rising.pakistan1
FULL MEMBER
New Recruit
- Joined
- Apr 1, 2011
- Messages
- 60
- Reaction score
- 0
میں جناب عمران خان صاحب کو کیوں ووٹ دوں اور کیوں نہ دوں ؟
یقین جانیے میں نے زندگی بھر کبھی بھی قلم نہیں اٹھایا. میرا تعلق ملک کی خاموش اکثر یت سے ہے جو شاید اپنا ووٹ بھی نہیں ڈالتے. خاص طور پر اس طبقے سے ہے جو اپنی تعلیم اور روزگار تک محدود ہے، لیکن ملک میں جاری اسس صورتحال نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا.
ہو سکتا ہے کے سب لوگوں کو میری راۓ سے اتفاق نہ ہو. لیکن میری بس اتنی گزارش ہے کے تحمل کے ساتھ میری تحریر کو پڑھیے گا.
ہمیں ایک دوسرے کی راۓ کا احترام کرنا چائیے. بیحثیت پاکستانی شہری ، ہم اسس وقت دیکھ رہے ہیں ، کے ملک مے ایک بڑی تبدیلی ہونے جا رہے ہے. میں بھی اسس تبدیلی کے خوہاں ہوں، لیکن میرے ذھن مے چند سوالات ہیں اور میں اپنے پڑھنے والوں سے ان کے جوابات چاہتا ہوں.
کیونکے پہلی تبدیلی امیرالمومنین جناب ضیاالحق صاحب لیکر آے تھے. دوسری تبدیلی سب سے پہلے پاکستان کہ کر کی گی. دونوں کے نتایج آج قوم کے سامنے ہیں. خدا نہ کرے کے ایک بار پھر تبدیلی کے نام پر وو کچھ کیا جائے جس کی قصر باقی ہے.
عمران خان واحد بردبار سیاستدان
اسس وقت اگر کوئی بردبار سیاستدان اس ملک میں نظر اتا ہے تو وو عمران خان ہے. اسس میں کوئی شک نہیں کے اگر آپ جتنے ٹاک شوز اٹھائیں ، آپ کو عمران خان کے لہجے مے بردباری نظرآے گی. جو دوسرے سیاسیتدانوں میں نہیں ہے.
اسی وجہہ سے میں نے بھی عمران خان کو اپنا لیڈر جانا. چند ہفتوں کے اندر ملک میں جس تیزی کے ساتھ نوجوانو نے اسے لبیک کہا ہے، وو لاجواب ہے . ایک سیلابی ریلے کی ترہان جونق در جونق عوام اسے اپنا لیڈر تسلیم کر رہی ہے.
کراچی کاحالیہ جلسہ اسس کا ثبوت ہے. انشاللہ اللہ نے چاہا تو عمران خان ملک میں ایک طوفان برپا کر دے گا.
لیکن اسس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں ہیں جو بار بار میرے ذھن میں آتی ہیں. کیوں کے اب تک کے جتنے بھی دعوے تبدیلی کے نام پے کیے گیا، ہمیشہ عوام کو سواۓ دھوکے کے کچھ نہیں ملا. عوام نے ہمیشہ اچھی آواز بلند کرنے والے کا استقبال کیا لکین بعد میں اسس اچھی آواز والے نے جو عوام کے ساتھ کیا وو ہم سب کے سامنے ہے.
میری کچھ سوچ ہے اور کچھ سوالات اور یے اپ کے سامنے ہے، آپ کا حق ہے کے اس سے انکار کریں یا اقرار. بہیرال کوئی بھی تبدیلی آے یاد رکھیے گا کے یہ تبدیلی صرف مقامی بنیاد پر نہیں اتی بلکے اسس کا واسطہ نہ چاہتے ہووے بھی عالمی حالت سے ہوتا ہے.
لاہور میں نواز شریف کو برا کہنا، کراچی میں الطاف حسسیں کو برا کیوں نہیں کہنا؟
لاہور کے جلسے میں تو جناب عمران خان نے نواز شریف کو آرٹھے ہاتھوں لیا ان کو خوب للکارا. جبکے کراچی جلسے میں انہوں نے الطاف حسسیں صاحب کے مطالق کوئی بات نہیں کی. جبکے اگر آپ تین یا چار مہینے پہلے چلے جاییں تو سیاست شروع کرنے کے بعد سے لیکر تین چار مہینے پہلے تک اگر خان صاحب کی تنقید کہ نشانہ سب سے زیادہ کوئی اگر رہا ہے تو وو جناب الطاف حسسیں صاحب. ایسا کیا ہو گیا، کہ کچھ دنوں پہلے تک تو ایک آدمی ملک کا سب سے بڑا غدار تھا اور اب ایسا نہیں ہے. جو بات آپ دس سال تک کرتے رہے اس کو مانا جائے یا اس کو جو آپ اب تین مہینے سے کر رہے ہیں.
اس کا جواز کچھ یوں دیا گیا کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ لیکر چلنا ہے، ہم نہیں چاہتے کے لوگوں کو تنقید کہ نشانہ بناییں. چلیں بات مان لیتے لیں لیکن صرف الطاف حسسیں صاحب ہی کے لئے کیوں اصول بدل رہے ہیں. جناب نواز شریف نے کیا بگاڑا ہے. ان کو بھی ساتھ لیکر چلیں. پچھلے پندار سالوں میں جتنے بیانات آپ نے الطاف حسسیں کے معتلق دیے، اس کے دس پرسنٹ بھی آپ نے نواز شریف کے معتلق نہیں دے. یہ صرف میری راے نہیں، کچھ تجزیہ نگاروں نے اس کی طرف روشنی ڈالی تھی.
