ghazi52
PDF THINK TANK: ANALYST
- Joined
- Mar 21, 2007
- Messages
- 102,926
- Reaction score
- 106
- Country
- Location
ہمارے بعد الطاف۔۔
وسعت اللہ خا بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
’ کہا جاتا ہے کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح بہت زیادہ علیل تھے تو لیاقت علی خان نے ان سے کہا کہ جب ہمارے جیسے لیڈر پاکستان میں نہیں رہیں گے تو پھر اس پاکستان کو آگے کیسے بڑھایا جائے گا۔ قائدِ اعظم نے کہا کہ ہم نہ ہوں گے تو ہمارے بعد الطاف الطاف۔ تو آپ کو یہ نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بات تو انڈر سٹڈ ہے کہ اگر قائدِ اعظم کے ویژن کا کوئی صحیع وارث ہے تو وہ قائدِ تحریک الطاف حسین ہیں۔‘
( بحوالہ ڈاکٹر فاروق ستار ، رکنِ قومی اسمبلی ، سابق وفاقی وزیر و سابق مئیر کراچی)
کم ازکم مجھے ذرا بھی شک نہیں کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کیوں کہ جناح صاحب کوئی عام رہنما نہیں تھے، مدبر تھے اور مدبر وہ ہوتا ہے جو مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دیوار کے آر پار دیکھ سکتا ہے۔
لوگ اس تاریخی انکشاف پر طرح طرح کی چے مے گوئیاں کر رہے ہیں۔ کچھ مذاق سمجھ رہے تو کچھ کچھ بھی نہیں سمجھ رہے۔
بعض بال کی کھال نکالنے والوں کا خیال ہے کہ جناح صاحب نے جب یہ بات کہی ہوگی تو ان کے ذہن میں روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہوں گے کیونکہ قائدِ تحریک الطاف حسین تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لہذٰا جناح صاحب کیسے کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں تو ہمارے بعد الطاف۔
کون سے الطاف؟
بعض بال کی کھال نکالنے والوں کا خیال ہے کہ جناح صاحب نے جب یہ بات کہی ہوگی تو ان کے ذہن میں روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہوں گے کیونکہ قائدِ تحریک الطاف حسین تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لہذٰا جناح صاحب کیسے کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں تو ہمارے بعد الطاف۔
مگر میں فاروق ستار کے ساتھ ہوں۔ جانے کیوں انہوں نے پورا واقعہ نہیں سنایا۔ ہوا یہ کہ جب جناح صاحب خرابیِ صحت کے سبب کراچی سے زیارت ریزیڈنسی منتقل ہوئے تو اکثر وہ تنہائی سے تنگ آ کے ریزیڈنسی کے باغ میں ٹہلا کرتے اور پھولوں پودوں کو دیکھ کے دل بہلاتے۔
ایک روز ان کی نظر کروٹن کے پتوں پر پڑی تو دیکھا کہ ایک پتے پر کوئی انسانی شبیہہ ہے۔ چونکہ جناح صاحب جہاندیدہ تھے اس لیے ترنت سمجھ گئے کہ یہ شبیہہ دراصل آسمانی اشارہ ہے کہ پریشان مت ہو۔ تمہارے وارث کا انتظام ہو گیا ہے۔ جناح صاحب کے چہرے پر ایک عرصے بعد اطمینان اور مسکراہٹ کی لہر آئی اور اس رات انہیں بہت دنوں بعد سکون کی نیند آئی۔
اگلے روز لیاقت علی خان کراچی سے مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے تو جناح صاحب نے پتے والا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں اور تم تب تک شاید نہ ہوں اس لیے میں اس شبیہہ کو الطاف کا نام دے رہا ہوں۔
