واقعی خراب ہے۔۔۔ حکومت کی کریڈیبیلٹی خراب ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں فوج لے کر آئی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو تو ہم نے سنبھال لیا ہے۔۔۔ انڈیا کے متنازع شہریت کے قانون کے بعد تو مسلمانوں کے علاوہ باقی اچھے لوگ بھی بدظن ہو گئے ہیں۔ تو ان حالات میں آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کیا کروں گا؟ تو میں کہوں گا اب آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ تاحال مشرقی سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر دوبارہ بالاکوٹ جیسا واقعہ کریں گے تو اس کی تیاری کر لیں۔ وہ اس وقت خود اتنا پھنسے ہوئے ہیں اپنی چیزوں میں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنی فکر ہے۔ لیکن اگر ہم نے باہر ہی دیکھنا ہے، تو ہمارے پاس ایک دو چیلنجز اور ہیں۔ ایک نیا چیلنج ہے ایران، سعودی عرب، ترکی اس طرح کے مسائل ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
’انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا‘
’تاثر ہے کہ امریکہ کی سنتے ہیں‘
ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’ایران میں انقلاب کے بعد ہمارے ایران سے بننے والے تعلقات امریکہ کی مرضی کے برخلاف تھے۔ کیونکہ انھوں (امریکہ) نے کہا کہ 400 سے زیادہ دن (ایران نے) ہمارے سفارتخانے کو یرغمال بنایا۔ ہم (پاکستان) نے کہا (ایران) ہمارا پڑوسی ہے۔ ہم نے تو رابطہ رکھنا ہے۔‘
’1950 کی دہائی میں جب ہمارے چین کے ساتھ تعلقات بنے تو امریکہ کافی ناراض تھا۔ ایک دن ہمارے پاس آیا اور کہا کہ ہماری بھی بات کروا دیں۔‘
پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سب لوگوں کی مرضی کے بغیر اگر طالبان کی حمایت کی ہے تو (اس بارے میں) ہم نے امریکہ کی بات تو نہیں سنی۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ پتا نہیں ہم کتنا امریکہ کی سنتے ہیں۔‘
’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کچھ لوگوں کی کمزوری ہوتی ہے امریکہ کی بات سننا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے کام نہیں ہو پاتے۔ اس لیے وہ ان کی جیسی بھی بات ہو وہ مان لیتے ہیں۔‘
’گلگت بلتستان کی حیثیت بدلنے سے مسئلہ کشمیر کو دھچکا لگے گا‘
حال ہی میں گلگت بلتستان کو عارضی طور پر صوبہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں جہاں ملک میں آرا منقسم ہے وہیں اسد درانی نے اسی سے منسلک ایک قصہ سنایا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں کشمیر کے معاملات دیکھ رہا تھا تب مجھے ایک قریبی دوست یوسف سمجھایا کرتا تھا کہ جس دن گلگت بلتستان کی حیثیت تبدیل کرنے کی گڑبڑ کی اس دن ہمارے کشمیر کاز کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔'
'کچھ چیزوں کی حیثیت مت تبدیل کریں کیونکہ جب بھی آپ کسی چیز کی حیثیت سیاسی وجہ سے اس لیے تبدیل کریں گے کہ ہم نے نمبر بنانے ہیں، اس کا نقصان ہو گا۔ بہاولپور اور سوات بڑی اچھی ریاستیں تھیں انھیں مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا اور یہ مرکز بدعنوانی میں شامل ہیں تو نقصان ہوا۔‘
’بلوچستان کا نظام تین انداز میں بہتر ہینڈل ہو سکتا تھا، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر۔ لیکن ہم نے پکڑ کر ایک صوبہ بنا دیا اور آج تک نہیں سنبھالا جا رہا۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
انھوں نے کہا کہ ’سابق فاٹا کے بارے میں بھی میں کہتا تھا کہ یہ مت کرو، اس کو صوبے میں ضم مت کرو۔ اس کی اپنی خصوصی حیثیت ہے، بعض حالات میں وہ ہم سے بہتر چل رہا ہے جو کہ پانچ سو سال کا پُرانا نظام ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کا نظام بھی اس طرز کا نہیں کہ لوگ اس نظام کا حصہ بننا چاہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو زیادہ حقوق دینے ہیں تو بے شک دیں لیکن ان کو زبردستی پاکستان کا صوبہ نہ بنائیں۔‘
اسد درانی کے مطابق حالیہ دنوں میں لیے گئے چند اقدامات موجودہ حکومت کی صلاحیت میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’جب یہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو حیثیت بدل دیتے ہیں یا پھر کسی جگہ کشمیر کے بجائے سری نگر لکھ دیتے ہیں یا نقشہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ مختلف ہتھکنڈے ہیں جو وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود میں صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا متبادل تلاش کرتے ہیں۔ تو اس کا کوئی فائدہ تو نظر نہیں آ رہا۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ون یونٹ بے ایمانی کی وجہ سے بنایا گیا۔ کیونکہ ہم نے بنگالیوں کی اکثریت کو منھ توڑ (جواب) دینا تھا۔ بلوچستان کو اکٹھا کر دیا گیا کیونکہ اس کے پیچھے سوچ تھی کہ ان کی الگ سے دیکھ بھال کون کرے گا۔ حالانکہ پہلے یہ ایک نظام کے تحت موجود تھے۔ اگر تو آپ کا نظام اچھا ہو اور لوگ دیکھ کر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن لوگوں کے ساتھ زبردستی نہ کریں۔‘
بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ (ان کے بارے میں) یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’فوج کی مداخلت تو ہے۔ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے کہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعد بی بی (بینیظر بھٹو) تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں۔ تو یہ (مداخلت) اتنی نقصان دہ ہے، جب آپ (سیاسی) انجینیئرنگ کریں۔‘
یہ بھی پڑھیے
دی سپائی کرونیکلز: اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی
'قوی امکان ہے کہ آئی ایس آئی اسامہ کے بارے میں جانتی تھی'
اسد درانی کو سنہ 1988 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1990 میں انھیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ سنہ 1993 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے بطور پاکستان کے سفیر جرمنی اور سعودی عرب میں بھی اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1
ویڈیو کیپشن, تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
اس وقت وہ اپنی حالیہ کتاب ’اونر امنگسٹ سپائیز‘ کے چھپنے کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ یہ کتاب ان کی پہلی چھپنے والی کتاب ’سپائی کرونیکلز‘ کے سلسلے کی دوسری کتاب ہے۔
اسد درانی اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، چاہے وہ ان کی چھپنے والی دو کتابوں میں موجود معلومات سے متعلق ہو یا پھر اسامہ بن لادن سے منسلک ان کے بیانات جنھیں وہ اپنا ’تجزیہ‘ کہتے ہیں۔
’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے‘
جہاں رہی بات موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جاری جلسوں کی تو حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر ان کی حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’جب یہ (فوج) نہیں ہوتے تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس (کو کاؤنٹر کرنے) کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں، خاص طور سے ان کا سربراہ۔ تو اگر اس قسم کی (سیاسی انجینیئرنگ) کا کام ان کو مل جائے، زیادہ یا کم، تو ضرور کر سکتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر (دھرنا) نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
پاکستان کی حالیہ صورتحال پر ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے۔‘
اسد درانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے۔‘
’معیشت واقعی خراب ہے۔ یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا۔ ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا۔ اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہPMLN
،تصویر کا کیپشن
’'مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے‘
’انڈیا اب بڑا خطرہ نہیں‘
سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ملک کی اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات میں سے ان کے خیال میں اس وقت زیادہ بڑا خطرہ کون سا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اب اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا۔
’کشمیر پر جو کچھ انڈیا نے کیا اس کے بعد مشرقی سرحد پر ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کبھی اگر وہ بالا کوٹ جیسا کچھ کرنا چاہیں تو اس کے لیے تیاری کر رکھیں ورنہ وہ اپنی چیزوں میں اتنے زیادہ پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔‘
اسد درانی کے مطابق ’اگر آپ پاکستان کے باہر سے لاحق خطرات کی بات کرتے ہیں تو کچھ دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔‘
جنرل درانی کے بقول ان میں ایران، ترکی اور سعودی عرب بڑے اور نئے چیلنجز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے بھی انڈیا ہمیشہ اور ہر وقت ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں رہا۔‘
ملک کو لاحق اندرونی چیلنجز کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کو تین طرح کے چینلجز کا سامنا ہے جن میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں، کیونکہ یہ سب اکٹھے ہو گئے ہیں۔‘
’کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں۔ کچھ علاقے ہیں جیسا کہ بلوچستان، وہاں لوگوں میں بےچینی پیدا ہے، کچھ لوگ جن کا میں ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں، سیاسی طور پر اپنے آپ کو اجنبی اور الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔ معیشت واقعی خراب ہے۔۔۔ حکومت کی کریڈیبیلٹی خراب ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں فوج لے کر آئی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو تو ہم نے سنبھال لیا ہے۔۔۔ انڈیا کے متنازع شہریت کے قانون کے بعد تو مسلمانوں کے علاوہ باقی اچھے لوگ بھی بدظن ہو گئے ہیں۔ تو ان حالات میں آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کیا کروں گا؟ تو میں کہوں گا اب آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ تاحال مشرقی سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر دوبارہ بالاکوٹ جیسا واقعہ کریں گے تو اس کی تیاری کر لیں۔ وہ اس وقت خود اتنا پھنسے ہوئے ہیں اپنی چیزوں میں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنی فکر ہے۔ لیکن اگر ہم نے باہر ہی دیکھنا ہے، تو ہمارے پاس ایک دو چیلنجز اور ہیں۔ ایک نیا چیلنج ہے ایران، سعودی عرب، ترکی اس طرح کے مسائل ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا کیپشن
’انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا‘
’تاثر ہے کہ امریکہ کی سنتے ہیں‘
ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’ایران میں انقلاب کے بعد ہمارے ایران سے بننے والے تعلقات امریکہ کی مرضی کے برخلاف تھے۔ کیونکہ انھوں (امریکہ) نے کہا کہ 400 سے زیادہ دن (ایران نے) ہمارے سفارتخانے کو یرغمال بنایا۔ ہم (پاکستان) نے کہا (ایران) ہمارا پڑوسی ہے۔ ہم نے تو رابطہ رکھنا ہے۔‘
’1950 کی دہائی میں جب ہمارے چین کے ساتھ تعلقات بنے تو امریکہ کافی ناراض تھا۔ ایک دن ہمارے پاس آیا اور کہا کہ ہماری بھی بات کروا دیں۔‘
پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سب لوگوں کی مرضی کے بغیر اگر طالبان کی حمایت کی ہے تو (اس بارے میں) ہم نے امریکہ کی بات تو نہیں سنی۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ پتا نہیں ہم کتنا امریکہ کی سنتے ہیں۔‘
’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کچھ لوگوں کی کمزوری ہوتی ہے امریکہ کی بات سننا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے کام نہیں ہو پاتے۔ اس لیے وہ ان کی جیسی بھی بات ہو وہ مان لیتے ہیں۔‘
’گلگت بلتستان کی حیثیت بدلنے سے مسئلہ کشمیر کو دھچکا لگے گا‘
حال ہی میں گلگت بلتستان کو عارضی طور پر صوبہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں جہاں ملک میں آرا منقسم ہے وہیں اسد درانی نے اسی سے منسلک ایک قصہ سنایا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں کشمیر کے معاملات دیکھ رہا تھا تب مجھے ایک قریبی دوست یوسف سمجھایا کرتا تھا کہ جس دن گلگت بلتستان کی حیثیت تبدیل کرنے کی گڑبڑ کی اس دن ہمارے کشمیر کاز کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔'
'کچھ چیزوں کی حیثیت مت تبدیل کریں کیونکہ جب بھی آپ کسی چیز کی حیثیت سیاسی وجہ سے اس لیے تبدیل کریں گے کہ ہم نے نمبر بنانے ہیں، اس کا نقصان ہو گا۔ بہاولپور اور سوات بڑی اچھی ریاستیں تھیں انھیں مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا اور یہ مرکز بدعنوانی میں شامل ہیں تو نقصان ہوا۔‘
’بلوچستان کا نظام تین انداز میں بہتر ہینڈل ہو سکتا تھا، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر۔ لیکن ہم نے پکڑ کر ایک صوبہ بنا دیا اور آج تک نہیں سنبھالا جا رہا۔‘
،تصویر کا ذریعہEPA
انھوں نے کہا کہ ’سابق فاٹا کے بارے میں بھی میں کہتا تھا کہ یہ مت کرو، اس کو صوبے میں ضم مت کرو۔ اس کی اپنی خصوصی حیثیت ہے، بعض حالات میں وہ ہم سے بہتر چل رہا ہے جو کہ پانچ سو سال کا پُرانا نظام ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کا نظام بھی اس طرز کا نہیں کہ لوگ اس نظام کا حصہ بننا چاہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو زیادہ حقوق دینے ہیں تو بے شک دیں لیکن ان کو زبردستی پاکستان کا صوبہ نہ بنائیں۔‘
اسد درانی کے مطابق حالیہ دنوں میں لیے گئے چند اقدامات موجودہ حکومت کی صلاحیت میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’جب یہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو حیثیت بدل دیتے ہیں یا پھر کسی جگہ کشمیر کے بجائے سری نگر لکھ دیتے ہیں یا نقشہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ مختلف ہتھکنڈے ہیں جو وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود میں صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا متبادل تلاش کرتے ہیں۔ تو اس کا کوئی فائدہ تو نظر نہیں آ رہا۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ون یونٹ بے ایمانی کی وجہ سے بنایا گیا۔ کیونکہ ہم نے بنگالیوں کی اکثریت کو منھ توڑ (جواب) دینا تھا۔ بلوچستان کو اکٹھا کر دیا گیا کیونکہ اس کے پیچھے سوچ تھی کہ ان کی الگ سے دیکھ بھال کون کرے گا۔ حالانکہ پہلے یہ ایک نظام کے تحت موجود تھے۔ اگر تو آپ کا نظام اچھا ہو اور لوگ دیکھ کر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن لوگوں کے ساتھ زبردستی نہ کریں۔‘
اسد درانی:سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت مگر ملک کے لیے نقصان دہ - BBC News اردو
سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا کہنا ہے کہ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے بارے میں یہ تاثر قائم ہونا ہے کہ یہ خود نہیں آئے بلکہ خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں، کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔
www.bbc.com