عالمی طاقتیں کیوں جناب عمران خان کو پاکستان میں مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں
امریکا اسس وقت پریشانوں کا شکار ہے. خاص طور پر مالی پریشانیوں سے. کچھ دن قبل عراق سے بھی اس کی فوجیں نکل چکی ہیں. خود امریکا کے اندر والل سٹریٹ کی تحریک چل رہی ہے. تو اسس وقت امریکا چاہتا ہے کے اپنے مالی حالات پر قابو پاے. امریکا سالانہ ایک بڑی امدادا پاکستان کو دیتا ہے. پاکستان کی موجودہ حکومت اس وقت امریکا کی دہشتگردی کی جنگ کے حمایت کرتی ہے جس کی وجہہ سے یہ امداد پاکستان کو ملتی ہے. امریکا کو جلد پاکستان میں ایک ایسی حکومت چائیے جو غیرت کے نام پر امریکا کو للکارے، اور عوامی راے سے امریکا کی امداد کو خود سے انکار کرے. یہ بلکل اسس ترہان ہو گا، جیسے آپ کسی کے ہاں نوکری کریں اور مہینے کے آخر میں جب تنخوا ملنے کا وقت آے تو اپنے باس کو گالی بک کے کہیں کہ مجھے تمہاری تنخواہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے. باس کے لئے اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو گی. وو تو چاہتا ہی یہی تھا، تو اس نے ایسا ماحول پیدا کردیا کے آپ اپنے آپ بولیں.
اب اگر امریکا پاکستان کو امداد دینے سے انکاار کرے تو مثلا، تو اسس صورتحال میں امریکا کے فائدے میں ہے کے ایک عوامی حکومت غیرت کے ساتھ خود یہ علان کرے کے ہمے تمھارے پیسوں کی ضرورت نہیں.
ایسا کرنے کے لئے ایک ایسا لیڈر چاہیے جس کے پیچھے عوام ہو، جو خود بھی اسلامی فلاحی ریاست کا نام لیوا ہوا. لگتا یہ ہے کے اسس کا سہرا عمران خان کے سر جائے گا. وو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر اور قومی حمیت کے نام پر جب برسرے اقتدار آییں گیں، تو یہ علان کریں گیں، کے ہمے امداد نہیں چائیے بلکل اس نوکر کی ترہان جیسس نے پورے مہینے محنت کے اور جب تنخواہ لینے کا وقت آیا تو غیرت یاد آیی. سیدھی سادھی عوام اسس بنا پر مزید عمران خان کی دیوانی ہو جائے گی.
تین وزراۓ خارجہ کہ ایک جگہ اکھٹنا ہونا معمولی بات نہیں
امداد سے انکار کرنا اتنا آسان نہیں ، اسی لئے تین سابق وزراء خارجہ کو ایک جگہ لا کر بٹھایا گیا. پہلےسردار آصف صاحب، جن کے مرہوں منت ہے طالبان کی پیدائش . انھی کے دور میں طالبان نے خروج کیا.
انتہائی حیرت ہے کے سردار آصف علی کی کرپشن پر تحریک انصاف میں انصاف کیوں نہ ہوا. کیا کسی سے چپھا ہوا ہے ان کا دیانتدار ہونا. کراچی کے جلسے سے ٹھیک دو یا تین دن پہلے تحریک انصاف کے انتہایی دیانتدار نووارد ذمےدار جناب عازم سواتی صحاب، جو اس وقت ڈکلاریڈ امیر ترین رکن قومی اسمبلی ہیں، نے فیصل قریشی کے پروگرام بانگ ا دارا میں گفتگو کرتے ہوے آصف کی کرپشن کے راز فاش کیے. Watch Bang-e-Dara افسسوس انہیں یہ نہیں پتا تھا، کے جس کے معتلق یہ بول رہے ہیں وو عمران کا جیالا بنے گا. ہاں اب جب کے وو تحریک انصاف میں ا چکے ہیں، وو پاک ہو چکے ہیں. اب نہ ہی وو کرپٹ ہیں، نہ ہی بیمان.
پھر ماشاللہ دوسرے سابق وزیر خارجہ عزت مآب جناب خورشید قصوری صاحب. ہر کوئی ان کے کارناموں سے اچھی ترہان واقف ہے. پاکستان کو اسس صورتحال میں پونچھانے پر جتنا بڑاکردار ان کا ہے شاید ہی کسی اور کا ہو. حیرت ہے جس جلسے میں عافیہ کے لیے نعرے لگے، اسی جلسے کی قیادت میں موصف شامل تھے. آپ بھی ان کو دودھ کا دھلا قراردے دیں، لیکن ان کا ایک جرم نہ قابل تلافی ہے. موصف کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ یہ مملکت اسلامی ریاست پاکستان کے وو عظیم آدمی ہیں، جنہیں یہ شرف حاصل ہے، کے انہوں نے اسرئیل کے وزیر خارجہ سے اپنے دور حکومت مے باقاعدہ ملاقات کی. چھپ کے نہیں، بلکے الاعلان. یہ پہلی دفعہ ہوا، کے پاکستان کے بڑے حکومتی اہلکار نے اسرئیل کے ساتھ نہ صرف رابطہ کیا اور فخر سے تشہیر بھی کی. کچھ لینکس یہاں ہیں. اب کیا کیا جائے، کے بیچارے بھولے بھالے عمران خان کو یے حقائق نہیں پتا. اسلامی ریاست بنانے کے ازم رکھنے والے کو یہ نہیں پتا کے، وو ایک شخص کو خوش آمدید کہ رہے ہیں، جو پاکستان کے تاریخ کے سب سے بڑے کارنامے کر چکا ہے، یا کیا پتا قصوری صاحب کپتان کو ان چینلس تک رابطے استوار کریں، کیوں کے ان کی آشیرباد تو بڑی سرکار کو با آسانی رازی کر سکتی ہے. http://www.mfa.gov.il/MFA/Government/Speeches+by+Israeli+leaders/2005/St atement+by+FM+Shalom+after+meeting+with+Pakistan+FM+Kasuri+1-Sep-2005.htm
Chagatai Khan: Imran Khan's Mossad Connection Khurshid Kasuri.
News PTI's Khurshid Kasuri ......... a Pakistani Zionist ???
INTELLIGENCE: Imran Khan's Mossad Connection Khurshid Kasuri.
تیسرے وزیر خارجہ کا تو آپ کے سامنے ہی حال ہے. دیکھیں یہ بلاواجے نہیں ہے، کے ایک ساتھ ایک جگہ پر تینوں وزراء خارجہ کو بھٹیا گیا. جو تبدیلی لانی ہے، اس کے لئے پرانے رابطے چاہییں. جو پھر سے ایک دفعہ اس ملک کے ماتھے پر سیاہی کا داغ مل سکیں. اور آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کے جب یہ ایکلے کیا تھے، تو ماشاللہ سے ساتھ مل کر کیا کچھ نہیں کریں گیں.
کیا ہم اتنے با اختیارہیں کے جو چاہے کر لیں ؟
آپ کیا سمجھتے ہیں، کے ہم اتنے با اختیار ہیں کے ہم اپنے فیصلے خود کر لیں. جس کو چاہییں منتخب کر لیں. اگر آپ کی یہی سوچ ہے، تو یقینن آپ کو حق حاصل ہے کے آپ کو بیوؤقف بنایا جائے. اور آپ صدا بنتے رہیں گیں. یہ کیسے ممکن ہے کے آپ اپنے بچے کو انجینیرنگ کروائیں اور پھر اسے انجینر ہی نا بناییں. شاید یہ بات مشکل سے ہضم ہو. بحرال میں نہیں سمجھتا کے دنیا میں کوئی چیز بلاواجے ہوتی ہے، خاص طور پر جس چیز کا تعلق ایک پورے ملک سے نہیں بلکے اس پورے خطّے سے ہو. ممکن نہیں کے یہ چیز بڑی طاقتوں کی مرضی کے بغیر ممکن ہو. یہ کیسے ممکن ہے کے جناب عمران خان نے سیاست میں ڈگری لی ہو، اور عمران خان کو سیاست میں نہ لانا ہو. عمران خان نےانگلینڈ اوسفورڈ سے سیاست میں ڈگری لی.ان کو آنا سیاست میں ہی تھا، کرککٹ کی وجہہ سے اور دوسرے کاموں کی وجہہ سے ان کی ایک شخصیت بنی اور جب وو تیار ہو گئے تو پھر ان کو سیاست میں لایاگیا. یہ ساری چیزیں بلا اتفاق نہیں ہوتیں، خاص طور پر اس ملک کے لیے جو امریکا کے لیے انتہی حیثیت کا حامل ہے.اب جب کے ان شخصیت بھرپور طور پر بن چکی تھی. کرکٹ پھر شوکت خانم اور پھر سیاست کے ناکام پندرہ سال، اب ان کو اس ہوا کے گھوڑے پر بھٹہنا ہی تھا، جسس نے چند ہفتوں میں سیاست کا نقشہ ہے بدل دیا. لوگ کہتے ہیں، اسٹبلشمنٹ کیا ہوتی ہے، اگر اب بھی نہ سمجھ سکیں تو حیرت ہو گی. اسٹبلشمنٹ یہ ہوتی ہے، کے ٹھیک پانچ مہینے قبل کراچی کے علاقے گرین ٹاون میں عمران خان کے جلسے میں ہزار آدمی بھی مشکل سے آے تھے Pakistan Tehreek-e-Insaf Tiger Squad in Karachi - YouTube ، اورچند مہینوں میں عوام کا جم غفیر آ گیا. اسٹبلشمنٹ خود کچھ نہیں کرتی، صرف ماحول بناتی ہے، وکٹس گراتی ہے، اور پھر عام عوام جو پہلے ہی سے پریشان ہوتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں کے مسیحا ا گیا. عوام کو بھی یہی چائے. وو بلاگ لکھ کر ٹویٹر لکھ کر، اور بوھت تیر مارا تو جلسے میں جا کر سمجھتے ہیں، کے انہوں نے ملک کی وو خدمات انجام دے دی جس کا ان پر حق تھا. اور اگر کسی نے غلطی سے بھی اس مسیحا کے اوپر شک کیا، تو وو غدار قرار پاتا ہے.
قسم خدا کی میں بھی آپ کی ترہان عمران خان کو اپنا لیڈر مانتا، اگریہ اسی ڈگرپے نہ چلتے جو سب کر رہے ہیں. کیا ازم سواتی کی کرپشن پر کسی کو کوئی رتی برابر بھی شک ہے. ایسے آدمی کو شامل کو کیوں کیا گیا. یا پھر اور دوسرے لوٹوں کو جن کی کرپشن روزروشن کی ترہان صاف ہے. اس اعتراض کا جواب کپتان صاحب اس ترہان دیتے ہیں، کے اسلام کے آغاز میں بوہت سارے لوگ شامل ہو تائب ہو کر، تو اسلام نے کیا انھے روکا؟ میرا کہنا یہ ہو گا، کے اس میں کوئی شک نہیں کے اسلام نے انہیں شامل کیا.
لیکن جو بھی شامل ہوا اس نے کلمہ پڑھ کر تمام جھوٹے خداؤں کا انکار کیا، اور پھر خالق حق کا اقرار کیا. کیا تحریک انصاف میں شامل ہونے والے کسی بھی آدمی نے ایسا کیا؟ کیا اس نے کہا کےمیں نے جو پہلے کیا تھا، غلط کیا، کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا. تو پھرہم ان کو کیسے تسلیم کر لیں. کیا جو تحریک انصاف میں شامل ہو گیا، نجات پا گا؟ تحریک انصاف مے شامل ہونے سے پہلے وو کرپٹ ہے، اور جیسے ہی مقدس گاہے کو خدا مانا، پاک ہو گیا. سبحاناللہ. صرف بات اتنی سی ہے، کے پندرہ سالوں میں دیکھ لیا، کے ایک یا دو سیٹس سےزیادہ نہیں ملنی، اب کیا کریں، بس ووہی جو سب کرتے ہیں. تو پھر تبدیلی کا دھوکہ کیوں.
صرف باتیں یا کوئی عملی اقدام بھی؟
میں یہ کر دوں گا، میں وو کر دوں گا. ہم کرپشن ختم کر دیں گیں. ہم الیکٹرونک گوورمنٹ بنیں گیں. ہم پاکستان پاسسپورٹ کی عزت کروائیں گیں. ہم بیروزگاری ختم کر دیں گیں. ہم ملک سے جہالت ختم کر دیں گیں.
