Imran Khan
PDF VETERAN
- Joined
- Oct 18, 2007
- Messages
- 68,815
- Reaction score
- 5
- Country
- Location
آرمی پبلک سکول حملہ: ‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہوتے ہیں؟‘
- عزیز اللہ خان اور محمد زبیر خان
- بی بی سی اردو کے لیے
53 منٹ قبل
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘سات سال پہلے جب سے یہ واقعہ پیش آیا۔۔۔ تب سے اب تک ہماری زندگی دیگر لوگوں کی طرح نارمل نہیں ہے۔ اُس وقت سے ہماری زندگی ریلیوں میں گزری ہے۔ ہمارہے چھوٹے بہن بھائی تو بڑے ہی ان ریلیوں میں ہوئے ہیں۔ ہماری زندگی قبرستان جانے اور میڈیا کے سامنے پیش ہونے میں ہی گزر رہی ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں حفضہ درانی کے، جن کے دو بھائی نوراللہ درانی اور سیف اللہ درانی آرمی پبلک سکول حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
حفضہ درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے آج بھی کسی خوشی کی تقریب میں جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ یہی سوچتی رہتی ہیں کہ ہمارے بھائی اس خوشی میں شامل نہیں ہیں۔
گل شہزاد خٹک کی بیٹی سعدیہ گل بھی اس سکول میں ٹیچر تھیں اور وہ بھی اس حملے میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔ گل شہزاد کی رہائش گاہ پر ہر ماہ آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین ملتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں، حکومت کی کارکردگی اور عدالتی کارروائیوں پر بحث کرتے ہیں اور اور اپنا غم بانٹتے ہیں۔
چند روز پہلے بھی یہ لوگ وہیں موجود تھے۔ ان سے گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی زندگی میں اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا: یہ لوگ سوتے، جاگتے یہی سوچتے ہیں کہ اے پی ایس پر حملے میں ملوث افراد، ماسٹر مائنڈ اور وہ لوگ جن کی غفلت یا جنھوں نے اس حملے میں شدت پسندوں کی معاونت کی، کیا انھیں سزا مل سکے گی؟
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1
ویڈیو کیپشن, تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
حکومت کی حالیہ پالیسی اور کلعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں ان کا سوال ہے کہ ایک حکومت اُن لوگوں سے کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے ہزاروں لوگوں کو مارنے کے ذمہ دار ہوں۔
ان مذاکرات کے حوالے سے کئئ سوالات اب بھی موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں یا تعطل کا شکار ہیں اور یا منسوخ کر دیے گئے ہیں؟
مذاکرات جاری یا معطل؟
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تو یکطرفہ طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی 9 دسمبر کو ختم کر دیا تھا۔
تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے تو مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں لیکن ‘امارات اسلامی‘ یعنی افغانستان میں موجود طالبان حکومت بطور ثالث اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس بارے میں چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اگر قانون کے مطابق چلے گی تو ٹھیک ہے ورنہ حکومت ان کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
انھوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور حکومت کی رٹ برقرار رہے گی، اگر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا تو اس پر کارروائی ضرور ہوگی۔
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہ اگر مذاکرات ہو رہے ہیں تو کس سطح پر ہو رہے ہیں، کون مذاکرات کر رہا ہے اور اب تک ان میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
یکطرفہ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے اب تک تنظیم چھ سے زیادہ مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو میں کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر طالبان ہتھیار ڈال دیں اور آئین کی بالادستی تسلیم کریں تو ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
ان کے اس اعلان کے بعد سے اس پر کام جاری ہے اور گذشتہ ماہ کی نو تاریخ کو دونوں جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہیں؟‘
