What's new

Civil Service reform : A confirmation of Disaster

fitpOsitive

ELITE MEMBER
Joined
May 27, 2015
Messages
12,933
Reaction score
19
Country
Pakistan
Location
Germany
In this thread, I will present the series of columns written by an ex-bureaucrat.
This will shed some light on what is actually the management problem of Pakistan. The author might not preset the real solution, but that I will present in last.

The original series is in Urdu, so I will use Google translator to present the translation is well(translation is pathetic). I will present the real source as well.

Part 1:
ڈیڑھ سال کے بعد عمران خان صاحب کی سول سروسز ریفارمز کمیٹی کی پٹاری سے جو برآمد ہوا ہے اس نے ہر بددیانت، چور، کرپٹ سیاستدان اور ہر طالع آزما، ہوسِ اقتدار میں غرق، مسند اقتدار پر موجود شخص کے ہاتھ میں ایک ایسا چابک تھما دیا ہے، جس کے خوف سے اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنی سے ادنیٰ سرکاری ملازم،ایک سدھائے ہوئے خوف زدہ ریچھ کی طرح انکے حکم پر ناچے گا۔ خان صاحب کی ٹیم کی ان ریفارمز میں ایمانداری کی حفاظت، غلط احکامات سے انکار، اور بددیانت وزراء وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم کے سامنے سینہ سپر ہونے والے شخص کے لیے کوئی تحفظ موجود نہیں ہے۔ ان ریفارمز کے بعد سول سرونٹ ایک ایسی گاڑی بن جائے گا جس کی اسٹیرنگ پر اگر ایک بددیانت شخص بیٹھے گا تو وہ اسے بھی تیز رفتاری کے ساتھ کرپشن کی منزل مقصود پر پہنچائے گا اور اگر اس بد دیانت حکمران نے اس کے بالا دست بیوروکریٹس ٹولے کو بھی قابو میں کیا ہوا ہے تو پھر ہر جھوٹے بد دیانت سول سرونٹ کی پرموشن کو پر لگ جائیں گے۔اسکے مقابلے میں اگر آپ سول سروس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہو تو پہلے دیانت دار سیاستدان ڈھونڈو، پھر دیانتدار اعلیٰ بیوروکریٹ ڈھونڈو، اور جب تک وہ میسر آئیں گیاتنے عرصے میں خان صاحب کی ریفارمز پوری بیوروکریسی کو کرپشن، ناہلی اور بددیانتی کی دلدل میںدھکیل چکی ہو گی۔پاکستان کی سول سروس کو تباہ و برباد کرنیاور اسے نا اہل اور بددیانت بنانے کے جس سفر کا آغاز زوالفقارعلی بھٹو نے 1973ء کے آئین میں سے سول سروس کیلئے آئین میں موجود آئینی تحفظ کو ختم کرکے کیا تھا آج عمران خان صاحب کی ٹیم نے اس میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ کیا بددیانتی، نااہلی اور کرپشن کا رونا سول سروس میں پہلی دفعہ رویا گیا ہے؟ اور کیا یہ رونا صرف پاکستان میں رویا جاتا ہے؟ پوری دنیا میں بیوروکریسی ایک ایسا ادارہ تصور ہوتی ہے جو خود اپنی اصلاح سے عاری، تبدیلی کا مخالف، سٹیٹس کو (Status Quo) کا حامی اور خودپسندی کا شکار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں پبلک ایڈمنسٹریشن پر اتھارٹی سمجھے والے اور بیوروکریسی، سول سروس کے بارے میں دنیا بھر کے لئے علمی اور تحقیقی کتب کا ذخیرہ چھوڑ جانے والوں کے نزدیک بیوروکریسی کا یہی خلاصہ ہے۔ان لکھاریوں میں دنیا کے ہر ملک اور ہر بڑی یونیورسٹی کے سکالرز شامل ہیں۔ بیوروکریسی انسانی تاریخ میں حکمرانوں کی اس وقت ضرورت بنی جب 3500 قبل مسیح میں دجلہ و فرات کے درمیان آباد بابل کی تہذیب میں انسان نے لکھنا شروع کیا۔ مٹی کی تختیوں پر فصلوں کا حساب و کتاب ہوتا اور پھر ان پر لگان لگایا جاتا۔ وہ چند لوگ جو پڑھنا لکھنا اور حساب کتاب جانتے تھے،اب بادشاہ کی حکمرانی کے لیے اہم ترین ضرورت بن گئے۔یوں بیوروکریسی کا گروہ وجود میں آگیا۔ فراعینِ مصر کے زمانے میں یہ سول سروس چند خاندانوں کی مہارت تصور ہوتی تھی جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی۔ دریائے نیل کے کنارے آباد اس تہذیب میں روزمرہ انتظامی معاملات حل کرنے والے افراد ان ہی خاندانوںمیں سے چنے جاتے تھے۔ قدیم روم میں بیوروکریسی کے عہدے دار کو پرو کونسل (Proconsul) کہا جاتا تھا۔وہ عہدیدار جو کونسل یعنی سینٹ کے عطاء کردہ اختیارات کے مطابق عمل کرتا ہو۔ رومن تہذیب نے انسانی تاریخ میں سب سے پہلے سول اور ملٹری کمانڈ کے درمیان تفریق کی تھی۔ پرو کونسل ایک طرح کا سول گورنر ہوتا جس کے ماتحت فوج نہیں ہوتی تھی۔ فوج اپنے سپہ سالار کے ماتحت ہوتی جو بادشاہ کو جوابدہ ہوتا۔ انسانی تاریخ میں بادشاہ کو شیشے میں اتار کر اپنی مراعات میں اضافے اور کیڈر کو وسعت بھی رومن بیوروکریسی نے دلائی۔ رومن بادشاہ ڈائیو کلیٹیان (Dioclection) جو 284 عیسوی سے 305 عیسوی تک برسرِ اقتدار تھا، اس نے بیوروکریسی کے کہنے پر انتظامی اضلاع دگنے کردیے اور یوں بیوروکریٹس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اضلاع اب اتنے چھوٹے ہوگئے تھے کہ لوگوں سے اکٹھا کیا جانے والا ٹیکس، انتظامیہ کے اخراجات کیلئے ناکافی ہوگیا۔ٹیکس مزید لگے، معاشی صورتحال خراب ہوئی اور یوں اس معاشی بدحالی اور انتظامی نااہلی نے رومن بادشاہت کی تباہی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔مرکزی روم سے علیحدہ ہوکر 395 عیسوی میں بازنطینی سلطنت نے قسطنطنیہ میں ایک اور مرکزِ اقتدار قائم کرکے قدیم عالمی طاقت کے حصے بخرے کر دیے۔ اس دور کے مشہور عیسائی مصنف لیکٹنیٹس (Lactantius) جوسب پہلے عیسائی ہونے والے رومن بادشاہ کانسٹنٹین (Constantine) کا مشیر تھا اور جسے رومن عیسائی ''سسرو'' کہتے ہیں، اس نے تحریر کیا ہے کہ رومن سلطنت کی بربادی، زوال اور تباہی کی اصل بنیاد یہی سول سروس ریفارمز تھیں۔ بیوروکریسی کا خوف ہی تھا کہ بازنطینی بادشاہوں نے ایک انتہائی پیچیدہ اور اشرافیہ پر مبنی سول سروس کا نظام تخلیق کیا جس میں لاتعداد سول اور ملٹری کیڈر ہوتے تھے۔ بادشاہ کو سینیٹ اور فوج دونوں مل کر منتخب کرتے تھے۔ بڑے شہروں کی بیوروکریسی اور فوج علیحدہ ہوتی اور صوبوں کی انتظامیہ اور فوج مختلف۔ آج بھی دنیا بھر میں لکھنے والے جب کسی ملک کی بیوروکریسی کی پیچیدگیوں اور خرابیوں کا ذکر کرتے ہیں اسے ''بازنطینی'' کا نام دیتے ہیں۔ آج کی جدید بیوروکریسی کا زیادہ تر تصور چین کی کوئین (Qin) خاندان کے دور یعنی 206 قبل مسیح کے زمانے میں قائم سول سروس سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس دور میں پہلی دفعہ پورے چین کو ایک قانونی نظام کے تحت متحد کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے چین میں بڑے بڑے خاندانوں کے بچوں کو سول سروس میں لیا جاتا یا انتظامی ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں اور یہ سول سرونٹ اپنے اپنے علاقوں میں بہت زیادہ خودمختار ہوتے تھے۔ سول سروس کے اس طریق کار کو ختم کر کے ایک مرکزی بیورو کریسی قائم کی گئی، جس میں ملک بھر سے ذہین افراد کوانٹرویو کے ذریعے بھرتی کیا جاتا تھا۔ اسکے بعد جب ہن (Han) خاندان برسراقتدار آیا تو انہوں نے مشہور چینی فلاسفر کنفولشیش کی تعلیمات کے مطابق ایک نئی سول سروس کا آغاز کیا۔اس خاندان کے بادشاہ وین (Wen) نے 165 قبل مسیح میں سول سروس میں بھرتی ہونے کے لئے مقابلے کے امتحانات کا آغاز کیا اور نوکری کیلئے اس میں کامیابی کی شرط رکھ دی۔یہ امتحان 618 عیسوی تک آتے آتے تنگ (Tang) خاندان کے زمانے میں پرموشن، اور یہاں تک اعلیٰ اور ذمہ دار عہدوں پر تعیناتی کے لیے بھی لازم کردیا گیا اور یوں امتحانات کا ایک مربوط نظام قائم ہو گیا۔ لیکن ابھی تک اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے بادشاہ یا حکمرانوں کی مرضی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ مگر جب سونگ (Song) خاندان برسراقتدار آیا تو انہوں نے اس کو بدل کر رکھ دیا اور اب صرف سول سروس کے امتحانات میں حاصل ہونیوالی اسناد کوہی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کیلئے اہمیت دی جانے لگی۔ اس کیساتھ ساتھ سانگ خاندان نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ مقابلے کے امتحان (Competitive Examinations) کا آغاز کیا۔پہلے صرف پاس ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا مگر اس نظام کے تحت بہترین پوزیشن لینے والے افراد ہی بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدوں کے مستحق ٹھہرائے جاتے۔ انسانی تاریخ کایہ بہترین نظام 1905ء تک قائم رہا۔اسکا زوال بھی عالمی طاقتوں کے درمیان معاشی رسہ کشی کی وجہ سے ہوا۔ دس مئی 1905ء کو چین نے امریکی مال کا وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کردیا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ اس لیے ان دنوں امریکہ نے بھی بالکل آج کے کرونا وائرس کی طرح 1903ء سے 1905ء تک امریکہ میں پھیلنے والی طاعون کو چینیوں کے کھاتے میں ڈال کر امریکہ میں موجود چینیوں کی آبادیوں پر کریک ڈاؤن شروع کردیے، یہاں تک کہ 1905ء کی سان فرانسسکو میں پھیلنے والے طاعون کے بعد چینیوںکی امریکہ میں امیگریشن پر پابندی کا قانون نافذ کردیا۔امریکی سی آئی اینے چینی علاقے تبت میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے بغاوت کروادی۔ پورے چین میں افراتفری کا سماں پیدا ہوا اور اس کے ساتھ یہ پر امن ملک ایمرجنسیوں کی زد میں آگیا جس کیساتھ ہی اسکی شاندار سول سروس کا بھی خاتمہ ہوگیا (جاری ہے)
Translation part 1:
After a year and a half, what has been recovered from the beating of Imran Khan's Civil Services Reform Committee has put a whip in the hands of every misogynist, thief, corrupt politician and every scoundrel, drowning in lust, power. Given his fear, from high to high and from low to public servant, will dance at his command like a scared scared bear. These reforms of Khan's team have no protection for honesty, denial of wrong orders, and corrupt ministers for the chief minister and the prime minister. After these reforms, the civil servant will become a vehicle whose steering, if an unscrupulous person sits, will speed it up to the destination of corruption and if this unscrupulous ruler has taken over his bureaucrats. If you want to fix the civil service, find the honest politician first, then look for the honest high bureaucrat, and then when you want to fix the civil service, By the time he arrived, Khan's reforms were being blamed for corruption, incompetence and corruption throughout the bureaucracy. The journey that led to the dismantling and disqualification of Pakistan's civil service and the disqualification of Pakistan started by Zulfiqar Ali Bhutto ended the constitutional protection of the constitution for civil service from the 1973 constitution today. The team has put the final nail in it. Is the cry of misconduct, incompetence and corruption the first time weeping in the civil service? And is this weeping only heard in Pakistan? Bureaucracy is a concept all over the world that is self-sustaining, anti-change, supportive of status quo and self-reliant. This is a summary of bureaucracy for those who understand the authority of public administration around the world, and for those who have left a repository of scholarly and research books on civil service worldwide. These authors include countries from all over the world and every major university. Scholarships included. Bureaucracy became the need of rulers in human history when humanity began to write in Babylonian civilization between the Euphrates and the Euphrates in 3500 BC. Crops were accounted for on the plinth and then planted on them. Those few who knew how to read and write, now became the most important requirement for the rule of the king. This group of bureaucracy came into being. In the time of the Pharaohs of Egypt, the civil service was considered to be a skill of a few families, which was passed down from generation to generation. In this civilization on the banks of the Nile, those who deal with everyday affairs were chosen from these families. In ancient Rome, a bureaucracy official was called a Proconsul. An official who acted in accordance with the powers granted by the council. Roman civilization first distinguished between civil and military command in human history. The Pro Council was a kind of civil governor with no army under it. The army was under his commander, who was responsible to the king. The Roman bureaucracy also encouraged the king to expand his privileges and expand the cadre in human history. The Roman king, Diocletian, who ruled from 284 CE to 305 CE, doubled the administrative districts at the behest of the bureaucracy, and the number of bureaucrats increased dramatically. The districts were now so small that the taxes collected by the people were insufficient to cover the expenses of the administration. Taxes increased, the economic situation worsened, and this economic misery and administrative disqualification registered the destruction of the Roman Empire. Separating from Central Rome in 395 CE, the Byzantine Empire established another center of power in Constantinople and destroyed parts of the ancient world power. The well-known Christian author of this period, Lactantius, who was the adviser of Constantine, a former Christian Roman king, and called the Roman Christian "Cicero", wrote that the ruin, fall and destruction of the Roman Empire. This was the basis of civil service reform. The fear of the bureaucracy was that the Byzantine monarchs created a highly sophisticated and elite civil service system consisting of numerous civil and military cadres. Both the Senate and the army were chosen by the king together. The bureaucracy and army of the major cities are separate and the administration and army of the provinces are different.
Even today writers around the world refer to the complexities and drawbacks of a country's bureaucracy as "Byzantine". Much of today's modern bureaucracy has been borrowed from the civilian service of the Qin dynasty of China, dating back to 206 BC. For the first time in this period the whole of China was united under a legal system. Prior to this, children from large families in China were given civil service or assigned administrative responsibilities, and these civil servants were very independent in their respective territories. This process of civil service was abolished and a central bureaucracy was established, in which intelligent people from all over the country were recruited through the interview. Then when the Han family came to power, they started a new civil service in accordance with the teachings of the famous Chinese philosopher Confuclius. King Wen of that family competed for enlistment in the civil service in 165 BC. Started the exams and laid the conditions for success in the job. These exams were made mandatory for the promotion of the Tang Dynasty, up to 618 CE, and even for the appointment of high and responsible positions. Thus an integrated system of examinations was established. But still the will of the kings or rulers was of paramount importance for the appointment of high officials. But when the Song Dynasty came to power, they changed it and now only the certificates obtained in the Civil Service examinations started to be given importance for deployment to higher positions. Along with this, the Sang family started the Competitive Examinations for the first time in human history. At first it was considered necessary to pass, but under this system, those who took the best positions would be eligible for the highest bureaucracy positions. The best system of human history existed until 1905. The decline was also caused by economic coercion between world powers. On May 10, 1905, China boycotted the widespread deportation of American goods. The reason was that, in those days, the United States, like the present-day Corona virus, put the plague that spread to the United States from 1903 to 1905 into the Chinese account. The crackdown on Chinese settlers in the United States began, even after the outbreak of San Francisco in 1905, the Chinese imposed a law banning immigration to the United States. ۔ All over China, chaos ensued, and with it came a peaceful country of emergency, with which its brilliant civil service also ended (continued)

Link To the article
 
Last edited:
Part 2:
پاکستان کی سول سروس ابھی تک انہی خطوط پر استوار ہے، جن پر اسے برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کی مضبوطی اور استحکام کے لیے قائم کیا تھا۔ برطانیہ نے بھی اپنا انتظامی ڈھانچہ ان بنیادوں پر استوار کیا تھا جوپہلے سے مغلیہ دور میں موجود تھیں۔ پورے ہندوستان کو ضلع، پرگنہ اور صوبہ وغیرہ کی تقسیم سے ایک انتظامی اختیاراتی درجہ بندی میں بانٹا گیا تھا۔ چانکیہ کی ارتھ شاستر، البیرونی کی تاریخِ ہند اور آئین اکبری سے لے کر ماثر عالمگیری تک ہر بڑی تاریخی کتاب میں برصغیر کے اس شاندار انتظامی ڈھانچے اور انتہائی کامیاب سول سروس کا پتہ ملتا ہے۔ اس سول سروس کو دو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں، (1) امن وامان کا قیام اور (2) انصاف کی فراہمی۔ اس کے علاوہ بھی اس انتظامی سربراہ اس وقت کے حکمران کے مزاج کے مطابق کچھ اضافی ذمہ داریاں ادا کرتے تھے ، مثلا اگر وہ علاقے فتح کرنا چاہتا ہے تو جنگ کیلئے افراد کی فراہمی یا پھراگر شیر شاہ سوری جیسا عوامی فلاح والے حکمران کیلئے کلکتہ سے پشاور تک ایک ایسی سڑک کی تعمیر، جو سایہ دار درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، ہر کوس پر ایک سرائے، کنواں اور خط و کتابت کی ترسیل کے لئے ایک ڈاک چوکی تک قائم کی گئی تھی۔ برصغیر کی اس قدیم سول بیوروکریسی کا کمال یہ تھا کہ انصاف کی فراہمی، مالیہ کی وصولی اور امن عامہ کے قیام کیلئے پورے ہندوستان میں یکساں قوانین نافذ تھے۔ شمس الدین شمس نے 1230ء میں پورے ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے فقہ حنفیہ نافذ کر دی، جو پورے ہندوستان میں بحیثیت قانون اس وقت تک نافذ رہی جب تک انگریز نے 1860ء میں تعزیرات ہند کا قانون نافذ نہیں کر لیا۔ یہ چھ سو سالہ دور برصغیر پاک و ہند کا سب سے سنہرا دور ہے۔ اس دور میں پوری دنیا کی جی ڈی پی میں ہندوستان کا حصہ تیس فیصد تھا، ملک میں خواندگی کی شرح نوے فیصد سے زیادہ تھی اور امن و امان کا عالم یہ تھا کہ لارڈ میکالے 1835ء میں اپنے تحریر کردہ نوٹس میں لکھتا ہے کہ، اسے پورے ہندوستان میں کوئی چور اور فقیر نظر نہیں آیا۔ ایسے حالات میں بے روزگاری، ناداری اور مفلسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آج ہندوستان کے ماتھے کا جھومر جو عالمی ورثہ ہے، خواہ وہ قطب مینار ہو یا تاج محل یا اسی قبیل کی ہزاروں خیرہ کن عمارات سب اسی دور کی یادگار ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اس خطے میں امن اور خوشحالی تھی اور لوگوں کی تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو ٹوٹی پھوٹی سول سروس یہاں قائم کی اس کا بنیادی مقصدخالصتا کاروباری تھا۔ سراج الدولہ کو 1757ء میں شکست دینے کے بعداس سروس کے افراد کو بنگال میں انتظامی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔ اسکے بعد مدراس اور میسور میں بھی یہی لوگ زیرنگیں علاقوں کا انتظام لینے لگے۔ بادشاہ جیمز اول کی 1609ء میں قائم کردہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے جس قسم کی تجارتی سروس قائم کی گئی تھی، اس کے افراد کوئی انتظامی تربیت اور تجربہ نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف دو کاموں کیلئے بھرتی کئے گئے تھے ‘مال کی تجارت اور جنگ۔ مگر جیسے ہی اس سروس کے افراد کو امن عامہ، انصاف اور ٹیکس وصولی جیسی اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں تو صرف دس سالوں کے اندر ان میں اتنی بددیانتی اور کرپشن پیدا ہو گئی کہ 1764ء میں برطانوی بادشاہ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی توڑ دی جائے۔ چونکہ کمپنی مسلسل نقصان میں جا رہی تھی اس لئے ہندوستان میں مزید رہنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ لیکن 1765ء میں لارڈ کلائیو وائسرائے بن کر آیا اس کی درخوست پر اسے ایک موقع دیا گیا کہ وہ سول سروسز ریفارمز کرکے اسے بہتر بنائے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو منافع بخش بنائے۔ لارڈ کلائیو اس نتیجے پر پہنچا کہ کرپشن کی بنیادی وجہ ملازمین کی کم تنخواہیں ہیں، جو ان کی مناسب اور باعزت زندگی گزارنے کیلئے کافی نہیں ہیں۔ کمپنی کے ملازمین کو تجارت کرنے کی اجازت دی گئی تھی تاکہ وہ اپنے لئے بھی کچھ کماسکیں۔ وہ کمپنی کا مال بھی انگلینڈ لے جاتے اور ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی یہاں سے مال لے جاکر انگلینڈ میں بیچتے۔ مفادات کے اسی ٹکراؤ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا بیڑہ غرق کردیااور انگریز یہاں سے بوریا بستر گول کرنے کا سوچنے لگا۔ لارڈ کلائیو نے تمام کاروبار کو صرف اور صرف کمپنی کے لیے مختص کر دیا۔ ملازمین کے کاروبار پر پابندی لگا دی ، لیکن تجارت سے ہونیوالے منافع میں سے 65 فیصد کمپنی کے ملازمین میں درجہ بدرجہ تقسیم کر دیا جاتا اور کمپنی صرف 35 فیصد منافع اپنے پاس رکھتی۔اس فیصلے نے اس سول سروس کی کایا ہی بدل دی۔ اس فیصلے کے بعد ملازمین کے لیے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا جسے عہد و پیمان کہا جاتا ہے۔ اس ضابطہ اخلاق کے تحت کسی بھی ہندوستانی شہری سے معمولی تحفہ بھی قبول کرنا جرم تھا جس کی سزا نوکری سے برطرفی تھی۔ اسی عہد وپیمان کی وجہ سے ہندوستان کی سول سروس کو Covenanted سول سروس کہا جاتا رہا۔ برصغیر میں سول سروس کی تطہیر اور ریفارمز کی یہ پہلی کامیاب کوشش تھی جس نے آنیوالے دنوں کیلئے ایک کلیہ چھوڑ دیا کہ جب تک آپ وسیع اختیارات رکھنے والے انتظامی عہدیداروں کو معاشی طور پر اس قدر بے فکر نہیں کر دیتے کہ وہ اپنی تنخواہ سے ایک بھرپور عزت دار زندگی گزار سکیں تو آپ انہیں اہل، کامیاب اور دیانتدار افسر نہیں بنا سکتے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ اگر آپ ملک میں ٹیکس یا آمدن بڑھانا چاہتے ہیں تو اسکے لئے سول سروس کے افراد کو بھی حصہ دار بناؤ۔ایسا کرنے سے وہ زیادہ ٹیکس وصول کرینگے اور حکومت کے محصولات میں اضافہ کریگا۔ان کامیاب ریفارمز کے بعد ایک سو سال تک برطانوی ہندوستان میں سول سروس کی کہانی ایک شاندار، کامیاب، ایماندار اور اہل سول سروس کی داستان ہے۔ وارن ہسیٹنگ نے 1773ء میں اس کے خدو خال واضح کیے اور اسے ایک مرکزی ڈھانچے میں مربوط کیا۔ اس کے بعد لارڈ کار نیویلس نے ان کی تعداد میں اضافہ کیا، انہیں مجسٹریٹ کے اختیارات دیئے اور اختیارات کے حساب سے انہیں اس قدر بااختیار کر دیا کہ ایک انتظامی سربراہ، ڈپٹی کلکٹر یا ڈپٹی کمشنر اپنے وجود میں ایک چھوٹا سا وائسرائے نظر آتا۔ ان اختیارات کے بعد بھی ایک دفعہ پھر کرپشن کی شکایات آنا شروع ہوئیں تو کارنیویلس نے ایک بار پھر ان کی تنخواہوں میں ان کے مرتبے اور اختیار کے حساب سے اضافہ کر دیا گیا۔اس نے سروس کے دو کیڈر بنادیئے۔ ایک کیڈر ان افسران کا تھا جسے عہد و پیمان (Covenant) سول سروس کہتے تھے۔یہ بہت کم تھے لیکن ان کے نیچے کام کرنے والوں کا ایک وسیع کیڈر بھی تخلیق کیا گیا۔با لائی کیڈر کے افراد کو اسقدر مضبوط ، معاشی طور پر مستحکم اور اختیارات کے حساب سے بالادست بنایا گیا کہ ان پر دباؤ ڈال کر غلط کام کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تجربہ اس قدر کامیاب تھا کہ اس نے ایک غیر ملکی قوت برطانیہ کو یہاں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔اگر یہ سول سروس ناکام، نااہل، کرپٹ افراد پر مشتمل ہوتی تو عوامی غیض وغضب اس حد تک بپھر جاتا کہ وہ انگریز جن کی ہندوستان میں ایک وقت میں تعداد کبھی بھی تیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی، بہت پہلے بوریا بستر لپیٹ کر ہندوستان سے رخصت ہو جاتے۔ 1773ء میں بننے والی اس سول سروس نے پورے ایک سو دس سال یعنی 1887ء تک اپنی اہلیت، قابلیت، دیانت داری اور انصاف سے تاج برطانیہ کو یہاں مضبوط کیا اور لوگوں کو انصاف ، امن و امان اور سروسز کی فراہمی کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہی وہ دور ہے جب ہندوستان میں ریلوے، ڈاکخانہ، تعلیمی ادارے، نہری نظام، صحت عامہ، جانوروں کی صحت کے ہسپتال ، جنگلات، بلدیات، عدالتیں اور وہ تمام ادارے قائم ہوئے جن پر اس وقت پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما اور نیپال کے ممالک کی پوری انتظامی مشینری کی عمارت قائم ہے ۔(جاری ہے )
Translation part 2:
Pakistan's civil service is still based on the lines on which it was established by British imperialism to consolidate and strengthen its sovereignty. The United Kingdom also built its administrative structure on the basis of those that existed in the Mughal era. The whole of India was divided into districts, provinces and provinces, etc., into an administrative authority ranking. Every great historical book, from Chanakya's Arthur Schuster, the History of Alberoni to the Indian and Constitution of Akbari to Maha Alamgiri, reveals the magnificent administrative structure of the subcontinent and the most successful civil service. This civil service was entrusted with two important responsibilities, (1) the establishment of peace and (2) the delivery of justice. Apart from this, the chief of the administration also served some additional responsibilities according to the mood of the then ruler, for example, if he wanted to conquer the area, supplying people for war or for public welfare such as Sher Shah Suri from Calcutta. Until Peshawar, a road that was covered with shady trees was set up on every street to carry an inn, well and a post office for correspondence. The perfection of this ancient civil bureaucracy of the subcontinent was that uniform laws were in place throughout India for the delivery of justice, the collection of taxes and the establishment of public peace. Shamsuddin Shams imposed the Hanafiya in 1230, enforcing Islamic laws all over the country, which remained in force throughout India until the British implemented the Indian Constitution in 1860. This is the golden age of the Pak-India, 600 years away. At that time India's share of the world's GDP was thirty percent, the literacy rate in the country was more than ninety percent and the law and order was that Lord Macaulay writes in his notice written in 1835, There are no thieves and poor people all over India. In such situations, there is no question of unemployment, ignorance and poverty. Today, India's forehead is the World Heritage Site, whether it be the Pole Minar or the Taj Mahal or the thousands of monumental buildings of the same tribe. This is the time when peace and prosperity was in the region and the creativity of the people was at its peak. The main purpose of the East India Company which was established here was purely business. After the defeat of Sirajudullah in 1757, the service personnel were entrusted with administrative responsibilities in Bengal. Subsequently, the same people in Madras and Mysore began to take control of the suburbs. The kind of trading service that was established for the East India Company, founded in 1609 by King James I, had no management training and experience, but was recruited for only two purposes: the trade and the war of goods. But as soon as the people in this service were entrusted with important responsibilities such as peace, justice and tax collection, within ten years they were so corrupt and corrupt that the British King decided in 1764 that the East India Company was broken. Be given Since the company was constantly at a disadvantage, there was no point in staying longer in India. But in 1765, when Lord Clive became Viceroy, he was given an opportunity to reform civil services and make the East India Company profitable. Lord Clive concludes that the main reason for corruption is the low salaries of the employees, which is not enough to earn them a decent and decent life. Company employees were allowed to trade so they could earn something for themselves. He used to take the company's goods to England as well as sell the goods for himself in England. This clash of interests sank the East India Company's fleet and the British began thinking of scoring a bed of sack from here. Lord Clive allocated all business to one and only company. Employees' businesses were banned, but 65% of the profits made from the trade were distributed among the company's employees and the company held only 35% of the profits. That decision changed the course of this civil service. Following this decision, a code of conduct was established for employees called the Code of Conduct. Under this Code of Conduct, it was a crime to accept even the slightest gift from any Indian citizen who was sentenced to dismissal. It was during this period that the Indian Civil Service became known as the Covenanted Civil Service. It was the first successful attempt at civil service disarmament and reform in the subcontinent that left a specter for the coming days that unless you economically discourage executives with broad powers, You cannot make them qualified, successful and honest officers if you can lead a life of great respect. The other important point was that if you want to increase the tax or income in the country, then make the civil service people a stake in it. By doing so they will receive more tax and increase the government revenue. After these successful reforms. For 100 years the story of civil service in British India is the story of a brilliant, successful, honest and capable civil service.
Warren Hastings clarified its design in 1773 and integrated it into a central structure. Then Lord Carne Nevilles increased his numbers, gave him magistrate powers and empowered him with such authority that an administrative chief, deputy collector or deputy commissioner would appear to be a minor viceroy in his existence. Against these powers, once again the corruption complaints started to come up, and once again, Carnivales was increased his salary according to his rank and authority. He made two cadre of service. One cadre was one of the officers called the Covenant Civil Service. They were few, but a vast cadre of workers was created below them. Strong and empowered in the sense that they cannot be imagined to do wrong under pressure. This experiment was so successful that it gave Britain a chance to step in here as a foreign force. If this civil service consisted of unsuccessful, incompetent, corrupt people, the public anger would fade to the extent that the British In India, at one time the number was never more than thirty thousand, before long the sack of boredom would leave India. The Civil Service, formed in 1773, strengthened the Kingdom of Britain here for a hundred and ten years, 1887, with its ability, ability, integrity and justice, and established a record of justice, law and order and services to the people. This is the period when railways, post offices, educational institutions, canal system, public health, animal health hospitals, forests, municipalities, courts and all the institutions that were then established in India, Pakistan, Bangladesh, Sri Lanka, Burma. And the entire administrative machinery building of Nepal's countries is set up (continued).

Link to the Article: part 2

@Mentee

@greenblooded @SoulSpokesman @Politico


Part 3:
قیام پاکستان کے بعد پورے ملک کا انتظام و انصرام اسی سول سروس کے ذمہ تھا، جس کی وجہ سے ایک گھنٹے کے لیے بھی امورِ سلطنت کی انجام دہی میں خلل نہیں پڑا۔ تمام کاروبار سلطنت بالکل ویسے ہی چلتا رہا، حالانکہ جیسی افتاد اس زمانے میں ٹوٹیں اور جس طرح کی بے سر و سامانی کا عالم تھا اگر سرکاری مشینری مضبوط نہ ہوتی تو یہ نو زائیدہ ملک آغاز میں ہی ہمت ہار جاتا۔ دس لاکھ لوگ سرحد کے آر پار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور لاکھوں مہاجرین کے قافلے کیمپوں میں پڑے ٹھکانوں کے منتظر تھے۔ خزانے میں سے پاکستان کے حصے کی رقم روک لی گئی تھی اور ملک کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے بھی رقم موجود نہ تھی۔ یہ مشکل ترین دور اس بات کا گواہ ہے کہ چٹاگانگ سے لے کرجیسور تک اور کراچی سے لے کے خنجراب تک پورے ملک میں ایک دن کے لیے بھی کسی قسم کا نظام معطل نہیں ہوا۔ یہی سرکاری ملازمین تاریخ پاکستان کے وہ گمنام کارکن ہیں جن کی کہانیاں آج تک کسی نے مرتب نہیں کیں۔ حکومتی قیادت سیاسی حکمرانوں کے پاس ہوتی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ مملکت کا کاروبار دراصل چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ سطحی افسرتک، ڈاکٹرز، انجینئرز، ڈرائیور، ڈسپنسر، کلرک اور دیگر سرکاری کارندوں کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اس ملک کے آغاز سے ہی سیاسی طوفان آتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، اسمبلیاں معطل ہوتی رہیں، صرف چند مہینوں کے وقفے سے وزیراعظم تبدیل ہوتے رہے۔ لیکن پاکستان کے پہلے دس سالوں میں اس کی ترقی کا پہیہ نہیں رکا اور صرف دس سال کے عرصے میں یہ ملک دنیا کے نقشے پر ایک ابھرتی ہوئی معیشت اور طاقت کے طور پر سامنے آ گیا۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ 1947ء میں اس ملک میں سات لاکھ پچیس ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر تھا لیکن صرف دس سال بعد یہ تعداد صرف گیارہ ہزار رہ گئی۔ یہ سب اسی گمنام سول سروس اور سرکاری ملازمین کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔ یہی دور تھا جب اس سول سروس کی تباہی کی بنیاد بھی رکھ دی گئی تھی۔ قائداعظم نے سول سروس کو پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیا اور انہیں ''حکومت نہیں ریاست'' کا ملازم قرار دیا۔ قائداعظم نے بار بار سرکاری افسران سے خطاب فرمایا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہر خطاب کا آغاز تقریبا ایسے ہوتا ہے '' میرا پختہ یقین ہے کہ ہماری کامیابی اور فلاح اسلام اور حضرت محمد ﷺجو عظیم قانون دان تھے کے مرتب کردہ سنہری اصولوں کو اپنانے میں پنہاں ہے''۔ یہ الفاظ گیارہ اکتوبر 1947 کو کہے گئے۔ اس کے بعد چودہ فروری 1948 کو قائد اعظم نے کہا '' میں چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے حضور پیش ہوں تو آپ پورے اعتماد سے کہہ سکیں کہ میں نے اپنا فرض انتہائی ایمانداری، وفاداری اور صمیم قلب سے ادا کیا۔ اسلامی قوانین کی بالادستی اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس دلانے والے قائداعظم نے 14 اپریل 1948 کو پشاور میں انہی افسران سے کہا '' آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاستدان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو کسی طرح کے دباؤ کا شکار نہ ہوں اور عوام و مملکت کے سچے خادم کی حیثیت سے اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے ادا کریں''۔ آج یہ ریڑھ کی ہڈی مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس سول سروس کو لاتعداد چھوٹے چھوٹے مرض لاحق ہونا شروع ہوگئے تھے جن میں کرپشن کا ناسوربھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی وہ جائیدادیں تھیں جن کی الاٹمنٹ کے لیے مہاجرین کلیم داخل کر رہے تھے۔ ان مہاجرین کی آبادکاری نے اس طرح اس نوزائیدہ ملک کی سرکاری مشینری کو کرپشن کی دیمک سے اسقدر کرم خوردہ کیا کہ 1959ء میں اس سروس کی اصطلاحات کا جب پہلا کمیشن جسٹس کارنیلس کی سربراہی میں بنا تو اس نے 1962ء میں اپنی رپورٹ کے آغاز میں ہی یہ حقیقت لکھی کہ '' اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی محکمہ بھی اس سے بچا ہوا نہیں۔ برطانوی دور میں یہ دعویٰ درست تھا کہ انڈین سول سروس کرپشن سے پاک ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ سی ایس پی آفیسر ان میں سے بھی تین کے خلاف اینٹی کرپشن کے مقدمے قائم ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی ممکن نہ تھا''۔ جسٹس کارنیلس کی 478 صفحات پر مشتمل رپورٹ مرض کی تشخیص کرتی تھی،اور اس کا علاج بھی بتاتی تھی۔ لیکن چونکہ اس وقت تک پاکستان کی سول سروس کو ایک سیاسی اکھاڑہ بنا لیا گیا تھا اور کوئی اسکی سمت درست کرنے میں مخلص نہ تھا، اسی لیے یہ رپورٹ الماریوں کی زینت بنا دی گئی اور اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ ایوب خان کا مارشل لاء لگ چکا تھا اور اب سیاست میں سول بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ ملٹری بیوروکریسی بھی داخل ہوچکی تھی، بلکہ اب یہ ایک سینئر پارٹنر تھی۔ ان دونوں نے مل کر نہ صرف سیاست دانوں سے وقتی آزادی حاصل کی بلکہ انہیں اپنے اشاروں پر چلانا بھی شروع کر دیا۔ یہ ملک اب ایک ایسی دلدل میں جا گرا تھا جہاں سیاستدان، فوج اور بیوروکریسی مفادات کی جنگ لڑ رہے تھے اور ملک کا مفاد اوجھل تھا۔ بیوروکریسی چونکہ کام جانتی تھی، بلکہ صرف وہی کام جانتی تھی اور اس کے بغیر ملک کی گاڑی چلانا مشکل تھا اس لیے یہ سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ایک ایسی محبوبہ بن گئی جو ہر آنے والے حکمران کے لئے سیج سجاتی، عشوہ و ا دا دکھاتی اور اسے شیشے میں اتار کر اپنا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتی۔یہ ہر دور میں ہر حکمران کی آنکھوں کا تارا بنی رہی۔ اسے قابو میں کرنے، زیر دام لانے اور مستقل وفادار بنانے کے لیے کبھی اسے ڈرایا گیا اور کبھی لالچ دیے گئے۔ یحییٰ خان نے اقتدار میں آتے ہی اعلی ترین 303 آفیسران فارغ کر دیئے جن میں قدرت اللہ شہاب اور مصطفی زیدی جیسے لوگ بھی تھے۔ بھٹو برسراقتدار آیا تو اس نے چودہ سو آفیسران نکال دیے جن میں الطاف گوہر جیسے افراد بھی تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک ڈھانچہ ابھی تک قائم تھا، جسے قائداعظم نے ریڑھ کی ہڈی کہا تھا۔ اس لیے کہ اس سول سروس میں ایماندار رہنے، حکمرانوں کے ناجائز کاموں سے انکار کرنے اور سر اٹھا کر نوکری کرنے کے لئے انہیں آئینی تحفظ حاصل تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے نئے پاکستان کے نئے آئین میں اس تحفظ کو ختم کرکے بیوروکریسی کو ایک زرخرید لونڈی میں تبدیل کر دیا جس کو جس طرف چاہے موڑ دیا جائے اور جب چاہیں نکال دیا جائے۔ اس کے بعد کے سینتالیس سال سول سروس کے زوال کے سال ہیں۔ ضیاء الحق نے اسے واپس درست کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے بھی انہیں آئینی تحفظ دینے سے انکار کیا، کیونکہ اسی تحفظ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی تو آج سول سروس اسکی غلام تھی۔ بینظیر اور نواز شریف نے ان غلاموں کو دو سیاسی پارٹیوں میں بدل کر رکھ دیا۔ مشرف نے انہیں مکمل طور پر بے اختیار کرنے کی کوشش کی، ناظم کا نظام لایا گیا،اور بیوروکریسی کی حیثیت ایک گھریلو ملازمہ جیسی بنا دی گئی۔ لیکن چونکہ اس سول سروس کے بغیر سرکار کا کاروبار چلنا مشکل تھا۔اسی لیے یہ واپس گھریلو ملازمہ سے دوبارہ منظورنظر محبوبہ بن گئی۔ عمران خان صاحب کے ریفارمز بھی اس عشوہ طراز محبوبہ کی نوک پلک سوار کر اسے تابع فرمان لونڈی کی حیثیت دینا چاہتی ہیں۔ ایک ایسی بیوروکریسی جو ان کے اشاروں پر رقص کرتی ہو۔ ان اصلاحات میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی ہو۔ ایسی اصلاحات کئی بار نافذ ہوئیں اور بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ لیکن اس دفعہ شاید انکی ناکامی انتہائی شدید ہو۔ اس لیے کہ پہلی اصلاحات کے وقت سول سروس میں کچھ اخلاقیات و اصول باقی تھے۔ اب توان اصلاحات نے دلدل میں غرق اس سول سروس کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا مکمل بندوبست کر لیا ہے۔
Translation part 3:
After the establishment of Pakistan, the management of the whole country was responsible for the same civil service, which did not interfere with the affairs of the empire for even an hour. All the business empire continued to operate, though disasters such as that were broken in those days and the kind of inequality that would have been lost in the beginning of a new country if government machinery were not strong. One million people were wasting their lives across the border, and millions of refugees were waiting for refugees in caravan camps. Pakistan's share of the treasury was withheld and the country did not even have the money to pay salaries. The hardest time is witness to the fact that no system was suspended for a single day across the country, from Chittagong to Jessore and from Karachi to Khunjerab. These government employees are anonymous workers of history whose history has never been compiled by anyone. Government leadership is dominated by political rulers, but the ground truth is that the business of the state is virtually diminished, from cadres to top-level executives, doctors, engineers, drivers, dispensers, clerks and other government officials. From the beginning of this country, political storms kept coming, the governments were changing, the assemblies were suspended, the Prime Minister was changing for only a few months. But in the first ten years of Pakistan it did not hold its wheels, and in just ten years, the country emerged as an emerging economy and power on the world map. Just to give an example, in 1947, there was a doctor on 700,000 people in this country, but only ten years later that number was only eleven thousand. All of this was possible because of the anonymous civil service and civil servants. This was the period when the foundation of the destruction of this civil service was laid. The Quaid-e-Azam declared the civil service as the backbone for Pakistan and called it a "government not a state". Quaid-e-Azam repeatedly addressed government officials. Surprisingly, every speech begins almost as if "I firmly believe that our success and well-being are in keeping with the golden principles set by Islam and Hazrat Mohammed, who was a great lawyer." The words were said on October 11, 1947. Then on February 14, 1948, the Quaid-e-Azam said, "I want you to be present before God. You can say with confidence that I have performed my duty with utmost honesty, loyalty and good heart." Quaid-e-Azam, who expressed the supremacy of Islamic law and accountability before Allah, told these officers in Peshawar on April 14, 1948, “You should not under any kind of political pressure. You should not accept the influence of a political party or a politician. If you really want to elevate the dignity of Pakistan, do not suffer any pressure and perform your duty as a true servant of the people and the state, indiscriminately and selflessly ”. Today this spinal cord is completely broken. After the establishment of Pakistan, the civil service began to suffer a number of minor diseases in which corruption was able to make its place. The main reasons for this were the properties left by the Hindus whose refugees were entering the claim for allotment. The settlement of these refugees made the new machinery of the newly born country so corrupted by corruption that the terms of this service were created in 1959 when the first commission headed by Justice Cornelius began in 1962 at the beginning of its report. He wrote the fact that “The biggest problem at the moment is corruption and we have come to the conclusion that no department has been spared. In the British era, the claim was valid that the Indian civil service was free from corruption. But, surprisingly, the present CSP officer is presenting three anti-corruption cases against three of them, which was not possible before. ” Justice Cornelius's 478-page report diagnosed the disease, and cured it. But since then the civil service of Pakistan was made a political arena and no one was sincere in its direction, so the report was adorned with cabinets and could not be processed. Ayub Khan's martial law had begun and he was now entering the civil bureaucracy in politics as well as the military bureaucracy, but now he was a senior partner. Together they not only gained timely independence from the politicians but also started to run them on their signals. The country had now fallen into a swamp where politicians, the army and the bureaucracy were waging wars and the interests of the country were at stake. Since the bureaucracy knew the work, only the job was known and without it, it was difficult to drive the country, so it became a beloved of politicians and generals who showed decency, awe and dismay for every incoming ruler. Trying to take advantage of it by taking it in glasses. It remained the eye of every ruler in every era.
He was sometimes intimidated and tempted to control, control, and make a lasting loyalty. Yahya Khan, when he came to power, dismissed the top 303 officers, including people like Qudratullah Shahab and Mustafa Zaidi. When Bhutto came to power, he expelled fourteen hundred officers, including persons like Altaf Gohar. But despite all this, a structure was still in place, which Quaid-e-Azam called the backbone. Because they had constitutional protection in this civil service, to be honest, to deny the rulers' wrongdoing, and to take up their jobs. Zulfiqar Ali Bhutto abolished this protection in the new constitution of Pakistan and turned the bureaucracy into a ferocious slave that could be diverted and expelled whenever. Forty-three years after that are the fall years of the civil service. Zia-ul-Haq tried to correct him back, but he also refused to give them constitutional protection, because of the absence of such protection, the civil service was his slave today. Benazir and Nawaz Sharif turned these slaves into two political parties. Musharraf tried to disarm him completely, the system of the Nazis was brought in, and the bureaucracy's status was made like a domestic employee. But since the civil service was difficult to operate without this civil service, it became a beloved employee back home. Imran Khan's referees also want to give him the status of a submissive slave girl by riding the tip of his sleeveless girlfriend. A bureaucracy that dances to their gestures. None of these reforms are new. Such reforms have been implemented many times and have failed miserably. But this time, their failure may be very severe. Because at the time of the First Reformation there were some ethics and principles in the civil service. Now, energy reform has made full arrangement to bring this civil service to the brink of destruction in the swamp. (to be continued)