پندرہ سالوں سے باتیں ہی باتیں. کوئی عملی اقدام نہیں. اگر کہا جائے کچھ تو کہا جاتا ہے کے موصوف اچھے کپتان تھے. موصوف شوکت خانم ہسپتال چلا رہے ہیں. بابا ملک چلا نے میں کوئی فرق ہے نہیں؟ یا آپ سب کو موقع دیں گیں. لیکن بات ووہی ہے کے کس قیمت پر. کوئی بھی ا کر اچھی بات کر سکتا ہے، لیکن پرکھنے کا معیار آپ کا ماضی ہوتا ہے، یا آپ کا حال. دونوں چیزیں اچھی ترہان صاف ہیں.
جمہوریت کا نام لینے والے خود جمہوری ہیں کیا؟
اگر آپ کو کسی کے مستقبل کا اندازہ کرنا ہو تو اس کے ماضی کو اور اس کے حال کو دیکھیں، خود بہتر جان لیں گیں. تحریک انصاف کو بنے پندرہ سال ہو گیے. مجھے خود یاد ہے کے ٢٠٠٣ یا ٢٠٠٤ میں عمران خان صاحب سے شاید حامد میر نے اس بارے میں سوال کیا تھا، تو جناب نے فرمایا تھا، کے وو اپنی جماعت کے الیکشن کروائیں گیں، تحریک کو بنے پندرہ سال ہو گیے. کسی بھی قسم کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ الیکشن کی وجہہ سے موجود نہیں. دستور مل جائے گیں، لیکن اس سے آگے کچھ نہیں ملے گا. ہم کیسے مان لیں کے جو آدمی اپنی چھوٹی سی جماعت میں الیکشن نہ کروا سکا، جب اقتدار میں آے گا، جمہوریت لے آے گا. جناب شاہ محمود قریشی نے جوائن کیا، انتہائی بڑا عہدہ دے دیا. کوئی نظام ہوتا، طریقے کار ہوتا، اور پھر عہدہ ملتا سمجھ میں آتا. کیا جواز بنایا گیا، کے وو سینئررہنما ہیں. خوب، تو پھر اب ان سے یہ عہدہ لے کر جناب جاوید ہاشمی کو دے دو، کیوں کے آپ کے منطق تو یہی کہتی ہے کے جو سینیر ہو گا، حقدار ہو گا. سردار آصف علی کو بھی بوہت بڑا عہدہ ملنا چائیے.
سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے، کے وو رہنما جو پندرہ سال سے ساتھ کھڑے تھے، سب کو پیچھے کر دیا. یہ کہاں کا انصاف ہے تحریک انصاف میں. سب پرانے پیچھے، کیوں اسس لیے کے ووبڑے لوٹے نہیں ہیں؟
یہ تو ووہی ہوا کے جو طاقتور ہے، ساتھ ہے، جو بیچارہ کمزور وو پیچھے، جب کے وو اس وقت ساتھ تھے جب کوئی نہ تھا. پھر تبدیلی کس بات کی؟
ایدھی اور عمران خان اسکنڈل
مجھے ایک بات بتایے کے کیا جناب ایدھی صاحب کی شخصیت پے کسی کو کوئی شک ہے کیا؟ یقینن نہیں. ایدھی صاحب اگر کہا جایے کے پاکستان کی اہم ترین شخصیت ہیں تو کوئی بات نہیں ہو گی. انہوں نے پوری زندگی کام کیا ہے، باتیں نہیں کیں. اچھا اب خود سنیے کے کپتان نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ خود دیکھے عمران خان صاحب نے کیسے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملکر اہدھی صاحب کو استعمال کرنے کی کوشش کی. Imran Khan Expoed By Abdul Sattar Edhi In EXPRESS NEWS - YouTube
خدارا کم سے کم یہ دیکھنے کےبعد ایدھی کوگالیاں نہیں دیجیے گا، عمران خان کی محبّت میں، کیوں کے ان کے بوہت سارے کار کنوں نے ایدھی کو اسس وجہہ سے قیمتی القابات سے نوازا ہے، جو انتہائی افسوسناک بات ہے.
آپ شاید یہ سمجھیں کے میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے، تو میں یہ صاف بتا دوں، کہ میں بھی اکثریت کی ترہان عام عوام مے سے ہوں، لیکن جس چیز نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا وو صرف یہ کے جب بھی تبدیلی کی آواز کے ساتھ اس ملک میں جو ہوا وو انتہائی برا ہوا.
پہلی بڑی تبدیلی اسلام کی آڑمیں امیرالمومنین جناب ضیاالحق صاحب نے کی. جس کے نتایج سب کے سامنے ہیں. پھر دوسری بڑی تبدیلی سب سے پہلے پاکستان کہ نام لیکر جناب پرویز مشرّف نے کی. اس کے نتایج بھی سامنے ہیں.
مزے کی بات یے کوئی دور کی بات نہیں جب اکثریت شروع میں مشرف کی حامی تھی. عام عوام کی راۓ بنایی گی. کیونکے اب نتایج سامنے ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں. ایک بار پھر تبدیلی کی آواز لگا کر عوام کو دھوکھا دیا جایے گا. اور ایک بار پھر پاکستان کو وو نقصان پونچایا جایے گا، جو شاید عام سیاستدان بھی نہ پونچھا سکیں. ویسے تو یہ سیستدان بھی کسی سے کم نہیں، مگر تبدیلی کی آواز لیکر اور اسٹبلشمنٹ کی زیر پردہ جب بھی کوئی اقتدار میں آیا ہے، ہم نے دیکھا ہے اس نے کیا کیا ہے. دو دفعہ ہم بھرپور نقصان اٹھا چکے ہیں، اور ایک بار پھر اٹھانے جاییں گیں.
اس میں کوئی شک نہیں کے جناب عمران خان صاحب ملک کے آنے والے منتخب وزیرعازم ہوں گیں.لیکن میری کوشش تھی کے ان چند باتوں کو آپ کے سامنے رکھ سکوں جو سکرین پر نہیں دکھائی جاتیں جو سوالات سکرین پر نہیں کیے جاتے، جو اخبارات میں نہیں لکھے جانتے.
