What's new

‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہیں؟

Imran Khan

PDF VETERAN
Joined
Oct 18, 2007
Messages
68,815
Reaction score
5
Country
Pakistan
Location
Pakistan
آرمی پبلک سکول حملہ: ‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہوتے ہیں؟‘
  • عزیز اللہ خان اور محمد زبیر خان​
  • بی بی سی اردو کے لیے​
53 منٹ قبل
اے پی ایس

،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘سات سال پہلے جب سے یہ واقعہ پیش آیا۔۔۔ تب سے اب تک ہماری زندگی دیگر لوگوں کی طرح نارمل نہیں ہے۔ اُس وقت سے ہماری زندگی ریلیوں میں گزری ہے۔ ہمارہے چھوٹے بہن بھائی تو بڑے ہی ان ریلیوں میں ہوئے ہیں۔ ہماری زندگی قبرستان جانے اور میڈیا کے سامنے پیش ہونے میں ہی گزر رہی ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں حفضہ درانی کے، جن کے دو بھائی نوراللہ درانی اور سیف اللہ درانی آرمی پبلک سکول حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
حفضہ درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے آج بھی کسی خوشی کی تقریب میں جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ یہی سوچتی رہتی ہیں کہ ہمارے بھائی اس خوشی میں شامل نہیں ہیں۔
گل شہزاد خٹک کی بیٹی سعدیہ گل بھی اس سکول میں ٹیچر تھیں اور وہ بھی اس حملے میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔ گل شہزاد کی رہائش گاہ پر ہر ماہ آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین ملتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں، حکومت کی کارکردگی اور عدالتی کارروائیوں پر بحث کرتے ہیں اور اور اپنا غم بانٹتے ہیں۔
چند روز پہلے بھی یہ لوگ وہیں موجود تھے۔ ان سے گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی زندگی میں اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا: یہ لوگ سوتے، جاگتے یہی سوچتے ہیں کہ اے پی ایس پر حملے میں ملوث افراد، ماسٹر مائنڈ اور وہ لوگ جن کی غفلت یا جنھوں نے اس حملے میں شدت پسندوں کی معاونت کی، کیا انھیں سزا مل سکے گی؟
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1

ویڈیو کیپشن, تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
حکومت کی حالیہ پالیسی اور کلعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں ان کا سوال ہے کہ ایک حکومت اُن لوگوں سے کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے ہزاروں لوگوں کو مارنے کے ذمہ دار ہوں۔
ان مذاکرات کے حوالے سے کئئ سوالات اب بھی موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں یا تعطل کا شکار ہیں اور یا منسوخ کر دیے گئے ہیں؟
مذاکرات جاری یا معطل؟
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تو یکطرفہ طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی 9 دسمبر کو ختم کر دیا تھا۔
تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے تو مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں لیکن ‘امارات اسلامی‘ یعنی افغانستان میں موجود طالبان حکومت بطور ثالث اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس بارے میں چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اگر قانون کے مطابق چلے گی تو ٹھیک ہے ورنہ حکومت ان کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
انھوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور حکومت کی رٹ برقرار رہے گی، اگر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا تو اس پر کارروائی ضرور ہوگی۔
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہ اگر مذاکرات ہو رہے ہیں تو کس سطح پر ہو رہے ہیں، کون مذاکرات کر رہا ہے اور اب تک ان میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
یکطرفہ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے اب تک تنظیم چھ سے زیادہ مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو میں کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر طالبان ہتھیار ڈال دیں اور آئین کی بالادستی تسلیم کریں تو ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
ان کے اس اعلان کے بعد سے اس پر کام جاری ہے اور گذشتہ ماہ کی نو تاریخ کو دونوں جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
اے پی ایس

‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہیں؟‘
شاہانہ اجون کا بیٹا اسفندیار اے پی ایس میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حکومت کے مذاکرات کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت جن کو معافی دینے کی بات کر رہی ہے، وہ معافی کے قابل نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات یا معافی دینے والے یہ حق نہیں رکھتے کیونکہ ‘بچے ہمارے مرے ہیں، ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں۔ ان کے گھروں سے جنازے نہیں اٹھے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ متعدد حملوں میں کئی افراد ہلاک ہوئے، فوجی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئی ہیں، تو ایسے حملہ آوروں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟
شاہانہ اجون نے کہا کہ ’وزیرستان اور سوات میں متعدد فوجی آپریشن کیے گئے اور ان علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کیا گیا اور اب پھر مذاکرات کر کے انھیں دوبارہ واپس لایا جا رہا ہے، تو کیا پھر وہ لوگ یہاں اپنی کارروائیاں کریں گے اور پھر سے ’ضرب عضب‘ اور ’رد الفساد‘ جیسے آپریشن ہوں گے؟ تو کیا یہ ہمیشہ ایسے گول چکر چلتے رہیں گے؟‘
آرمی پبلک سکول پر حملے میں شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی استانی سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس کا اپنا آئین اور قانون ہے۔ جو اس کے خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ ’مجرم ہیں، انھیں حکومت پکڑ کر عدالت میں پیش کرے اور اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔‘
اے پی ایس

،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘بچے ریلیوں اور قبرستانوں میں بڑے ہوئے ہیں‘
متاثرہ خاندانوں کے نوجوانوں سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیے۔
حفظہ درانی اب یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کی زندگی نارمل نہیں رہی۔ وہ اور ان کے گھرانے کے دیگر افراد ریلیوں، عدالتں میں پیشیوں، قبراستانوں میں جانا، میڈیا کے سامنے اپنے موقف رکھنا، احتجاجی مظاہرے کرنا اور اس طرح کی سرگرمیوں میں گزار رہے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں آرمی بپلک سکول پشاور کے انگریزی کے استاد الطاف حسین کی سات سالہ بیٹی خولہ بی بی بھی شامل تھیں جبکہ الطاف خود بھی حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔
16 دسمبر 2014 خولہ بی بی کا سکول میں پہلا دن تھا۔ وہ مارے جانے والوں میں سب سے کم عمر طالبہ تھیں اور اس روز وہ اپنے والد کے ہمراہ سکول گئی تھیں۔
الطاف حسین بتاتے ہیں کہ جب حملہ ہوا تو وہ برسر آفس میں تھے اور ان کی ساتھی سعدیہ گل خٹک بھی ان کے ساتھ تھیں۔ فائرنگ کی آوازیں سن کر سعدیہ نے خولہ بی بی کو اٹھا لیا۔
سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک خود بھی استاد ہیں اور سعدیہ ان کی انتہائی لاڈلی اور لائق فائق بیٹی تھیں۔ گل شہزاد خٹک بتاتے ہیں کہ واقعے والے وقت فون پر میری سعدیہ سے بات ہوئی تھی۔ وہ فون پر ہمیں تسلیاں دے رہی تھی۔
سعدیہ گل خٹک کے والد بتاتے ہیں کہ سعدیہ نے خولہ بی بی کو اپنے ساتھ لپیٹ رکھا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے سعدیہ گل خٹک خولہ بی بی کی طرف چلنے والی گولیاں اپنی جسم پر روکنا چاہتی تھیں۔ خولہ بی بی کے سر پر گولی لگی ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ اپنی آنسووں پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے۔
ماہ روشہ بھی آج کل کالج میں پڑھ رہی ہیں۔ ان کے بھائی اسفندیار اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ دن کتنا خوفناک تھا۔
اے پی ایس