Link to Article: Part 3
 
In this thread, I will present the series of columns written by an ex-bureaucrat.
This will shed some light on what is actually the management problem of Pakistan. The author might not preset the real solution, but that I will present in last.

The original series is in Urdu, so I will use Google translator to present the translation is well(translation is pathetic). I will present the real source as well.

Part 1:
ڈیڑھ سال کے بعد عمران خان صاحب کی سول سروسز ریفارمز کمیٹی کی پٹاری سے جو برآمد ہوا ہے اس نے ہر بددیانت، چور، کرپٹ سیاستدان اور ہر طالع آزما، ہوسِ اقتدار میں غرق، مسند اقتدار پر موجود شخص کے ہاتھ میں ایک ایسا چابک تھما دیا ہے، جس کے خوف سے اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنی سے ادنیٰ سرکاری ملازم،ایک سدھائے ہوئے خوف زدہ ریچھ کی طرح انکے حکم پر ناچے گا۔ خان صاحب کی ٹیم کی ان ریفارمز میں ایمانداری کی حفاظت، غلط احکامات سے انکار، اور بددیانت وزراء وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم کے سامنے سینہ سپر ہونے والے شخص کے لیے کوئی تحفظ موجود نہیں ہے۔ ان ریفارمز کے بعد سول سرونٹ ایک ایسی گاڑی بن جائے گا جس کی اسٹیرنگ پر اگر ایک بددیانت شخص بیٹھے گا تو وہ اسے بھی تیز رفتاری کے ساتھ کرپشن کی منزل مقصود پر پہنچائے گا اور اگر اس بد دیانت حکمران نے اس کے بالا دست بیوروکریٹس ٹولے کو بھی قابو میں کیا ہوا ہے تو پھر ہر جھوٹے بد دیانت سول سرونٹ کی پرموشن کو پر لگ جائیں گے۔اسکے مقابلے میں اگر آپ سول سروس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہو تو پہلے دیانت دار سیاستدان ڈھونڈو، پھر دیانتدار اعلیٰ بیوروکریٹ ڈھونڈو، اور جب تک وہ میسر آئیں گیاتنے عرصے میں خان صاحب کی ریفارمز پوری بیوروکریسی کو کرپشن، ناہلی اور بددیانتی کی دلدل میںدھکیل چکی ہو گی۔پاکستان کی سول سروس کو تباہ و برباد کرنیاور اسے نا اہل اور بددیانت بنانے کے جس سفر کا آغاز زوالفقارعلی بھٹو نے 1973ء کے آئین میں سے سول سروس کیلئے آئین میں موجود آئینی تحفظ کو ختم کرکے کیا تھا آج عمران خان صاحب کی ٹیم نے اس میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ کیا بددیانتی، نااہلی اور کرپشن کا رونا سول سروس میں پہلی دفعہ رویا گیا ہے؟ اور کیا یہ رونا صرف پاکستان میں رویا جاتا ہے؟ پوری دنیا میں بیوروکریسی ایک ایسا ادارہ تصور ہوتی ہے جو خود اپنی اصلاح سے عاری، تبدیلی کا مخالف، سٹیٹس کو (Status Quo) کا حامی اور خودپسندی کا شکار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں پبلک ایڈمنسٹریشن پر اتھارٹی سمجھے والے اور بیوروکریسی، سول سروس کے بارے میں دنیا بھر کے لئے علمی اور تحقیقی کتب کا ذخیرہ چھوڑ جانے والوں کے نزدیک بیوروکریسی کا یہی خلاصہ ہے۔ان لکھاریوں میں دنیا کے ہر ملک اور ہر بڑی یونیورسٹی کے سکالرز شامل ہیں۔ بیوروکریسی انسانی تاریخ میں حکمرانوں کی اس وقت ضرورت بنی جب 3500 قبل مسیح میں دجلہ و فرات کے درمیان آباد بابل کی تہذیب میں انسان نے لکھنا شروع کیا۔ مٹی کی تختیوں پر فصلوں کا حساب و کتاب ہوتا اور پھر ان پر لگان لگایا جاتا۔ وہ چند لوگ جو پڑھنا لکھنا اور حساب کتاب جانتے تھے،اب بادشاہ کی حکمرانی کے لیے اہم ترین ضرورت بن گئے۔یوں بیوروکریسی کا گروہ وجود میں آگیا۔ فراعینِ مصر کے زمانے میں یہ سول سروس چند خاندانوں کی مہارت تصور ہوتی تھی جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی۔ دریائے نیل کے کنارے آباد اس تہذیب میں روزمرہ انتظامی معاملات حل کرنے والے افراد ان ہی خاندانوںمیں سے چنے جاتے تھے۔ قدیم روم میں بیوروکریسی کے عہدے دار کو پرو کونسل (Proconsul) کہا جاتا تھا۔وہ عہدیدار جو کونسل یعنی سینٹ کے عطاء کردہ اختیارات کے مطابق عمل کرتا ہو۔ رومن تہذیب نے انسانی تاریخ میں سب سے پہلے سول اور ملٹری کمانڈ کے درمیان تفریق کی تھی۔ پرو کونسل ایک طرح کا سول گورنر ہوتا جس کے ماتحت فوج نہیں ہوتی تھی۔ فوج اپنے سپہ سالار کے ماتحت ہوتی جو بادشاہ کو جوابدہ ہوتا۔ انسانی تاریخ میں بادشاہ کو شیشے میں اتار کر اپنی مراعات میں اضافے اور کیڈر کو وسعت بھی رومن بیوروکریسی نے دلائی۔ رومن بادشاہ ڈائیو کلیٹیان (Dioclection) جو 284 عیسوی سے 305 عیسوی تک برسرِ اقتدار تھا، اس نے بیوروکریسی کے کہنے پر انتظامی اضلاع دگنے کردیے اور یوں بیوروکریٹس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اضلاع اب اتنے چھوٹے ہوگئے تھے کہ لوگوں سے اکٹھا کیا جانے والا ٹیکس، انتظامیہ کے اخراجات کیلئے ناکافی ہوگیا۔ٹیکس مزید لگے، معاشی صورتحال خراب ہوئی اور یوں اس معاشی بدحالی اور انتظامی نااہلی نے رومن بادشاہت کی تباہی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔مرکزی روم سے علیحدہ ہوکر 395 عیسوی میں بازنطینی سلطنت نے قسطنطنیہ میں ایک اور مرکزِ اقتدار قائم کرکے قدیم عالمی طاقت کے حصے بخرے کر دیے۔ اس دور کے مشہور عیسائی مصنف لیکٹنیٹس (Lactantius) جوسب پہلے عیسائی ہونے والے رومن بادشاہ کانسٹنٹین (Constantine) کا مشیر تھا اور جسے رومن عیسائی ''سسرو'' کہتے ہیں، اس نے تحریر کیا ہے کہ رومن سلطنت کی بربادی، زوال اور تباہی کی اصل بنیاد یہی سول سروس ریفارمز تھیں۔ بیوروکریسی کا خوف ہی تھا کہ بازنطینی بادشاہوں نے ایک انتہائی پیچیدہ اور اشرافیہ پر مبنی سول سروس کا نظام تخلیق کیا جس میں لاتعداد سول اور ملٹری کیڈر ہوتے تھے۔ بادشاہ کو سینیٹ اور فوج دونوں مل کر منتخب کرتے تھے۔ بڑے شہروں کی بیوروکریسی اور فوج علیحدہ ہوتی اور صوبوں کی انتظامیہ اور فوج مختلف۔ آج بھی دنیا بھر میں لکھنے والے جب کسی ملک کی بیوروکریسی کی پیچیدگیوں اور خرابیوں کا ذکر کرتے ہیں اسے ''بازنطینی'' کا نام دیتے ہیں۔ آج کی جدید بیوروکریسی کا زیادہ تر تصور چین کی کوئین (Qin) خاندان کے دور یعنی 206 قبل مسیح کے زمانے میں قائم سول سروس سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس دور میں پہلی دفعہ پورے چین کو ایک قانونی نظام کے تحت متحد کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے چین میں بڑے بڑے خاندانوں کے بچوں کو سول سروس میں لیا جاتا یا انتظامی ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیں اور یہ سول سرونٹ اپنے اپنے علاقوں میں بہت زیادہ خودمختار ہوتے تھے۔ سول سروس کے اس طریق کار کو ختم کر کے ایک مرکزی بیورو کریسی قائم کی گئی، جس میں ملک بھر سے ذہین افراد کوانٹرویو کے ذریعے بھرتی کیا جاتا تھا۔ اسکے بعد جب ہن (Han) خاندان برسراقتدار آیا تو انہوں نے مشہور چینی فلاسفر کنفولشیش کی تعلیمات کے مطابق ایک نئی سول سروس کا آغاز کیا۔اس خاندان کے بادشاہ وین (Wen) نے 165 قبل مسیح میں سول سروس میں بھرتی ہونے کے لئے مقابلے کے امتحانات کا آغاز کیا اور نوکری کیلئے اس میں کامیابی کی شرط رکھ دی۔یہ امتحان 618 عیسوی تک آتے آتے تنگ (Tang) خاندان کے زمانے میں پرموشن، اور یہاں تک اعلیٰ اور ذمہ دار عہدوں پر تعیناتی کے لیے بھی لازم کردیا گیا اور یوں امتحانات کا ایک مربوط نظام قائم ہو گیا۔ لیکن ابھی تک اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے بادشاہ یا حکمرانوں کی مرضی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ مگر جب سونگ (Song) خاندان برسراقتدار آیا تو انہوں نے اس کو بدل کر رکھ دیا اور اب صرف سول سروس کے امتحانات میں حاصل ہونیوالی اسناد کوہی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کیلئے اہمیت دی جانے لگی۔ اس کیساتھ ساتھ سانگ خاندان نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ مقابلے کے امتحان (Competitive Examinations) کا آغاز کیا۔پہلے صرف پاس ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا مگر اس نظام کے تحت بہترین پوزیشن لینے والے افراد ہی بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدوں کے مستحق ٹھہرائے جاتے۔ انسانی تاریخ کایہ بہترین نظام 1905ء تک قائم رہا۔اسکا زوال بھی عالمی طاقتوں کے درمیان معاشی رسہ کشی کی وجہ سے ہوا۔ دس مئی 1905ء کو چین نے امریکی مال کا وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کردیا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ اس لیے ان دنوں امریکہ نے بھی بالکل آج کے کرونا وائرس کی طرح 1903ء سے 1905ء تک امریکہ میں پھیلنے والی طاعون کو چینیوں کے کھاتے میں ڈال کر امریکہ میں موجود چینیوں کی آبادیوں پر کریک ڈاؤن شروع کردیے، یہاں تک کہ 1905ء کی سان فرانسسکو میں پھیلنے والے طاعون کے بعد چینیوںکی امریکہ میں امیگریشن پر پابندی کا قانون نافذ کردیا۔امریکی سی آئی اینے چینی علاقے تبت میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے بغاوت کروادی۔ پورے چین میں افراتفری کا سماں پیدا ہوا اور اس کے ساتھ یہ پر امن ملک ایمرجنسیوں کی زد میں آگیا جس کیساتھ ہی اسکی شاندار سول سروس کا بھی خاتمہ ہوگیا (جاری ہے)