شاہانہ اجون کا بیٹا اسفندیار اے پی ایس میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حکومت کے مذاکرات کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت جن کو معافی دینے کی بات کر رہی ہے، وہ معافی کے قابل نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات یا معافی دینے والے یہ حق نہیں رکھتے کیونکہ ‘بچے ہمارے مرے ہیں، ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں۔ ان کے گھروں سے جنازے نہیں اٹھے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ متعدد حملوں میں کئی افراد ہلاک ہوئے، فوجی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئی ہیں، تو ایسے حملہ آوروں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟
شاہانہ اجون نے کہا کہ ’وزیرستان اور سوات میں متعدد فوجی آپریشن کیے گئے اور ان علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کیا گیا اور اب پھر مذاکرات کر کے انھیں دوبارہ واپس لایا جا رہا ہے، تو کیا پھر وہ لوگ یہاں اپنی کارروائیاں کریں گے اور پھر سے ’ضرب عضب‘ اور ’رد الفساد‘ جیسے آپریشن ہوں گے؟ تو کیا یہ ہمیشہ ایسے گول چکر چلتے رہیں گے؟‘
آرمی پبلک سکول پر حملے میں شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی استانی سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس کا اپنا آئین اور قانون ہے۔ جو اس کے خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ ’مجرم ہیں، انھیں حکومت پکڑ کر عدالت میں پیش کرے اور اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘بچے ریلیوں اور قبرستانوں میں بڑے ہوئے ہیں‘
متاثرہ خاندانوں کے نوجوانوں سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیے۔
حفظہ درانی اب یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کی زندگی نارمل نہیں رہی۔ وہ اور ان کے گھرانے کے دیگر افراد ریلیوں، عدالتں میں پیشیوں، قبراستانوں میں جانا، میڈیا کے سامنے اپنے موقف رکھنا، احتجاجی مظاہرے کرنا اور اس طرح کی سرگرمیوں میں گزار رہے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں آرمی بپلک سکول پشاور کے انگریزی کے استاد الطاف حسین کی سات سالہ بیٹی خولہ بی بی بھی شامل تھیں جبکہ الطاف خود بھی حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔
16 دسمبر 2014 خولہ بی بی کا سکول میں پہلا دن تھا۔ وہ مارے جانے والوں میں سب سے کم عمر طالبہ تھیں اور اس روز وہ اپنے والد کے ہمراہ سکول گئی تھیں۔
الطاف حسین بتاتے ہیں کہ جب حملہ ہوا تو وہ برسر آفس میں تھے اور ان کی ساتھی سعدیہ گل خٹک بھی ان کے ساتھ تھیں۔ فائرنگ کی آوازیں سن کر سعدیہ نے خولہ بی بی کو اٹھا لیا۔
سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک خود بھی استاد ہیں اور سعدیہ ان کی انتہائی لاڈلی اور لائق فائق بیٹی تھیں۔ گل شہزاد خٹک بتاتے ہیں کہ واقعے والے وقت فون پر میری سعدیہ سے بات ہوئی تھی۔ وہ فون پر ہمیں تسلیاں دے رہی تھی۔
سعدیہ گل خٹک کے والد بتاتے ہیں کہ سعدیہ نے خولہ بی بی کو اپنے ساتھ لپیٹ رکھا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے سعدیہ گل خٹک خولہ بی بی کی طرف چلنے والی گولیاں اپنی جسم پر روکنا چاہتی تھیں۔ خولہ بی بی کے سر پر گولی لگی ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ اپنی آنسووں پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے۔
ماہ روشہ بھی آج کل کالج میں پڑھ رہی ہیں۔ ان کے بھائی اسفندیار اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ دن کتنا خوفناک تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔ میرا بھائی سکول نہیں جانا چاہتا تھا لیکن امی نے اسے کہا کہ تمھارے لیے بریانی بناؤں گی اگر تم سکول چلے جاؤ۔ بھائی کے سکول جاتے وقت میں باہر گلی میں کھڑی دیر تک بھائی کو دیکھتی رہی۔‘
‘میں جب سکول سے واپس آئی تو گھر میں لوگ موجود تھے۔ مجھے کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ امی روئے جا رہی تھی اور میں اپنی امی کو دیکھ کر رو رہی تھی۔ اتنے میں میرے چھوٹے بھائی نے پشتو میں بتایا کہ بھائی نہیں رہے، وہ فوت ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ بس مجھے اس کے بعد کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