،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔ میرا بھائی سکول نہیں جانا چاہتا تھا لیکن امی نے اسے کہا کہ تمھارے لیے بریانی بناؤں گی اگر تم سکول چلے جاؤ۔ بھائی کے سکول جاتے وقت میں باہر گلی میں کھڑی دیر تک بھائی کو دیکھتی رہی۔‘
‘میں جب سکول سے واپس آئی تو گھر میں لوگ موجود تھے۔ مجھے کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ امی روئے جا رہی تھی اور میں اپنی امی کو دیکھ کر رو رہی تھی۔ اتنے میں میرے چھوٹے بھائی نے پشتو میں بتایا کہ بھائی نہیں رہے، وہ فوت ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ بس مجھے اس کے بعد کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
‘ہماری زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ ہم اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں تو میرے بھائی کے ہم عمر کزنز کی شادیاں ہو رہی ہیں، وہ ہمیں پاس بلا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھارے بھائی ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ میرا اپنا بھائی تو نہیں ہے۔‘
ماہ روشہ نے پوچھا کہ ‘ہماری آرمی کیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی؟ ہماری آرمی کیا ان کو نہیں مار سکتی؟ تو پھر مذاکرات کیوں؟ ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں تاکہ پھر کوئی ایسا واقعہ نہ ہوں، پھر کسی کی ماں ایسے نہ روئے اور پھر کسی کا گھر ایسے تباہ نہ ہو۔‘
مزید پڑھیے
اے پی ایس حملہ کیس: ’کوئی مقدس گائے نہیں، حکم دیں کسی کے خلاف بھی کارروائی کر سکتے ہیں‘
کالعدم تحریک طالبان کا یکطرفہ طور پر ایک ماہ سے جاری جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان
’مسٹر جسٹس ایک منٹ‘: عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال
شدت پسندی کے ایک واقعے کے شکار 100 سے زیادہ یہ گھرانے ایک بڑے خاندان کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں ان کے دکھ سکھ اب سانجھے ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، ان میں کوئی مشکلات کا شکار ہو یا کوئی غم یا فاتحہ ہو یہ خاندان اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔
یہ خاندان مہینے میں ایک یا دو بار ضرور ملتے ہیں، اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے غم اور خوشیوں کا اظہار ایک دوسرے سے کرتے ہیں لیکن ان باتوں میں زیادہ تر ذکر اپنے ان بچوں کا ہوتا ہے جو ان سب کو جوڑ گئے ہیں۔
ایک متاثرہ خاندان کے فرد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دل زخمی ہیں۔ ’ہم کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دہشت گردی کے مزید واقعات تب ہی رک سکتے ہیں جب اس جیسے واقعات کے ملزمان منظر عام پر لائے جائیں، انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور ان کو قرار واقعی سزائیں ملیں۔ اس کے بعد ہی مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔
 
.
Can Imran Khan and his nikami, nalaik, khooti kabeena go alone and walk around in those areas without security?

If yes, ok sure engage in peace talks, if not then shut the duck up and stop this nonsense of peace talks. None of them can be rehabilitated, they are useless for society, in fact a risk.

We don't want no go areas and safe havens in our country, IK has lived his life ............... Pakistani young generation shouldn't bear the results of his or Bajwa's stupidity.
 
.
Can Imran Khan and his nikami, nalaik, khooti kabeena go alone and walk around in those areas without security?

If yes, ok sure engage in peace talks, if not then shut the duck up and stop this nonsense of peace talks. None of them can be rehabilitated, they are useless for society, in fact a risk.

We don't want no go areas and safe havens in our country, IK has lived his life ............... Pakistani young generation shouldn't bear the results of his or Bajwa's stupidity.
its clearly show our military establishment is frind with terrorists from back door . ahsan ullah ahsan run away form ISI costudy do you believe it ? if that mota pig was hanged we can say to these families justice have been served
 
.
آرمی پبلک سکول حملہ: ‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہوتے ہیں؟‘
  • عزیز اللہ خان اور محمد زبیر خان​
  • بی بی سی اردو کے لیے​
53 منٹ قبل
اے پی ایس

،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘سات سال پہلے جب سے یہ واقعہ پیش آیا۔۔۔ تب سے اب تک ہماری زندگی دیگر لوگوں کی طرح نارمل نہیں ہے۔ اُس وقت سے ہماری زندگی ریلیوں میں گزری ہے۔ ہمارہے چھوٹے بہن بھائی تو بڑے ہی ان ریلیوں میں ہوئے ہیں۔ ہماری زندگی قبرستان جانے اور میڈیا کے سامنے پیش ہونے میں ہی گزر رہی ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں حفضہ درانی کے، جن کے دو بھائی نوراللہ درانی اور سیف اللہ درانی آرمی پبلک سکول حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
حفضہ درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے آج بھی کسی خوشی کی تقریب میں جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ یہی سوچتی رہتی ہیں کہ ہمارے بھائی اس خوشی میں شامل نہیں ہیں۔
گل شہزاد خٹک کی بیٹی سعدیہ گل بھی اس سکول میں ٹیچر تھیں اور وہ بھی اس حملے میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔ گل شہزاد کی رہائش گاہ پر ہر ماہ آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین ملتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں، حکومت کی کارکردگی اور عدالتی کارروائیوں پر بحث کرتے ہیں اور اور اپنا غم بانٹتے ہیں۔
چند روز پہلے بھی یہ لوگ وہیں موجود تھے۔ ان سے گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی زندگی میں اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا: یہ لوگ سوتے، جاگتے یہی سوچتے ہیں کہ اے پی ایس پر حملے میں ملوث افراد، ماسٹر مائنڈ اور وہ لوگ جن کی غفلت یا جنھوں نے اس حملے میں شدت پسندوں کی معاونت کی، کیا انھیں سزا مل سکے گی؟
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1