Translation part 1:
After a year and a half, what has been recovered from the beating of Imran Khan's Civil Services Reform Committee has put a whip in the hands of every misogynist, thief, corrupt politician and every scoundrel, drowning in lust, power. Given his fear, from high to high and from low to public servant, will dance at his command like a scared scared bear. These reforms of Khan's team have no protection for honesty, denial of wrong orders, and corrupt ministers for the chief minister and the prime minister. After these reforms, the civil servant will become a vehicle whose steering, if an unscrupulous person sits, will speed it up to the destination of corruption and if this unscrupulous ruler has taken over his bureaucrats. If you want to fix the civil service, find the honest politician first, then look for the honest high bureaucrat, and then when you want to fix the civil service, By the time he arrived, Khan's reforms were being blamed for corruption, incompetence and corruption throughout the bureaucracy. The journey that led to the dismantling and disqualification of Pakistan's civil service and the disqualification of Pakistan started by Zulfiqar Ali Bhutto ended the constitutional protection of the constitution for civil service from the 1973 constitution today. The team has put the final nail in it. Is the cry of misconduct, incompetence and corruption the first time weeping in the civil service? And is this weeping only heard in Pakistan? Bureaucracy is a concept all over the world that is self-sustaining, anti-change, supportive of status quo and self-reliant. This is a summary of bureaucracy for those who understand the authority of public administration around the world, and for those who have left a repository of scholarly and research books on civil service worldwide. These authors include countries from all over the world and every major university. Scholarships included. Bureaucracy became the need of rulers in human history when humanity began to write in Babylonian civilization between the Euphrates and the Euphrates in 3500 BC. Crops were accounted for on the plinth and then planted on them. Those few who knew how to read and write, now became the most important requirement for the rule of the king. This group of bureaucracy came into being. In the time of the Pharaohs of Egypt, the civil service was considered to be a skill of a few families, which was passed down from generation to generation. In this civilization on the banks of the Nile, those who deal with everyday affairs were chosen from these families. In ancient Rome, a bureaucracy official was called a Proconsul. An official who acted in accordance with the powers granted by the council. Roman civilization first distinguished between civil and military command in human history. The Pro Council was a kind of civil governor with no army under it. The army was under his commander, who was responsible to the king. The Roman bureaucracy also encouraged the king to expand his privileges and expand the cadre in human history. The Roman king, Diocletian, who ruled from 284 CE to 305 CE, doubled the administrative districts at the behest of the bureaucracy, and the number of bureaucrats increased dramatically. The districts were now so small that the taxes collected by the people were insufficient to cover the expenses of the administration. Taxes increased, the economic situation worsened, and this economic misery and administrative disqualification registered the destruction of the Roman Empire. Separating from Central Rome in 395 CE, the Byzantine Empire established another center of power in Constantinople and destroyed parts of the ancient world power. The well-known Christian author of this period, Lactantius, who was the adviser of Constantine, a former Christian Roman king, and called the Roman Christian "Cicero", wrote that the ruin, fall and destruction of the Roman Empire. This was the basis of civil service reform. The fear of the bureaucracy was that the Byzantine monarchs created a highly sophisticated and elite civil service system consisting of numerous civil and military cadres. Both the Senate and the army were chosen by the king together. The bureaucracy and army of the major cities are separate and the administration and army of the provinces are different.
Even today writers around the world refer to the complexities and drawbacks of a country's bureaucracy as "Byzantine". Much of today's modern bureaucracy has been borrowed from the civilian service of the Qin dynasty of China, dating back to 206 BC. For the first time in this period the whole of China was united under a legal system. Prior to this, children from large families in China were given civil service or assigned administrative responsibilities, and these civil servants were very independent in their respective territories. This process of civil service was abolished and a central bureaucracy was established, in which intelligent people from all over the country were recruited through the interview. Then when the Han family came to power, they started a new civil service in accordance with the teachings of the famous Chinese philosopher Confuclius. King Wen of that family competed for enlistment in the civil service in 165 BC. Started the exams and laid the conditions for success in the job. These exams were made mandatory for the promotion of the Tang Dynasty, up to 618 CE, and even for the appointment of high and responsible positions. Thus an integrated system of examinations was established. But still the will of the kings or rulers was of paramount importance for the appointment of high officials. But when the Song Dynasty came to power, they changed it and now only the certificates obtained in the Civil Service examinations started to be given importance for deployment to higher positions. Along with this, the Sang family started the Competitive Examinations for the first time in human history. At first it was considered necessary to pass, but under this system, those who took the best positions would be eligible for the highest bureaucracy positions. The best system of human history existed until 1905. The decline was also caused by economic coercion between world powers. On May 10, 1905, China boycotted the widespread deportation of American goods. The reason was that, in those days, the United States, like the present-day Corona virus, put the plague that spread to the United States from 1903 to 1905 into the Chinese account. The crackdown on Chinese settlers in the United States began, even after the outbreak of San Francisco in 1905, the Chinese imposed a law banning immigration to the United States. ۔ All over China, chaos ensued, and with it came a peaceful country of emergency, with which its brilliant civil service also ended (continued)

