بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایسی آواز کی جس میں ہمدردی ہو، جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہر گھاؤ کو سی دے۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’آؤ پہلا قدم دھرتے ہیں‘‘ سے اقتباس)
یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں
آخر تم ہی بتاؤ کیونکر نہ تم کو چاہیں
اب سر اٹھا کے میں نے شکوؤں سے ہاتھ اٹھایا
مرجاؤں گا ستم گر نیچی نہ کر نگاہیں
کچھ گل ہی سے نہیں ہے روح نمو کو رغبت
گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں
اللہ ری دل فریبی جلووں کے بانکپن کی
محفل میں وہ جو آئے کج ہوگئیں...
کیا وجود انسانی اتنا ارزاں ہے کہ اس کو یونہی ضائع ہونے دیا جائے ۔۔۔۔۔ جب انسان کا وجود تخلیق ہوتا ہے تو کن کن پردوں میں اور کہاں کہاں خدا اس کی حفاظت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ کہاں سے خوراک اور کہاں سے سانسیں اس کو بہم پہنچاتا ہے ۔۔۔۔۔ اور جب انسان باشعور ہوتا ہے تو...
کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں
کہ چند سانس بھی آئے نہ اپنے حصے میں
وہ ایک ایسے سمندر کے روپ میں آیا
کہ عمر کٹ گئی جس کو عبور کرنے میں
مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ
یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں
ملی تو ہے مری تنہائیوں کو آزادی
جڑی ہوئی ہیں کچھ آنکھیں مگر دریچے میں...
جھولی بھردے میرے مالک
یاخدا! تو جانتا ہے کہ میں تیری کائنات کا سب سے حقیر ذرہ ہوں، لیکن میری کم ظرفی کی داستانیں آسمان سے بھی بلند ہیں۔ میری حقیقت سے اور میرے دل میں چھپے ہر چور سے بس تو ہی واقف ہے۔ میرے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل سہی، تیری بے کراں رحمت سے کم ہے۔ سو، میری منافقت بھری توبہ و...
انسان کا جڑنا
مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا...
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بیکسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجئے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بے زار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے...
مٹی کا رشتہ
آدم کی تخلیق میں تراب، یعنی مٹی کا عنصر پانی، ہوا اور کچھ دیگر لوازمات سے زیادہ رہا ہے۔ اس کو اتارا بھی اسی مٹی پہ، اس کی بیشتر معیشت، کاروبار، حیات، ذرائع و وسائل، جینا مرنا اسی مٹی اور زمین کی مرہون منت ٹھہرائے گئے۔ اس کی گِل اسی مٹی سے تیار ہوئی۔ اس کی فطرت و فہامت اس مٹی کی...
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں...