Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
so here is our mighty coast gurads they make check posts on roads while thier job is to protect coast line and ask bribes like police . a bus owner after became sick of the issues burnt his bus .
بلوچستان میں بس کے مالک نے اپنی ڈیڑھ کروڑ مالیت کی بس کو آگ کیوں لگائی؟
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے وندر میں اتوار کو ایک ٹرانسپورٹر نے اپنی ایک قیمتی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر ’احتجاجاً‘ نذرِ آتش کر دیا اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بس کے مالک حاجی داد محمد اچکزئی نے کہا کہ 'کوئی پاگل ہے جو خود سے اپنی ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی بس کو آگ لگا دے، لیکن میں نے ایسا کر دیا، کیونکہ میں مجبور ہوں۔'
انھوں نے اپنی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر نہ صرف نذرآتش کیا بلکہ کسی کو آگ بجھانے بھی نہیں دی جس کے باعث بس مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
انھوں نے چیک پوسٹ کے عملے پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس ’چیک پوسٹ پر کوسٹ گارڈز کا عملہ نہ صرف ٹرانسپورٹروں کو تنگ کرتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے مسافر بھی تنگ ہوتے ہیں۔‘
بس کو جلانے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے احتجاج کر کے کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بلاک کیا تھا تاہم ڈپٹی کمشنر لسبیلہ سے مذاکرات کے بعد انھوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔
اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹرانسپورٹر کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایک دوسرے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی۔
بس جلانے کی ویڈیو وائرل
حادثاتی طور پر کسی چیز کو آگ لگ جائے یا کوئی جذبات میں آ کر اپنی کسی چیز کو آگ لگا دے تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر بس کو جلانے سے متعلق جو ویڈیو وائرل ہوئی اس میں بس کے پاس ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔
بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچا تھا لیکن وہاں احتجاج کرنے والے افراد نے ان کو آگ نہیں بجھانے دی۔
ویڈیو میں المحمود کمپنی کی اس بس سے آگ کے شعلے اور دھواں بلند ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
بس کے قریب لوگوں کے درمیان ایک شخص ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک چھڑی ہے، وہ پشتو زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے مجبوری میں یہ کیا ہے۔
یہ شخص جو کہ بس کا مالک داد محمد اچکزئی ہے اپنی گفتگو میں یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ ’کوسٹ گارڈز والے ان سے ڈیڑھ لاکھ روپے مانگتے ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرے لوگوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ جلنے والی بس کی ویڈیو بناﺅ۔
وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کوسٹ گارڈز کا کام سمندر اور ساحل پر ہوتا ہے مگر ان لوگوں نے روڈ پر اپنی چیک پوسٹ بنائی ہے۔
بس جلانے کے واقعے کے بعد ٹرانسپورٹروں کا احتجاج
بس جلانے کے واقعے کے بعد ٹرانسپورٹروں نے المحمود کمپنی کے مالک حاجی داد محمد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنی بسیں کوئٹہ کراچی ہائی وے پر کھڑی کر کے انھیں بند کر دیا تھا۔
ٹرانسپورٹروں کے احتجاج کے باعث اس اہم شاہراہ پر ٹریفک کئی گھنٹے تک بند رہی جس کی وجہ سے مسافروں اور سفر کرنے والے دیگر افراد کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرانسپورٹروں کے ساتھ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے مذاکرات کر کے ان کا احتجاج ختم کروایا ہے۔
فون پر رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر لسبیلہ افتخار بگٹی نے بتایا کہ انھوں نے ٹرانسپورٹروں کو یہ بتایا کہ ان کے جو مسائل ہیں ان کے حوالے سے کوسٹ گارڈز کے حکام سے ان کے مذاکرات کروا کر انھیں حل کروایا جائے گا۔
بس کے مالک کا کیا کہنا ہے؟
حاجی داد محمد اچکزئی نے بتایا کہ ان کی بس 2016 ماڈل کی تھی اور اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کوسٹ گارڈ کے عملے کے رویے سے تنگ آ گئے جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی قیمتی بس کو جلا دیا کیونکہ ان کے بقول اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بسوں میں جو لوگ سفر کرتے ہیں ان پر یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔' کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسافر افغان ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ ازبک ہیں، ان کو مت اٹھاﺅ۔'
انھوں نے الزام لگایا کہ جو بسیں کراچی جاتی ہیں ان کو تلاشی کے نام پر اس چیک پوسٹ پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک روکا جاتا ہے جس کے باعث ان میں سفر کرنے والے مسافروں بالخصوص خواتین اور بچوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حاجی داد محمد اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ بسوں میں سواری کی تعداد کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں کو نقصان ہورہا ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ 'اگر ٹرانسپورٹر نقصان سے بچنے کے لیے چند تھان کپڑوں کے یا اس طرح کی کوئی اور چیز لے جائیں تو ان سے پیسے طلب کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ وہ بسوں میں کوئی ممنوعہ اور غیر قانونی چیز نہیں لے جاتے ہیں اور ان میں وہ چیز لے جاتے ہیں جو کہ پاکستان کی مارکیٹوں میں موجود ہوتی ہیں۔