ایک عام پاکستانی
Why Imran Khan? or Why not?
یقین جانیے میں نے زندگی بھر کبھی بھی قلم نہیں اٹھایا. میرا تعلق ملک کی خاموش اکثر یت سے ہے جو شاید اپنا ووٹ بھی نہیں ڈالتے. خاص طور پر اس طبقے سے ہے جو اپنی تعلیم اور روزگار تک محدود ہے، لیکن ملک میں جاری اسس صورتحال نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا.
ہو سکتا ہے کے سب لوگوں کو میری راۓ سے اتفاق نہ ہو. لیکن میری بس اتنی گزارش ہے کے تحمل کے ساتھ میری تحریر کو پڑھیے گا.
ہمیں ایک دوسرے کی راۓ کا احترام کرنا چائیے. بیحثیت پاکستانی شہری ، ہم اسس وقت دیکھ رہے ہیں ، کے ملک مے ایک بڑی تبدیلی ہونے جا رہے ہے. میں بھی اسس تبدیلی کے خوہاں ہوں، لیکن میرے ذھن مے چند سوالات ہیں اور میں اپنے پڑھنے والوں سے ان کے جوابات چاہتا ہوں.
کیونکے پہلی تبدیلی امیرالمومنین جناب ضیاالحق صاحب لیکر آے تھے. دوسری تبدیلی سب سے پہلے پاکستان کہ کر کی گی. دونوں کے نتایج آج قوم کے سامنے ہیں. خدا نہ کرے کے ایک بار پھر تبدیلی کے نام پر وو کچھ کیا جائے جس کی قصر باقی ہے.
عمران خان واحد بردبار سیاستدان
اسس وقت اگر کوئی بردبار سیاستدان اس ملک میں نظر اتا ہے تو وو عمران خان ہے. اسس میں کوئی شک نہیں کے اگر آپ جتنے ٹاک شوز اٹھائیں ، آپ کو عمران خان کے لہجے مے بردباری نظرآے گی. جو دوسرے سیاسیتدانوں میں نہیں ہے.
اسی وجہہ سے میں نے بھی عمران خان کو اپنا لیڈر جانا. چند ہفتوں کے اندر ملک میں جس تیزی کے ساتھ نوجوانو نے اسے لبیک کہا ہے، وو لاجواب ہے . ایک سیلابی ریلے کی ترہان جونق در جونق عوام اسے اپنا لیڈر تسلیم کر رہی ہے.
کراچی کاحالیہ جلسہ اسس کا ثبوت ہے. انشاللہ اللہ نے چاہا تو عمران خان ملک میں ایک طوفان برپا کر دے گا.
لیکن اسس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں ہیں جو بار بار میرے ذھن میں آتی ہیں. کیوں کے اب تک کے جتنے بھی دعوے تبدیلی کے نام پے کیے گیا، ہمیشہ عوام کو سواۓ دھوکے کے کچھ نہیں ملا. عوام نے ہمیشہ اچھی آواز بلند کرنے والے کا استقبال کیا لکین بعد میں اسس اچھی آواز والے نے جو عوام کے ساتھ کیا وو ہم سب کے سامنے ہے.
میری کچھ سوچ ہے اور کچھ سوالات اور یے اپ کے سامنے ہے، آپ کا حق ہے کے اس سے انکار کریں یا اقرار. بہیرال کوئی بھی تبدیلی آے یاد رکھیے گا کے یہ تبدیلی صرف مقامی بنیاد پر نہیں اتی بلکے اسس کا واسطہ نہ چاہتے ہووے بھی عالمی حالت سے ہوتا ہے.
لاہور میں نواز شریف کو برا کہنا، کراچی میں الطاف حسسیں کو برا کیوں نہیں کہنا؟
لاہور کے جلسے میں تو جناب عمران خان نے نواز شریف کو آرٹھے ہاتھوں لیا ان کو خوب للکارا. جبکے کراچی جلسے میں انہوں نے الطاف حسسیں صاحب کے مطالق کوئی بات نہیں کی. جبکے اگر آپ تین یا چار مہینے پہلے چلے جاییں تو سیاست شروع کرنے کے بعد سے لیکر تین چار مہینے پہلے تک اگر خان صاحب کی تنقید کہ نشانہ سب سے زیادہ کوئی اگر رہا ہے تو وو جناب الطاف حسسیں صاحب. ایسا کیا ہو گیا، کہ کچھ دنوں پہلے تک تو ایک آدمی ملک کا سب سے بڑا غدار تھا اور اب ایسا نہیں ہے. جو بات آپ دس سال تک کرتے رہے اس کو مانا جائے یا اس کو جو آپ اب تین مہینے سے کر رہے ہیں.
اس کا جواز کچھ یوں دیا گیا کہ ہمیں لوگوں کو ساتھ لیکر چلنا ہے، ہم نہیں چاہتے کے لوگوں کو تنقید کہ نشانہ بناییں. چلیں بات مان لیتے لیں لیکن صرف الطاف حسسیں صاحب ہی کے لئے کیوں اصول بدل رہے ہیں. جناب نواز شریف نے کیا بگاڑا ہے. ان کو بھی ساتھ لیکر چلیں. پچھلے پندار سالوں میں جتنے بیانات آپ نے الطاف حسسیں کے معتلق دیے، اس کے دس پرسنٹ بھی آپ نے نواز شریف کے معتلق نہیں دے. یہ صرف میری راے نہیں، کچھ تجزیہ نگاروں نے اس کی طرف روشنی ڈالی تھی.
عالمی طاقتیں کیوں جناب عمران خان کو پاکستان میں مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں
امریکا اسس وقت پریشانوں کا شکار ہے. خاص طور پر مالی پریشانیوں سے. کچھ دن قبل عراق سے بھی اس کی فوجیں نکل چکی ہیں. خود امریکا کے اندر والل سٹریٹ کی تحریک چل رہی ہے. تو اسس وقت امریکا چاہتا ہے کے اپنے مالی حالات پر قابو پاے. امریکا سالانہ ایک بڑی امدادا پاکستان کو دیتا ہے. پاکستان کی موجودہ حکومت اس وقت امریکا کی دہشتگردی کی جنگ کے حمایت کرتی ہے جس کی وجہہ سے یہ امداد پاکستان کو ملتی ہے. امریکا کو جلد پاکستان میں ایک ایسی حکومت چائیے جو غیرت کے نام پر امریکا کو للکارے، اور عوامی راے سے امریکا کی امداد کو خود سے انکار کرے. یہ بلکل اسس ترہان ہو گا، جیسے آپ کسی کے ہاں نوکری کریں اور مہینے کے آخر میں جب تنخوا ملنے کا وقت آے تو اپنے باس کو گالی بک کے کہیں کہ مجھے تمہاری تنخواہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے. باس کے لئے اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو گی. وو تو چاہتا ہی یہی تھا، تو اس نے ایسا ماحول پیدا کردیا کے آپ اپنے آپ بولیں.
اب اگر امریکا پاکستان کو امداد دینے سے انکاار کرے تو مثلا، تو اسس صورتحال میں امریکا کے فائدے میں ہے کے ایک عوامی حکومت غیرت کے ساتھ خود یہ علان کرے کے ہمے تمھارے پیسوں کی ضرورت نہیں.
ایسا کرنے کے لئے ایک ایسا لیڈر چاہیے جس کے پیچھے عوام ہو، جو خود بھی اسلامی فلاحی ریاست کا نام لیوا ہوا. لگتا یہ ہے کے اسس کا سہرا عمران خان کے سر جائے گا. وو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر اور قومی حمیت کے نام پر جب برسرے اقتدار آییں گیں، تو یہ علان کریں گیں، کے ہمے امداد نہیں چائیے بلکل اس نوکر کی ترہان جیسس نے پورے مہینے محنت کے اور جب تنخواہ لینے کا وقت آیا تو غیرت یاد آیی. سیدھی سادھی عوام اسس بنا پر مزید عمران خان کی دیوانی ہو جائے گی.
تین وزراۓ خارجہ کہ ایک جگہ اکھٹنا ہونا معمولی بات نہیں
امداد سے انکار کرنا اتنا آسان نہیں ، اسی لئے تین سابق وزراء خارجہ کو ایک جگہ لا کر بٹھایا گیا. پہلےسردار آصف صاحب، جن کے مرہوں منت ہے طالبان کی پیدائش . انھی کے دور میں طالبان نے خروج کیا.
انتہائی حیرت ہے کے سردار آصف علی کی کرپشن پر تحریک انصاف میں انصاف کیوں نہ ہوا. کیا کسی سے چپھا ہوا ہے ان کا دیانتدار ہونا. کراچی کے جلسے سے ٹھیک دو یا تین دن پہلے تحریک انصاف کے انتہایی دیانتدار نووارد ذمےدار جناب عازم سواتی صحاب، جو اس وقت ڈکلاریڈ امیر ترین رکن قومی اسمبلی ہیں، نے فیصل قریشی کے پروگرام بانگ ا دارا میں گفتگو کرتے ہوے آصف کی کرپشن کے راز فاش کیے. Watch Bang-e-Dara افسسوس انہیں یہ نہیں پتا تھا، کے جس کے معتلق یہ بول رہے ہیں وو عمران کا جیالا بنے گا. ہاں اب جب کے وو تحریک انصاف میں ا چکے ہیں، وو پاک ہو چکے ہیں. اب نہ ہی وو کرپٹ ہیں، نہ ہی بیمان.
پھر ماشاللہ دوسرے سابق وزیر خارجہ عزت مآب جناب خورشید قصوری صاحب. ہر کوئی ان کے کارناموں سے اچھی ترہان واقف ہے. پاکستان کو اسس صورتحال میں پونچھانے پر جتنا بڑاکردار ان کا ہے شاید ہی کسی اور کا ہو. حیرت ہے جس جلسے میں عافیہ کے لیے نعرے لگے، اسی جلسے کی قیادت میں موصف شامل تھے. آپ بھی ان کو دودھ کا دھلا قراردے دیں، لیکن ان کا ایک جرم نہ قابل تلافی ہے. موصف کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ یہ مملکت اسلامی ریاست پاکستان کے وو عظیم آدمی ہیں، جنہیں یہ شرف حاصل ہے، کے انہوں نے اسرئیل کے وزیر خارجہ سے اپنے دور حکومت مے باقاعدہ ملاقات کی. چھپ کے نہیں، بلکے الاعلان. یہ پہلی دفعہ ہوا، کے پاکستان کے بڑے حکومتی اہلکار نے اسرئیل کے ساتھ نہ صرف رابطہ کیا اور فخر سے تشہیر بھی کی. کچھ لینکس یہاں ہیں. اب کیا کیا جائے، کے بیچارے بھولے بھالے عمران خان کو یے حقائق نہیں پتا. اسلامی ریاست بنانے کے ازم رکھنے والے کو یہ نہیں پتا کے، وو ایک شخص کو خوش آمدید کہ رہے ہیں، جو پاکستان کے تاریخ کے سب سے بڑے کارنامے کر چکا ہے، یا کیا پتا قصوری صاحب کپتان کو ان چینلس تک رابطے استوار کریں، کیوں کے ان کی آشیرباد تو بڑی سرکار کو با آسانی رازی کر سکتی ہے. http://www.mfa.gov.il/MFA/Government/Speeches+by+Israeli+leaders/2005/St atement+by+FM+Shalom+after+meeting+with+Pakistan+FM+Kasuri+1-Sep-2005.htm
Chagatai Khan: Imran Khan's Mossad Connection Khurshid Kasuri.
News PTI's Khurshid Kasuri ......... a Pakistani Zionist ???
INTELLIGENCE: Imran Khan's Mossad Connection Khurshid Kasuri.
تیسرے وزیر خارجہ کا تو آپ کے سامنے ہی حال ہے. دیکھیں یہ بلاواجے نہیں ہے، کے ایک ساتھ ایک جگہ پر تینوں وزراء خارجہ کو بھٹیا گیا. جو تبدیلی لانی ہے، اس کے لئے پرانے رابطے چاہییں. جو پھر سے ایک دفعہ اس ملک کے ماتھے پر سیاہی کا داغ مل سکیں. اور آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کے جب یہ ایکلے کیا تھے، تو ماشاللہ سے ساتھ مل کر کیا کچھ نہیں کریں گیں.