کاش جناح صاحب کے ذاتی معالج کرنل الہی بخش، سوانح نگار پوتھن جوزف اور رضوان احمد زندہ ہوتے تو اس واقعہ کی تصدیق ضرور کرتے۔ مگر یہ کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ آئندہ نسلوں سے پوشیدہ رہتا۔ چنانچہ فاروق ستار نے گذشتہ روز قوم کی امانت قوم تک پہنچا دی۔
جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ بھارت ورش میں ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ہوائی جہاز اڑا کرتے تھے۔ جب اس پہ کسی کو اعتراض نہیں کہ محمد بن قاسم پہلے پاکستانی تھے۔ جب جارج بش کی یہ دلیل ہضم ہوسکتی ہے کہ انھیں خداوند نے بشارت دی کہ عراق پر قبضہ کرلو۔
جب یہ بات قابلِ فہم ہے کہ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری 14 برس امام ابوحنیفہ کے شاگرد رہے۔ جیسے پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو یقین ہے کہ اصل قربانی دینے والے مہاجر صرف وہ ہیں جو مشرقی پنجاب اور جموں سے لٹ پٹ کر پاکستان پہنچے تو پھر یہ ماننے میں کیا ہچر مچر کہ جناح صاحب اور لیاقت علی خان ایک ساتھ بول اٹھے
ہم نہ ہوں گے تو ہمارے بعد الطاف الطاف۔
ارے ہاں! ایک اہم بات تو فاروق ستار صاحب نے بتائی ہی نہیں۔ جب جناح صاحب 11 ستبمر 1948 کو حالت بگڑنے کے سبب زیارت سے بذریعہ طیارہ کراچی پہنچائے گئے تو انہیں ماری پور بیس سے گورنر جنرل ہاؤس لانے والی ایمبولینس راستے میں ہی خراب ہو گئی۔
قائدِ اعظم کے آخری الفاظ تھے ’خدا پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔ہمارے بعد الطاف الط۔۔۔۔۔‘
( فاروق ستار سے حوصلہ پا کے کہیں کل کلاں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ 1947 میں تقسیم نہیں چائنا کٹنگ ہوئی تھی ۔۔)
وسعت اللہ خا بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
- 16 جون 2015
’ کہا جاتا ہے کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح بہت زیادہ علیل تھے تو لیاقت علی خان نے ان سے کہا کہ جب ہمارے جیسے لیڈر پاکستان میں نہیں رہیں گے تو پھر اس پاکستان کو آگے کیسے بڑھایا جائے گا۔ قائدِ اعظم نے کہا کہ ہم نہ ہوں گے تو ہمارے بعد الطاف الطاف۔ تو آپ کو یہ نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بات تو انڈر سٹڈ ہے کہ اگر قائدِ اعظم کے ویژن کا کوئی صحیع وارث ہے تو وہ قائدِ تحریک الطاف حسین ہیں۔‘
( بحوالہ ڈاکٹر فاروق ستار ، رکنِ قومی اسمبلی ، سابق وفاقی وزیر و سابق مئیر کراچی)
کم ازکم مجھے ذرا بھی شک نہیں کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کیوں کہ جناح صاحب کوئی عام رہنما نہیں تھے، مدبر تھے اور مدبر وہ ہوتا ہے جو مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دیوار کے آر پار دیکھ سکتا ہے۔
لوگ اس تاریخی انکشاف پر طرح طرح کی چے مے گوئیاں کر رہے ہیں۔ کچھ مذاق سمجھ رہے تو کچھ کچھ بھی نہیں سمجھ رہے۔
بعض بال کی کھال نکالنے والوں کا خیال ہے کہ جناح صاحب نے جب یہ بات کہی ہوگی تو ان کے ذہن میں روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہوں گے کیونکہ قائدِ تحریک الطاف حسین تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لہذٰا جناح صاحب کیسے کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں تو ہمارے بعد الطاف۔