ویڈیو کیپشن, تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
حکومت کی حالیہ پالیسی اور کلعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں ان کا سوال ہے کہ ایک حکومت اُن لوگوں سے کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے ہزاروں لوگوں کو مارنے کے ذمہ دار ہوں۔
ان مذاکرات کے حوالے سے کئئ سوالات اب بھی موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں یا تعطل کا شکار ہیں اور یا منسوخ کر دیے گئے ہیں؟
مذاکرات جاری یا معطل؟
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تو یکطرفہ طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی 9 دسمبر کو ختم کر دیا تھا۔
تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے تو مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں لیکن ‘امارات اسلامی‘ یعنی افغانستان میں موجود طالبان حکومت بطور ثالث اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس بارے میں چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اگر قانون کے مطابق چلے گی تو ٹھیک ہے ورنہ حکومت ان کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
انھوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور حکومت کی رٹ برقرار رہے گی، اگر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا تو اس پر کارروائی ضرور ہوگی۔
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہ اگر مذاکرات ہو رہے ہیں تو کس سطح پر ہو رہے ہیں، کون مذاکرات کر رہا ہے اور اب تک ان میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
یکطرفہ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے اب تک تنظیم چھ سے زیادہ مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو میں کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر طالبان ہتھیار ڈال دیں اور آئین کی بالادستی تسلیم کریں تو ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
ان کے اس اعلان کے بعد سے اس پر کام جاری ہے اور گذشتہ ماہ کی نو تاریخ کو دونوں جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
اے پی ایس

‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہیں؟‘
شاہانہ اجون کا بیٹا اسفندیار اے پی ایس میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حکومت کے مذاکرات کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت جن کو معافی دینے کی بات کر رہی ہے، وہ معافی کے قابل نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات یا معافی دینے والے یہ حق نہیں رکھتے کیونکہ ‘بچے ہمارے مرے ہیں، ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں۔ ان کے گھروں سے جنازے نہیں اٹھے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ متعدد حملوں میں کئی افراد ہلاک ہوئے، فوجی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئی ہیں، تو ایسے حملہ آوروں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟
شاہانہ اجون نے کہا کہ ’وزیرستان اور سوات میں متعدد فوجی آپریشن کیے گئے اور ان علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کیا گیا اور اب پھر مذاکرات کر کے انھیں دوبارہ واپس لایا جا رہا ہے، تو کیا پھر وہ لوگ یہاں اپنی کارروائیاں کریں گے اور پھر سے ’ضرب عضب‘ اور ’رد الفساد‘ جیسے آپریشن ہوں گے؟ تو کیا یہ ہمیشہ ایسے گول چکر چلتے رہیں گے؟‘
آرمی پبلک سکول پر حملے میں شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی استانی سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس کا اپنا آئین اور قانون ہے۔ جو اس کے خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ ’مجرم ہیں، انھیں حکومت پکڑ کر عدالت میں پیش کرے اور اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔‘
اے پی ایس