‘ہماری زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ ہم اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں تو میرے بھائی کے ہم عمر کزنز کی شادیاں ہو رہی ہیں، وہ ہمیں پاس بلا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھارے بھائی ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ میرا اپنا بھائی تو نہیں ہے۔‘
ماہ روشہ نے پوچھا کہ ‘ہماری آرمی کیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی؟ ہماری آرمی کیا ان کو نہیں مار سکتی؟ تو پھر مذاکرات کیوں؟ ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں تاکہ پھر کوئی ایسا واقعہ نہ ہوں، پھر کسی کی ماں ایسے نہ روئے اور پھر کسی کا گھر ایسے تباہ نہ ہو۔‘
مزید پڑھیے
اے پی ایس حملہ کیس: ’کوئی مقدس گائے نہیں، حکم دیں کسی کے خلاف بھی کارروائی کر سکتے ہیں‘
کالعدم تحریک طالبان کا یکطرفہ طور پر ایک ماہ سے جاری جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان
’مسٹر جسٹس ایک منٹ‘: عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال
شدت پسندی کے ایک واقعے کے شکار 100 سے زیادہ یہ گھرانے ایک بڑے خاندان کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں ان کے دکھ سکھ اب سانجھے ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، ان میں کوئی مشکلات کا شکار ہو یا کوئی غم یا فاتحہ ہو یہ خاندان اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔
یہ خاندان مہینے میں ایک یا دو بار ضرور ملتے ہیں، اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے غم اور خوشیوں کا اظہار ایک دوسرے سے کرتے ہیں لیکن ان باتوں میں زیادہ تر ذکر اپنے ان بچوں کا ہوتا ہے جو ان سب کو جوڑ گئے ہیں۔
ایک متاثرہ خاندان کے فرد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دل زخمی ہیں۔ ’ہم کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دہشت گردی کے مزید واقعات تب ہی رک سکتے ہیں جب اس جیسے واقعات کے ملزمان منظر عام پر لائے جائیں، انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور ان کو قرار واقعی سزائیں ملیں۔ اس کے بعد ہی مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘سات سال پہلے جب سے یہ واقعہ پیش آیا۔۔۔ تب سے اب تک ہماری زندگی دیگر لوگوں کی طرح نارمل نہیں ہے۔ اُس وقت سے ہماری زندگی ریلیوں میں گزری ہے۔ ہمارہے چھوٹے بہن بھائی تو بڑے ہی ان ریلیوں میں ہوئے ہیں۔ ہماری زندگی قبرستان جانے اور میڈیا کے سامنے پیش ہونے میں ہی گزر رہی ہے۔‘
یہ الفاظ ہیں حفضہ درانی کے، جن کے دو بھائی نوراللہ درانی اور سیف اللہ درانی آرمی پبلک سکول حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔
حفضہ درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے آج بھی کسی خوشی کی تقریب میں جانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ یہی سوچتی رہتی ہیں کہ ہمارے بھائی اس خوشی میں شامل نہیں ہیں۔
گل شہزاد خٹک کی بیٹی سعدیہ گل بھی اس سکول میں ٹیچر تھیں اور وہ بھی اس حملے میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔ گل شہزاد کی رہائش گاہ پر ہر ماہ آرمی پبلک سکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین ملتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں، حکومت کی کارکردگی اور عدالتی کارروائیوں پر بحث کرتے ہیں اور اور اپنا غم بانٹتے ہیں۔
چند روز پہلے بھی یہ لوگ وہیں موجود تھے۔ ان سے گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی زندگی میں اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا: یہ لوگ سوتے، جاگتے یہی سوچتے ہیں کہ اے پی ایس پر حملے میں ملوث افراد، ماسٹر مائنڈ اور وہ لوگ جن کی غفلت یا جنھوں نے اس حملے میں شدت پسندوں کی معاونت کی، کیا انھیں سزا مل سکے گی؟
YouTube پوسٹ نظرانداز کریں, 1
ویڈیو کیپشن, تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں
YouTube پوسٹ کا اختتام, 1
حکومت کی حالیہ پالیسی اور کلعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں ان کا سوال ہے کہ ایک حکومت اُن لوگوں سے کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے ہزاروں لوگوں کو مارنے کے ذمہ دار ہوں۔
ان مذاکرات کے حوالے سے کئئ سوالات اب بھی موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں یا تعطل کا شکار ہیں اور یا منسوخ کر دیے گئے ہیں؟
مذاکرات جاری یا معطل؟
