Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے چھوٹے بھائی شجاع پاشا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر انتظام 2008 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب
"Cross Swords Pakistan, its army and the war within"
میں اپنے بھائی جنرل آصف نواز کا بیان کردہ قصہ کچھ یوں لکھتے ہیں :
" نواز شریف کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اور نئے آرمی چیف زیادہ تر معاملات پر مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ کاروباری گھرانے میں پرورش پانے کے باعث، شریف کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔
ذاتی تعلقات ان کے اور ان کے والد (المشہور ابا جی) کے لیے بے حد اہمیت کے حامل تھے۔
شریف خاندان نے آغاز ہی میں نئے آرمی چیف کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں میاں شریف اپنے دونوں بیٹوں (نواز، شہباز) کے ساتھ آ کر بیٹھے اور پنجابی زبان میں آرمی چیف سے بولے :
" یہ دونوں تمہارے چھوٹے بھائی ہیں۔ اگر یہ کوئی بد تمیزی کریں تو مجھے بتانا۔ میں انہیں ٹھیک کروں گا"
جنرل اس غیر رسمی رویے کے عادی نہیں تھے اور شاید انہیں تھوڑا برا محسوس ہوا ہو۔ بعد میں وزیراعظم کی جانب اہتمام کردہ ناشتوں پر بھی وہ خاموشی اختیار کیے رکھتے اور یہ دعوتیں بھی ان کے درمیان اعتماد سازی میں ناکام رہیں۔
شریف نے دوسرے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی اور قبائلی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے فوج میں دوسرے جرنیلوں سے روابط بڑھا کر انہیں تیار کرنا شروع کر دیا۔
ایک موقع پر انہوں نے لاہور کور کمانڈر کے بھائی کو صنعتی یونٹ کا منافع بخش لائسنس بھی عنایت کیا۔
اس پر نئے چیف کی جانب سے ان کور کمانڈر کو بلا کر دانٹ بھی پلائی گئی۔" (صفحہ 449)
مطلب یہ کہ نواز شریف نے صرف آرمی چیف نہیں بلکہ فوج کے سینیئر اہلکاروں کو بھی رشوت دینے کی کوشش کی۔
شجاع نواز مزید لکھتے ہیں :
" آرمی چیف کو یہ رپورٹیں بھی ملیں کہ وزیراعظم نے کچھ جرنیلوں کو بی ایم ڈبلیو کے تحائف دیئے۔
یہ سب جنرل آصف نواز کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھا۔
ایک دن شہباز شریف بی ایم ڈبلیو کی چابی تھامے ان کے پاس آئے اور بولے : " یہ ابا جی نے آپ کے لیے بطورِ تحفہ بھیجی ہے"
جنرل نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔
بعد ازاں جب وہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے مری گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ بی ایم ڈبلیو سے متعلق گردش کرتی خبریں درست تھیں۔
جب وہ واپس جانے لگے تو وزیراعظم بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی تک ان کے ساتھ آئے۔
"آپ کون سی گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟" شریف نے پوچھا۔
"ٹویوٹا کراؤن،" جنرل نواز نے اپنی گاڑی کے پرانے ماڈل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
" یہ گاڑی آپ کے شایانِ شان نہیں،" شریف نے پنجابی میں کہتے ہوئے ایک ساتھی کو اشارہ کیا جو دوڑتا ہوا گیا اور اسی لمحے کے انتظار میں کھڑی ایک نئی بی ایم ڈبلیو سیڈان چلاتے ہوئے واپس آ گیا۔ شریف نے گاڑی کی چابی جنرل کو پیش کرتے ہوئے کہا "آپ اس گاڑی کے حقدار ہیں"
جنرل آصف یہ بات یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کی اس جسارت پر ایک لمحے کے لیے جم گئے۔ انہوں نے تیزی سے چابی وزیراعظم کو واپس تھمائی اور "بہت شکریہ جناب۔ میرے پاس جو ہے، میں اس پر بہت خوش ہوں" کہتے ہوئے سلوٹ کیا اور گاڑی چلاتے ہوئے واپس چلے گئے۔
وزیراعظم کو جو بات دوستانہ تعلقات کا ایک بہانہ لگ رہی اسے آرمی چیف کسی اور نظر سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ ان کے عہدے کی توہین اور رشوت کی ایک بے ہودہ کوشش تھی۔
(صفحہ 450)