،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘بچے ریلیوں اور قبرستانوں میں بڑے ہوئے ہیں‘
متاثرہ خاندانوں کے نوجوانوں سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیے۔
حفظہ درانی اب یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کی زندگی نارمل نہیں رہی۔ وہ اور ان کے گھرانے کے دیگر افراد ریلیوں، عدالتں میں پیشیوں، قبراستانوں میں جانا، میڈیا کے سامنے اپنے موقف رکھنا، احتجاجی مظاہرے کرنا اور اس طرح کی سرگرمیوں میں گزار رہے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں آرمی بپلک سکول پشاور کے انگریزی کے استاد الطاف حسین کی سات سالہ بیٹی خولہ بی بی بھی شامل تھیں جبکہ الطاف خود بھی حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔
16 دسمبر 2014 خولہ بی بی کا سکول میں پہلا دن تھا۔ وہ مارے جانے والوں میں سب سے کم عمر طالبہ تھیں اور اس روز وہ اپنے والد کے ہمراہ سکول گئی تھیں۔
الطاف حسین بتاتے ہیں کہ جب حملہ ہوا تو وہ برسر آفس میں تھے اور ان کی ساتھی سعدیہ گل خٹک بھی ان کے ساتھ تھیں۔ فائرنگ کی آوازیں سن کر سعدیہ نے خولہ بی بی کو اٹھا لیا۔
سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک خود بھی استاد ہیں اور سعدیہ ان کی انتہائی لاڈلی اور لائق فائق بیٹی تھیں۔ گل شہزاد خٹک بتاتے ہیں کہ واقعے والے وقت فون پر میری سعدیہ سے بات ہوئی تھی۔ وہ فون پر ہمیں تسلیاں دے رہی تھی۔
سعدیہ گل خٹک کے والد بتاتے ہیں کہ سعدیہ نے خولہ بی بی کو اپنے ساتھ لپیٹ رکھا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے سعدیہ گل خٹک خولہ بی بی کی طرف چلنے والی گولیاں اپنی جسم پر روکنا چاہتی تھیں۔ خولہ بی بی کے سر پر گولی لگی ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ اپنی آنسووں پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے۔
ماہ روشہ بھی آج کل کالج میں پڑھ رہی ہیں۔ ان کے بھائی اسفندیار اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ دن کتنا خوفناک تھا۔
اے پی ایس

،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔ میرا بھائی سکول نہیں جانا چاہتا تھا لیکن امی نے اسے کہا کہ تمھارے لیے بریانی بناؤں گی اگر تم سکول چلے جاؤ۔ بھائی کے سکول جاتے وقت میں باہر گلی میں کھڑی دیر تک بھائی کو دیکھتی رہی۔‘
‘میں جب سکول سے واپس آئی تو گھر میں لوگ موجود تھے۔ مجھے کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ امی روئے جا رہی تھی اور میں اپنی امی کو دیکھ کر رو رہی تھی۔ اتنے میں میرے چھوٹے بھائی نے پشتو میں بتایا کہ بھائی نہیں رہے، وہ فوت ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ بس مجھے اس کے بعد کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
‘ہماری زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ ہم اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں تو میرے بھائی کے ہم عمر کزنز کی شادیاں ہو رہی ہیں، وہ ہمیں پاس بلا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھارے بھائی ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ میرا اپنا بھائی تو نہیں ہے۔‘
ماہ روشہ نے پوچھا کہ ‘ہماری آرمی کیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی؟ ہماری آرمی کیا ان کو نہیں مار سکتی؟ تو پھر مذاکرات کیوں؟ ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں تاکہ پھر کوئی ایسا واقعہ نہ ہوں، پھر کسی کی ماں ایسے نہ روئے اور پھر کسی کا گھر ایسے تباہ نہ ہو۔‘
مزید پڑھیے
اے پی ایس حملہ کیس: ’کوئی مقدس گائے نہیں، حکم دیں کسی کے خلاف بھی کارروائی کر سکتے ہیں‘
کالعدم تحریک طالبان کا یکطرفہ طور پر ایک ماہ سے جاری جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان
’مسٹر جسٹس ایک منٹ‘: عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال
شدت پسندی کے ایک واقعے کے شکار 100 سے زیادہ یہ گھرانے ایک بڑے خاندان کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں ان کے دکھ سکھ اب سانجھے ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، ان میں کوئی مشکلات کا شکار ہو یا کوئی غم یا فاتحہ ہو یہ خاندان اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔
یہ خاندان مہینے میں ایک یا دو بار ضرور ملتے ہیں، اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے غم اور خوشیوں کا اظہار ایک دوسرے سے کرتے ہیں لیکن ان باتوں میں زیادہ تر ذکر اپنے ان بچوں کا ہوتا ہے جو ان سب کو جوڑ گئے ہیں۔
ایک متاثرہ خاندان کے فرد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دل زخمی ہیں۔ ’ہم کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دہشت گردی کے مزید واقعات تب ہی رک سکتے ہیں جب اس جیسے واقعات کے ملزمان منظر عام پر لائے جائیں، انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور ان کو قرار واقعی سزائیں ملیں۔ اس کے بعد ہی مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔

The state should not have such rights; even the right of appeal to the president by convicted also to be amended in the constitution.
 