کون سے الطاف؟
بعض بال کی کھال نکالنے والوں کا خیال ہے کہ جناح صاحب نے جب یہ بات کہی ہوگی تو ان کے ذہن میں روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین ہوں گے کیونکہ قائدِ تحریک الطاف حسین تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لہذٰا جناح صاحب کیسے کہہ سکتے تھے کہ ہم نہیں تو ہمارے بعد الطاف۔
مگر میں فاروق ستار کے ساتھ ہوں۔ جانے کیوں انہوں نے پورا واقعہ نہیں سنایا۔ ہوا یہ کہ جب جناح صاحب خرابیِ صحت کے سبب کراچی سے زیارت ریزیڈنسی منتقل ہوئے تو اکثر وہ تنہائی سے تنگ آ کے ریزیڈنسی کے باغ میں ٹہلا کرتے اور پھولوں پودوں کو دیکھ کے دل بہلاتے۔
ایک روز ان کی نظر کروٹن کے پتوں پر پڑی تو دیکھا کہ ایک پتے پر کوئی انسانی شبیہہ ہے۔ چونکہ جناح صاحب جہاندیدہ تھے اس لیے ترنت سمجھ گئے کہ یہ شبیہہ دراصل آسمانی اشارہ ہے کہ پریشان مت ہو۔ تمہارے وارث کا انتظام ہو گیا ہے۔ جناح صاحب کے چہرے پر ایک عرصے بعد اطمینان اور مسکراہٹ کی لہر آئی اور اس رات انہیں بہت دنوں بعد سکون کی نیند آئی۔
اگلے روز لیاقت علی خان کراچی سے مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے تو جناح صاحب نے پتے والا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں اور تم تب تک شاید نہ ہوں اس لیے میں اس شبیہہ کو الطاف کا نام دے رہا ہوں۔
کاش جناح صاحب کے ذاتی معالج کرنل الہی بخش، سوانح نگار پوتھن جوزف اور رضوان احمد زندہ ہوتے تو اس واقعہ کی تصدیق ضرور کرتے۔ مگر یہ کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ آئندہ نسلوں سے پوشیدہ رہتا۔ چنانچہ فاروق ستار نے گذشتہ روز قوم کی امانت قوم تک پہنچا دی۔
جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ بھارت ورش میں ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ہوائی جہاز اڑا کرتے تھے۔ جب اس پہ کسی کو اعتراض نہیں کہ محمد بن قاسم پہلے پاکستانی تھے۔ جب جارج بش کی یہ دلیل ہضم ہوسکتی ہے کہ انھیں خداوند نے بشارت دی کہ عراق پر قبضہ کرلو۔
جب یہ بات قابلِ فہم ہے کہ شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری 14 برس امام ابوحنیفہ کے شاگرد رہے۔ جیسے پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو یقین ہے کہ اصل قربانی دینے والے مہاجر صرف وہ ہیں جو مشرقی پنجاب اور جموں سے لٹ پٹ کر پاکستان پہنچے تو پھر یہ ماننے میں کیا ہچر مچر کہ جناح صاحب اور لیاقت علی خان ایک ساتھ بول اٹھے
ہم نہ ہوں گے تو ہمارے بعد الطاف الطاف۔
ارے ہاں! ایک اہم بات تو فاروق ستار صاحب نے بتائی ہی نہیں۔ جب جناح صاحب 11 ستبمر 1948 کو حالت بگڑنے کے سبب زیارت سے بذریعہ طیارہ کراچی پہنچائے گئے تو انہیں ماری پور بیس سے گورنر جنرل ہاؤس لانے والی ایمبولینس راستے میں ہی خراب ہو گئی۔
قائدِ اعظم کے آخری الفاظ تھے ’خدا پاکستان کی حفاظت فرما ۔۔۔۔ہمارے بعد الطاف الط۔۔۔۔۔‘
( فاروق ستار سے حوصلہ پا کے کہیں کل کلاں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ 1947 میں تقسیم نہیں چائنا کٹنگ ہوئی تھی ۔۔)