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تو یکطرفہ طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی 9 دسمبر کو ختم کر دیا تھا۔
تنظیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے تو مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں لیکن ‘امارات اسلامی‘ یعنی افغانستان میں موجود طالبان حکومت بطور ثالث اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس بارے میں چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان اگر قانون کے مطابق چلے گی تو ٹھیک ہے ورنہ حکومت ان کے خلاف پہلے بھی کارروائیاں کر چکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
انھوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور حکومت کی رٹ برقرار رہے گی، اگر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا تو اس پر کارروائی ضرور ہوگی۔
تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کہ اگر مذاکرات ہو رہے ہیں تو کس سطح پر ہو رہے ہیں، کون مذاکرات کر رہا ہے اور اب تک ان میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔
یکطرفہ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے اب تک تنظیم چھ سے زیادہ مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو میں کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر طالبان ہتھیار ڈال دیں اور آئین کی بالادستی تسلیم کریں تو ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
ان کے اس اعلان کے بعد سے اس پر کام جاری ہے اور گذشتہ ماہ کی نو تاریخ کو دونوں جانب سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہیں؟‘
شاہانہ اجون کا بیٹا اسفندیار اے پی ایس میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حکومت کے مذاکرات کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت جن کو معافی دینے کی بات کر رہی ہے، وہ معافی کے قابل نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات یا معافی دینے والے یہ حق نہیں رکھتے کیونکہ ‘بچے ہمارے مرے ہیں، ہم نے لاشیں اٹھائی ہیں۔ ان کے گھروں سے جنازے نہیں اٹھے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ متعدد حملوں میں کئی افراد ہلاک ہوئے، فوجی اور سیکیورٹی اہلکاروں کی جانیں گئی ہیں، تو ایسے حملہ آوروں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟
شاہانہ اجون نے کہا کہ ’وزیرستان اور سوات میں متعدد فوجی آپریشن کیے گئے اور ان علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کیا گیا اور اب پھر مذاکرات کر کے انھیں دوبارہ واپس لایا جا رہا ہے، تو کیا پھر وہ لوگ یہاں اپنی کارروائیاں کریں گے اور پھر سے ’ضرب عضب‘ اور ’رد الفساد‘ جیسے آپریشن ہوں گے؟ تو کیا یہ ہمیشہ ایسے گول چکر چلتے رہیں گے؟‘
آرمی پبلک سکول پر حملے میں شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والی استانی سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس کا اپنا آئین اور قانون ہے۔ جو اس کے خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ ’مجرم ہیں، انھیں حکومت پکڑ کر عدالت میں پیش کرے اور اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘بچے ریلیوں اور قبرستانوں میں بڑے ہوئے ہیں‘
متاثرہ خاندانوں کے نوجوانوں سے ان کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیے۔
حفظہ درانی اب یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کی زندگی نارمل نہیں رہی۔ وہ اور ان کے گھرانے کے دیگر افراد ریلیوں، عدالتں میں پیشیوں، قبراستانوں میں جانا، میڈیا کے سامنے اپنے موقف رکھنا، احتجاجی مظاہرے کرنا اور اس طرح کی سرگرمیوں میں گزار رہے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں آرمی بپلک سکول پشاور کے انگریزی کے استاد الطاف حسین کی سات سالہ بیٹی خولہ بی بی بھی شامل تھیں جبکہ الطاف خود بھی حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔
16 دسمبر 2014 خولہ بی بی کا سکول میں پہلا دن تھا۔ وہ مارے جانے والوں میں سب سے کم عمر طالبہ تھیں اور اس روز وہ اپنے والد کے ہمراہ سکول گئی تھیں۔
الطاف حسین بتاتے ہیں کہ جب حملہ ہوا تو وہ برسر آفس میں تھے اور ان کی ساتھی سعدیہ گل خٹک بھی ان کے ساتھ تھیں۔ فائرنگ کی آوازیں سن کر سعدیہ نے خولہ بی بی کو اٹھا لیا۔