کیا ہم اتنے با اختیارہیں کے جو چاہے کر لیں ؟
آپ کیا سمجھتے ہیں، کے ہم اتنے با اختیار ہیں کے ہم اپنے فیصلے خود کر لیں. جس کو چاہییں منتخب کر لیں. اگر آپ کی یہی سوچ ہے، تو یقینن آپ کو حق حاصل ہے کے آپ کو بیوؤقف بنایا جائے. اور آپ صدا بنتے رہیں گیں. یہ کیسے ممکن ہے کے آپ اپنے بچے کو انجینیرنگ کروائیں اور پھر اسے انجینر ہی نا بناییں. شاید یہ بات مشکل سے ہضم ہو. بحرال میں نہیں سمجھتا کے دنیا میں کوئی چیز بلاواجے ہوتی ہے، خاص طور پر جس چیز کا تعلق ایک پورے ملک سے نہیں بلکے اس پورے خطّے سے ہو. ممکن نہیں کے یہ چیز بڑی طاقتوں کی مرضی کے بغیر ممکن ہو. یہ کیسے ممکن ہے کے جناب عمران خان نے سیاست میں ڈگری لی ہو، اور عمران خان کو سیاست میں نہ لانا ہو. عمران خان نےانگلینڈ اوسفورڈ سے سیاست میں ڈگری لی.ان کو آنا سیاست میں ہی تھا، کرککٹ کی وجہہ سے اور دوسرے کاموں کی وجہہ سے ان کی ایک شخصیت بنی اور جب وو تیار ہو گئے تو پھر ان کو سیاست میں لایاگیا. یہ ساری چیزیں بلا اتفاق نہیں ہوتیں، خاص طور پر اس ملک کے لیے جو امریکا کے لیے انتہی حیثیت کا حامل ہے.اب جب کے ان شخصیت بھرپور طور پر بن چکی تھی. کرکٹ پھر شوکت خانم اور پھر سیاست کے ناکام پندرہ سال، اب ان کو اس ہوا کے گھوڑے پر بھٹہنا ہی تھا، جسس نے چند ہفتوں میں سیاست کا نقشہ ہے بدل دیا. لوگ کہتے ہیں، اسٹبلشمنٹ کیا ہوتی ہے، اگر اب بھی نہ سمجھ سکیں تو حیرت ہو گی. اسٹبلشمنٹ یہ ہوتی ہے، کے ٹھیک پانچ مہینے قبل کراچی کے علاقے گرین ٹاون میں عمران خان کے جلسے میں ہزار آدمی بھی مشکل سے آے تھے Pakistan Tehreek-e-Insaf Tiger Squad in Karachi - YouTube ، اورچند مہینوں میں عوام کا جم غفیر آ گیا. اسٹبلشمنٹ خود کچھ نہیں کرتی، صرف ماحول بناتی ہے، وکٹس گراتی ہے، اور پھر عام عوام جو پہلے ہی سے پریشان ہوتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں کے مسیحا ا گیا. عوام کو بھی یہی چائے. وو بلاگ لکھ کر ٹویٹر لکھ کر، اور بوھت تیر مارا تو جلسے میں جا کر سمجھتے ہیں، کے انہوں نے ملک کی وو خدمات انجام دے دی جس کا ان پر حق تھا. اور اگر کسی نے غلطی سے بھی اس مسیحا کے اوپر شک کیا، تو وو غدار قرار پاتا ہے.
قسم خدا کی میں بھی آپ کی ترہان عمران خان کو اپنا لیڈر مانتا، اگریہ اسی ڈگرپے نہ چلتے جو سب کر رہے ہیں. کیا ازم سواتی کی کرپشن پر کسی کو کوئی رتی برابر بھی شک ہے. ایسے آدمی کو شامل کو کیوں کیا گیا. یا پھر اور دوسرے لوٹوں کو جن کی کرپشن روزروشن کی ترہان صاف ہے. اس اعتراض کا جواب کپتان صاحب اس ترہان دیتے ہیں، کے اسلام کے آغاز میں بوہت سارے لوگ شامل ہو تائب ہو کر، تو اسلام نے کیا انھے روکا؟ میرا کہنا یہ ہو گا، کے اس میں کوئی شک نہیں کے اسلام نے انہیں شامل کیا.
لیکن جو بھی شامل ہوا اس نے کلمہ پڑھ کر تمام جھوٹے خداؤں کا انکار کیا، اور پھر خالق حق کا اقرار کیا. کیا تحریک انصاف میں شامل ہونے والے کسی بھی آدمی نے ایسا کیا؟ کیا اس نے کہا کےمیں نے جو پہلے کیا تھا، غلط کیا، کسی ایک نے بھی ایسا نہیں کیا. تو پھرہم ان کو کیسے تسلیم کر لیں. کیا جو تحریک انصاف میں شامل ہو گیا، نجات پا گا؟ تحریک انصاف مے شامل ہونے سے پہلے وو کرپٹ ہے، اور جیسے ہی مقدس گاہے کو خدا مانا، پاک ہو گیا. سبحاناللہ. صرف بات اتنی سی ہے، کے پندرہ سالوں میں دیکھ لیا، کے ایک یا دو سیٹس سےزیادہ نہیں ملنی، اب کیا کریں، بس ووہی جو سب کرتے ہیں. تو پھر تبدیلی کا دھوکہ کیوں.
صرف باتیں یا کوئی عملی اقدام بھی؟
میں یہ کر دوں گا، میں وو کر دوں گا. ہم کرپشن ختم کر دیں گیں. ہم الیکٹرونک گوورمنٹ بنیں گیں. ہم پاکستان پاسسپورٹ کی عزت کروائیں گیں. ہم بیروزگاری ختم کر دیں گیں. ہم ملک سے جہالت ختم کر دیں گیں.