.
its clearly show our military establishment is frind with terrorists from back door . ahsan ullah ahsan run away form ISI costudy do you believe it ? if that mota pig was hanged we can say to these families justice have been served

Bai sb. ajj kal mehkma e zarat walo ko un ki khamia dikhao tou wo court martial kar k umer qaid ki saza day daitay hain, doesn't matter if you are civilian.

Yeh wo fauj hy jo lieutenant colonel rank say ooper apni he aik dunai may mast hy.
 
.
Sorry but we don't believe in military solutions 🤡
Even though are enemies believe in killing us, and are killing us with joy.
We also subscribe to our killers beliefs that we are infidels and that they are right about everything. 🤡
At the same time, let me roam around in a helicopter, or with an armed escort. And let me live far away from everyone with my residence surrounded by heavy security 🤡.

Also the people who are killed defending me and my stance are the wrong ones 🤡.

Man I used to admire IK so much. What a waste.
 
.
I seriously thought i would never live to see the day when our Military establishment will have peace dialogue with like of Noor Wali the butcher of APS children. Whoever thought it was a good idea was biggest chutiya and should be separated from decision making tables. Bajwa has committed many blunders including giving nawaz escape route but this one was massive.

Fool me once shame on you. Fool me twice shame on me. Here we have been through this facade of dialogue about a dozen time yet our Military still pursues it terrorists. There should be a special category fir these fools.
its clearly show our military establishment is frind with terrorists from back door . ahsan ullah ahsan run away form ISI costudy do you believe it ? if that mota pig was hanged we can say to these families justice have been served

Obviously they let him go hopping that he will be of use in future. Otherwise if he managed to fool them then nikamay pan ki inteha hai.
 
Last edited:
.
And the funny part is that TTP got their prisoners released and now ended ceasfire. Its like the TTP made the whole govt and establishment a chutya for the 3rd time.
 
.
That's what I was on about.
How could the government pardon TTP and try a truce with them , when victims of these monsters haven't forgiven them?
 
.
Security and geopolitical concerns of a state are far more complex, than the sentiments of individuals.
 
.
Security and geopolitical concerns of a state are far more complex, than the sentiments of individuals.
What is State if not the admixture of emotions, sentiments and demands of it's people? Add in territory to the mix and you have a State.
Security and geopolitical concerns of a state are far more complex, than the sentiments of individuals.
Also, may I ask what geopolitical goal was achieved?
 
.
There are black sheeps in government, army & judiciary , they have soft corner for banned Jihadi organizations , they are responsible for unrest in the country. It's a mess, difficult to cleanup in this country until we find some secular leader from army like attaturk Kemal.
 
.
I seriously thought i would never live to see the day when our Military establishment will have peace dialogue with like of Noor Wali the butcher of APS children. Whoever thought it was a good idea was biggest chutiya and should be separated from decision making tables. Bajwa has committed many blunders including giving nawaz escape route but this one was massive.

Fool me once shame on you. Fool me twice shame on me. Here we have been through this facade of dialogue about a dozen time yet our Military still pursues it terrorists. There should be a special category fir these fools.


Obviously they let him go hopping that he will be of use in future. Otherwise if he managed to fool them then nikamay pan ki inteha hai.
EHSAN ULLAH EHSAN, was transported to turkey. live happily,,, he didnt escape...he was accomodiated, with 100000$$$. rom black box aabpara
And the funny part is that TTP got their prisoners released and now ended ceasfire. Its like the TTP made the whole govt and establishment a chutya for the 3rd time.
TTP/ and afg talibs. are 1 and same,..
 
.
What is State if not the admixture of emotions, sentiments and demands of it's people? Add in territory to the mix and you have a State.

State is what it is.
 
.
Security and geopolitical concerns of a state are far more complex, than the sentiments of individuals.

I would like to see something that is so complex that triumphs the massacre of 150 of our children. Negotiations are conducted with equals not when these gutter rats on whom we shouldnt even piss let alone talk. I would get back to you on these comments if Allah Forbid you had lost someone at hands of these people.
 
.
Back
Top Bottom