Link To the article
Finally an end is near to their badmashi. They are just crying because they are going to lose control
 
Yup, and then who will get the power? Yei soch soch k main pareshan hon.

Elected representative ko.

Jo aisi taysi inho nay mulk kki ki at least avaami numainda nahi kry GA. Poor losers had to ask the navy to clear the clogged gutters of karachi what a shame.

Civil service is corrupt, yet capable. Politicians have no competency and most of them don't a bit about organizational behaviour.

People of their caliber must not get any power beyond a district while only professionals hired on contract should call the shots in province and federal. Zillay m bharti kro vahi sy retire kro. Clerk ka Kam professional ki sunna na k usay sunana

In this thread, I will present the series of columns written by an ex-bureaucrat.

In all probability he gonna ask for the same colonial immunity and perks for his miserable daakoo of an illiterate kind

Glorified clerks they are, nothing more nothing less

In the British era, the claim was valid that the Indian civil service was free from corruption.

horse fart!
 
Elected representative ko.

Jo aisi taysi inho nay mulk kki ki at least avaami numainda nahi kry GA. Poor losers had to ask the navy to clear the clogged gutters of karachi what a shame.
Are you mad?! or are you stupid? elected representatives are the most incompetent people in Pakistan. people like fawad chaudhry will run this country now?!

mulk ki aisi taisi awami numaindo nay he ki hai. aur corrupt bureaucrats ko promote bhi inhi incomptetent aur corrupt awami numaaindo any kia hai.

Poor losers have not been trained, and are not paid enough. the poor losers have corrupt people lording over them, promoted by the very same elected representatives. each and everyone of us knows that MQM filled kwsb with its people. and then ppp happened. both of whom are elected representatives, and are the actual root of the problem.
 
Civil service is corrupt, yet capable. Politicians have no competency and most of them don't a bit about organizational behaviour.

We always need a political supervision of state affairs as only they are answerable to the people. However if somehow we could take these clerks out of the equation and hire right men for the right job only then this country could be put on an empirical track
 
People of their caliber must not get any power beyond a district while only professionals hired on contract should call the shots in province and federal. Zillay m bharti kro vahi sy retire kro. Clerk ka Kam professional ki sunna na k usay sunana
no professional will work on contract for the govt that pays next to nothing, with no benefits. competent/professional people will rather work for private setups, where the pay is good and the companies take care of their people. you people really have no idea how stupid pti is proving to be.
 
Are you mad?! or are you stupid? elected representatives are the most incompetent people in Pakistan. people like fawad chaudhry will run this country now?!

mulk ki aisi taisi awami numaindo nay he ki hai. aur corrupt bureaucrats ko promote bhi inhi incomptetent aur corrupt awami numaaindo any kia hai.

Poor losers have not been trained, and are not paid enough. the poor losers have corrupt people lording over them, promoted by the very same elected representatives. each and everyone of us knows that MQM filled kwsb with its people. and then ppp happened. both of whom are elected representatives, and are the actual root of the problem.

Aysa kro Hr jagah inhi clerko ko charge dy do hm sb mulk sy bahir nikal jaaty hain phr khylty rhy gy apni golf
 
hire right men for the right job only then this country could be put on an empirical track
and who will hire the "right" men? the corrupt politicians? they will do what PPP does in sindh, what mqm did to metropolitan departments of Karachi. i.e hire their own stooges and goons.

Aysa kro Hr jagah inhi clerko ko charge dy do hm sb mulk sy bahir nikal jaaty hain phr khylty rhy gy apni golf
Have you ever talked to a civil servant? or been in the presence of one? most of them are well read, competent people. their job is to do what the policy dictates, the policy is in turn set by "elected representatives", it is not for a civil servant to question the policy.

The prevalent corruption and inefficiency is because the politicians have gotten into a habit of interfering in other's work (promoting incompetent stooges, appointing bhanja bhatijas, transferring them on the basis of personal likes and dislikes etc.), the military is strong, it was able to defend itself. the civil service isnt.
 
no professional will work on contract for the govt that pays next to nothing, with no benefits. competent/professional people will rather work for private setups, where the pay is good and the companies take care of their people. you people really have no idea how stupid pti is proving to be.

What the guvt is paying to a layman working as secretary we sure could hire three professionals to work in that same amount however no official vehicle, villas, savory buffets, scholar ships for kids or army of servant shall be provided. Besides if that officer is not on field duty he should bring his own vehicle to work or use public transport. May be a single batman would also be sufficient for that person and his family depending on the seniority.

P:S : plz buy tea from your own pocket
 
Last edited:
Aysa kro Hr jagah inhi clerko ko charge dy do hm sb mulk sy bahir nikal jaaty hain phr khylty rhy gy apni golf
hum nay to inn clerko say bhi ziada jaahil aur anparh logon ko charge dia hua hai mulk ka.

What the guvt is paying to a layman working as secretary we sure could hire three professionals to work that same amount
Please mention the salary of a bps-22 officer (a secretary) and the salary of a director of a private corporation to backup your claim.
 

Country Latest Posts

Back
Top Bottom