پندرہ سالوں سے باتیں ہی باتیں. کوئی عملی اقدام نہیں. اگر کہا جائے کچھ تو کہا جاتا ہے کے موصوف اچھے کپتان تھے. موصوف شوکت خانم ہسپتال چلا رہے ہیں. بابا ملک چلا نے میں کوئی فرق ہے نہیں؟ یا آپ سب کو موقع دیں گیں. لیکن بات ووہی ہے کے کس قیمت پر. کوئی بھی ا کر اچھی بات کر سکتا ہے، لیکن پرکھنے کا معیار آپ کا ماضی ہوتا ہے، یا آپ کا حال. دونوں چیزیں اچھی ترہان صاف ہیں.
جمہوریت کا نام لینے والے خود جمہوری ہیں کیا؟
اگر آپ کو کسی کے مستقبل کا اندازہ کرنا ہو تو اس کے ماضی کو اور اس کے حال کو دیکھیں، خود بہتر جان لیں گیں. تحریک انصاف کو بنے پندرہ سال ہو گیے. مجھے خود یاد ہے کے ٢٠٠٣ یا ٢٠٠٤ میں عمران خان صاحب سے شاید حامد میر نے اس بارے میں سوال کیا تھا، تو جناب نے فرمایا تھا، کے وو اپنی جماعت کے الیکشن کروائیں گیں، تحریک کو بنے پندرہ سال ہو گیے. کسی بھی قسم کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ الیکشن کی وجہہ سے موجود نہیں. دستور مل جائے گیں، لیکن اس سے آگے کچھ نہیں ملے گا. ہم کیسے مان لیں کے جو آدمی اپنی چھوٹی سی جماعت میں الیکشن نہ کروا سکا، جب اقتدار میں آے گا، جمہوریت لے آے گا. جناب شاہ محمود قریشی نے جوائن کیا، انتہائی بڑا عہدہ دے دیا. کوئی نظام ہوتا، طریقے کار ہوتا، اور پھر عہدہ ملتا سمجھ میں آتا. کیا جواز بنایا گیا، کے وو سینئررہنما ہیں. خوب، تو پھر اب ان سے یہ عہدہ لے کر جناب جاوید ہاشمی کو دے دو، کیوں کے آپ کے منطق تو یہی کہتی ہے کے جو سینیر ہو گا، حقدار ہو گا. سردار آصف علی کو بھی بوہت بڑا عہدہ ملنا چائیے.
سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے، کے وو رہنما جو پندرہ سال سے ساتھ کھڑے تھے، سب کو پیچھے کر دیا. یہ کہاں کا انصاف ہے تحریک انصاف میں. سب پرانے پیچھے، کیوں اسس لیے کے ووبڑے لوٹے نہیں ہیں؟
یہ تو ووہی ہوا کے جو طاقتور ہے، ساتھ ہے، جو بیچارہ کمزور وو پیچھے، جب کے وو اس وقت ساتھ تھے جب کوئی نہ تھا. پھر تبدیلی کس بات کی؟
ایدھی اور عمران خان اسکنڈل
مجھے ایک بات بتایے کے کیا جناب ایدھی صاحب کی شخصیت پے کسی کو کوئی شک ہے کیا؟ یقینن نہیں. ایدھی صاحب اگر کہا جایے کے پاکستان کی اہم ترین شخصیت ہیں تو کوئی بات نہیں ہو گی. انہوں نے پوری زندگی کام کیا ہے، باتیں نہیں کیں. اچھا اب خود سنیے کے کپتان نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ خود دیکھے عمران خان صاحب نے کیسے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملکر اہدھی صاحب کو استعمال کرنے کی کوشش کی. Imran Khan Expoed By Abdul Sattar Edhi In EXPRESS NEWS - YouTube
خدارا کم سے کم یہ دیکھنے کےبعد ایدھی کوگالیاں نہیں دیجیے گا، عمران خان کی محبّت میں، کیوں کے ان کے بوہت سارے کار کنوں نے ایدھی کو اسس وجہہ سے قیمتی القابات سے نوازا ہے، جو انتہائی افسوسناک بات ہے.
آپ شاید یہ سمجھیں کے میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے، تو میں یہ صاف بتا دوں، کہ میں بھی اکثریت کی ترہان عام عوام مے سے ہوں، لیکن جس چیز نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا وو صرف یہ کے جب بھی تبدیلی کی آواز کے ساتھ اس ملک میں جو ہوا وو انتہائی برا ہوا.
پہلی بڑی تبدیلی اسلام کی آڑمیں امیرالمومنین جناب ضیاالحق صاحب نے کی. جس کے نتایج سب کے سامنے ہیں. پھر دوسری بڑی تبدیلی سب سے پہلے پاکستان کہ نام لیکر جناب پرویز مشرّف نے کی. اس کے نتایج بھی سامنے ہیں.
مزے کی بات یے کوئی دور کی بات نہیں جب اکثریت شروع میں مشرف کی حامی تھی. عام عوام کی راۓ بنایی گی. کیونکے اب نتایج سامنے ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں. ایک بار پھر تبدیلی کی آواز لگا کر عوام کو دھوکھا دیا جایے گا. اور ایک بار پھر پاکستان کو وو نقصان پونچایا جایے گا، جو شاید عام سیاستدان بھی نہ پونچھا سکیں. ویسے تو یہ سیستدان بھی کسی سے کم نہیں، مگر تبدیلی کی آواز لیکر اور اسٹبلشمنٹ کی زیر پردہ جب بھی کوئی اقتدار میں آیا ہے، ہم نے دیکھا ہے اس نے کیا کیا ہے. دو دفعہ ہم بھرپور نقصان اٹھا چکے ہیں، اور ایک بار پھر اٹھانے جاییں گیں.
اس میں کوئی شک نہیں کے جناب عمران خان صاحب ملک کے آنے والے منتخب وزیرعازم ہوں گیں.لیکن میری کوشش تھی کے ان چند باتوں کو آپ کے سامنے رکھ سکوں جو سکرین پر نہیں دکھائی جاتیں جو سوالات سکرین پر نہیں کیے جاتے، جو اخبارات میں نہیں لکھے جانتے.
ایک عام پاکستانی
Why Imran Khan? or Why not?