سعدیہ گل خٹک کے والد گل شہزاد خٹک خود بھی استاد ہیں اور سعدیہ ان کی انتہائی لاڈلی اور لائق فائق بیٹی تھیں۔ گل شہزاد خٹک بتاتے ہیں کہ واقعے والے وقت فون پر میری سعدیہ سے بات ہوئی تھی۔ وہ فون پر ہمیں تسلیاں دے رہی تھی۔
سعدیہ گل خٹک کے والد بتاتے ہیں کہ سعدیہ نے خولہ بی بی کو اپنے ساتھ لپیٹ رکھا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے سعدیہ گل خٹک خولہ بی بی کی طرف چلنے والی گولیاں اپنی جسم پر روکنا چاہتی تھیں۔ خولہ بی بی کے سر پر گولی لگی ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ اپنی آنسووں پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے۔
ماہ روشہ بھی آج کل کالج میں پڑھ رہی ہیں۔ ان کے بھائی اسفندیار اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ وہ دن کتنا خوفناک تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
‘اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی۔ میرا بھائی سکول نہیں جانا چاہتا تھا لیکن امی نے اسے کہا کہ تمھارے لیے بریانی بناؤں گی اگر تم سکول چلے جاؤ۔ بھائی کے سکول جاتے وقت میں باہر گلی میں کھڑی دیر تک بھائی کو دیکھتی رہی۔‘
‘میں جب سکول سے واپس آئی تو گھر میں لوگ موجود تھے۔ مجھے کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ امی روئے جا رہی تھی اور میں اپنی امی کو دیکھ کر رو رہی تھی۔ اتنے میں میرے چھوٹے بھائی نے پشتو میں بتایا کہ بھائی نہیں رہے، وہ فوت ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ بس مجھے اس کے بعد کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
‘ہماری زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ ہم اپنے رشتہ داروں کے ہاں جاتے ہیں تو میرے بھائی کے ہم عمر کزنز کی شادیاں ہو رہی ہیں، وہ ہمیں پاس بلا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھارے بھائی ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ میرا اپنا بھائی تو نہیں ہے۔‘
ماہ روشہ نے پوچھا کہ ‘ہماری آرمی کیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی؟ ہماری آرمی کیا ان کو نہیں مار سکتی؟ تو پھر مذاکرات کیوں؟ ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں تاکہ پھر کوئی ایسا واقعہ نہ ہوں، پھر کسی کی ماں ایسے نہ روئے اور پھر کسی کا گھر ایسے تباہ نہ ہو۔‘
مزید پڑھیے
اے پی ایس حملہ کیس: ’کوئی مقدس گائے نہیں، حکم دیں کسی کے خلاف بھی کارروائی کر سکتے ہیں‘
کالعدم تحریک طالبان کا یکطرفہ طور پر ایک ماہ سے جاری جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان
’مسٹر جسٹس ایک منٹ‘: عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال
شدت پسندی کے ایک واقعے کے شکار 100 سے زیادہ یہ گھرانے ایک بڑے خاندان کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں ان کے دکھ سکھ اب سانجھے ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، ان میں کوئی مشکلات کا شکار ہو یا کوئی غم یا فاتحہ ہو یہ خاندان اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔
یہ خاندان مہینے میں ایک یا دو بار ضرور ملتے ہیں، اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے غم اور خوشیوں کا اظہار ایک دوسرے سے کرتے ہیں لیکن ان باتوں میں زیادہ تر ذکر اپنے ان بچوں کا ہوتا ہے جو ان سب کو جوڑ گئے ہیں۔
ایک متاثرہ خاندان کے فرد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے دل زخمی ہیں۔ ’ہم کہتے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دہشت گردی کے مزید واقعات تب ہی رک سکتے ہیں جب اس جیسے واقعات کے ملزمان منظر عام پر لائے جائیں، انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور ان کو قرار واقعی سزائیں ملیں۔ اس کے بعد ہی مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔
‘بچے تو ہمارے مرے ہیں، معاف کرنے والے وہ کون ہوتے ہیں؟‘ - BBC News اردو
حکومت کی حالیہ پالیسی اور کلعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں ان کا سوال ہے کہ ایک حکومت اُن لوگوں سے کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے ہزاروں لوگوں کو مارنے کے ذمہ دار ہوں۔ تاہم متاثرہ خاندانوں کے مطابق حکومت معافی دینے کا حق نہیں رکھتی کیونکہ ‘بچے ہمارے مرے ہیں، ہم نے...
www.bbc.com