'ڈرائیور یا ٹرانسپورٹرز جو تھوڑی بہت چیزیں ان گاڑیوں میں لے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان کو سمگلنگ کا سامان سمجھتے ہیں تو ان کو سرحد پر روک دیا جائے تاکہ یہ ملک کے اندر نہ آسکیں۔'
حاجی داد محمد نے کہا اب مجبوری کے عالم میں انھوں نے اپنی ایک بس جلائی اور اگر ٹرانسپورٹروں اور مسافروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اپنی دوسری بسوں کو بھی جلادیں گے۔
کوسٹ گارڈ کے موقف کا انتظار
کوسٹ گارڈز کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے سرکاری طور پر کوئی موقف نہیں دیا گیا۔
ٹرانسپورٹر کے الزامات کے حوالے سے کراچی میں کوسٹ گارڈز کے ہیڈکوارٹر میں فون پر جب فورس کے آفیسر میجر شہباز سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں فورس کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی۔
لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی جبکہ اس دوران موبائل فون پر کوسٹ گارڈز کے پی آراو محمد سرفراز سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم انھوں نے کال وصول نہیں کی اور واٹس ایپ پر یہ پیغام بھیجا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔
اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر موقف نہیں دیا گیا تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹرانسپورٹر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
انھوں نے بس جلانے کے اقدام کو ٹرانسپورٹر کی جانب سے فورس کو بد نام کرنے کی ایک سوچھی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے فورس کو جو فرائض تفویض کیے گئے ہیں وہ سرانجام دیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انہی مسافر بسوں میں سمگلنگ کا سامان ہونے کے علاوہ منشیات بھی ہوتی ہیں اور ان سے سمگلنگ کا سامان اور منشیات برآمد ہوتی بھی رہی ہیں۔
اہلکار نے بتایا کہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے کوئی بھی پوچھ گچھ نہیں کی جائے اور وہ ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق کریں جوکہ ممکن نہیں ہے کیونکہ قانون میں کسی بھی غیر قانونی کام کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
بلوچستان میں بس کے مالک نے اپنی ڈیڑھ کروڑ مالیت کی بس کو آگ کیوں لگائی؟
- محمد کاظم
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے وندر میں اتوار کو ایک ٹرانسپورٹر نے اپنی ایک قیمتی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر ’احتجاجاً‘ نذرِ آتش کر دیا اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بس کے مالک حاجی داد محمد اچکزئی نے کہا کہ 'کوئی پاگل ہے جو خود سے اپنی ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی بس کو آگ لگا دے، لیکن میں نے ایسا کر دیا، کیونکہ میں مجبور ہوں۔'
انھوں نے اپنی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر نہ صرف نذرآتش کیا بلکہ کسی کو آگ بجھانے بھی نہیں دی جس کے باعث بس مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
انھوں نے چیک پوسٹ کے عملے پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس ’چیک پوسٹ پر کوسٹ گارڈز کا عملہ نہ صرف ٹرانسپورٹروں کو تنگ کرتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے مسافر بھی تنگ ہوتے ہیں۔‘
بس کو جلانے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے احتجاج کر کے کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بلاک کیا تھا تاہم ڈپٹی کمشنر لسبیلہ سے مذاکرات کے بعد انھوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔
اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹرانسپورٹر کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایک دوسرے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی۔
بس جلانے کی ویڈیو وائرل
حادثاتی طور پر کسی چیز کو آگ لگ جائے یا کوئی جذبات میں آ کر اپنی کسی چیز کو آگ لگا دے تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر بس کو جلانے سے متعلق جو ویڈیو وائرل ہوئی اس میں بس کے پاس ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔
بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچا تھا لیکن وہاں احتجاج کرنے والے افراد نے ان کو آگ نہیں بجھانے دی۔
ویڈیو میں المحمود کمپنی کی اس بس سے آگ کے شعلے اور دھواں بلند ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
بس کے قریب لوگوں کے درمیان ایک شخص ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک چھڑی ہے، وہ پشتو زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے مجبوری میں یہ کیا ہے۔
یہ شخص جو کہ بس کا مالک داد محمد اچکزئی ہے اپنی گفتگو میں یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ ’کوسٹ گارڈز والے ان سے ڈیڑھ لاکھ روپے مانگتے ہیں‘۔ ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرے لوگوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ جلنے والی بس کی ویڈیو بناﺅ۔
وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کوسٹ گارڈز کا کام سمندر اور ساحل پر ہوتا ہے مگر ان لوگوں نے روڈ پر اپنی چیک پوسٹ بنائی ہے۔
بس جلانے کے واقعے کے بعد ٹرانسپورٹروں کا احتجاج
بس جلانے کے واقعے کے بعد ٹرانسپورٹروں نے المحمود کمپنی کے مالک حاجی داد محمد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنی بسیں کوئٹہ کراچی ہائی وے پر کھڑی کر کے انھیں بند کر دیا تھا۔
ٹرانسپورٹروں کے احتجاج کے باعث اس اہم شاہراہ پر ٹریفک کئی گھنٹے تک بند رہی جس کی وجہ سے مسافروں اور سفر کرنے والے دیگر افراد کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹرانسپورٹروں کے ساتھ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے مذاکرات کر کے ان کا احتجاج ختم کروایا ہے۔
فون پر رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر لسبیلہ افتخار بگٹی نے بتایا کہ انھوں نے ٹرانسپورٹروں کو یہ بتایا کہ ان کے جو مسائل ہیں ان کے حوالے سے کوسٹ گارڈز کے حکام سے ان کے مذاکرات کروا کر انھیں حل کروایا جائے گا۔
بس کے مالک کا کیا کہنا ہے؟
حاجی داد محمد اچکزئی نے بتایا کہ ان کی بس 2016 ماڈل کی تھی اور اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کوسٹ گارڈ کے عملے کے رویے سے تنگ آ گئے جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی قیمتی بس کو جلا دیا کیونکہ ان کے بقول اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بسوں میں جو لوگ سفر کرتے ہیں ان پر یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔' کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسافر افغان ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ ازبک ہیں، ان کو مت اٹھاﺅ۔'
انھوں نے الزام لگایا کہ جو بسیں کراچی جاتی ہیں ان کو تلاشی کے نام پر اس چیک پوسٹ پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک روکا جاتا ہے جس کے باعث ان میں سفر کرنے والے مسافروں بالخصوص خواتین اور بچوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حاجی داد محمد اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ بسوں میں سواری کی تعداد کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں کو نقصان ہورہا ہے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ 'اگر ٹرانسپورٹر نقصان سے بچنے کے لیے چند تھان کپڑوں کے یا اس طرح کی کوئی اور چیز لے جائیں تو ان سے پیسے طلب کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ وہ بسوں میں کوئی ممنوعہ اور غیر قانونی چیز نہیں لے جاتے ہیں اور ان میں وہ چیز لے جاتے ہیں جو کہ پاکستان کی مارکیٹوں میں موجود ہوتی ہیں۔
'ڈرائیور یا ٹرانسپورٹرز جو تھوڑی بہت چیزیں ان گاڑیوں میں لے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان کو سمگلنگ کا سامان سمجھتے ہیں تو ان کو سرحد پر روک دیا جائے تاکہ یہ ملک کے اندر نہ آسکیں۔'
حاجی داد محمد نے کہا اب مجبوری کے عالم میں انھوں نے اپنی ایک بس جلائی اور اگر ٹرانسپورٹروں اور مسافروں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اپنی دوسری بسوں کو بھی جلادیں گے۔
کوسٹ گارڈ کے موقف کا انتظار
کوسٹ گارڈز کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے سرکاری طور پر کوئی موقف نہیں دیا گیا۔
ٹرانسپورٹر کے الزامات کے حوالے سے کراچی میں کوسٹ گارڈز کے ہیڈکوارٹر میں فون پر جب فورس کے آفیسر میجر شہباز سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں فورس کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی۔
لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی جبکہ اس دوران موبائل فون پر کوسٹ گارڈز کے پی آراو محمد سرفراز سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم انھوں نے کال وصول نہیں کی اور واٹس ایپ پر یہ پیغام بھیجا کہ وہ چھٹی پر ہیں۔
اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر موقف نہیں دیا گیا تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹرانسپورٹر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
انھوں نے بس جلانے کے اقدام کو ٹرانسپورٹر کی جانب سے فورس کو بد نام کرنے کی ایک سوچھی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے فورس کو جو فرائض تفویض کیے گئے ہیں وہ سرانجام دیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انہی مسافر بسوں میں سمگلنگ کا سامان ہونے کے علاوہ منشیات بھی ہوتی ہیں اور ان سے سمگلنگ کا سامان اور منشیات برآمد ہوتی بھی رہی ہیں۔
اہلکار نے بتایا کہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان سے کوئی بھی پوچھ گچھ نہیں کی جائے اور وہ ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق کریں جوکہ ممکن نہیں ہے کیونکہ قانون میں کسی بھی غیر قانونی کام کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
بÙÙÚستا٠ÙÛÚº بس Ú©Û ÙاÙÚ© ÙÛ Ø§Ù¾ÙÛ ÚÛÚÚ¾ کرÙÚ ÙاÙÛت Ú©Û Ø¨Ø³ ک٠آگ Ú©ÛÙÚº ÙگائÛØ - BBC News اردÙ
Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û ØµÙØ¨Û Ø¨ÙÙÚØ³ØªØ§Ù Ú©Û Ø¶Ùع ÙسبÛÙÛ Ú©Û Ø¹ÙاÙÛ ÙÙدر ÙÛÚº اتÙار ک٠اÛÚ© ٹراÙسپÙرٹر ÙÛ Ø§Ù¾ÙÛ Ø§ÛÚ© ÙÛÙØªÛ Ø¨Ø³ Ú©Ù Ú©Ùسٹ گارÚز Ú©Û ÚÛÚ© Ù¾Ùسٹ پر âاØتجاجاÙâ Ùذر٠آتش کر دÛاÛ
www.bbc.com